تربت یونیورسٹی: مطالبات کی منظوری کے لیے طلبہ کا احتجاج، جینا ہے تو لڑنا ہو گا!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|
تربت یونیورسٹی میں انتظامیہ کے آمرانہ رویے کے خلاف طلبہ کی بڑی تعداد نے 16 نومبر بروز جمعرات یونیورسٹی میں ایڈمن بلاک کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ طلبہ کا بنیادی مطالبہ جامعہ میں شعوری و سیاسی سرگرمیوں پر اعلانیہ پابندی ہٹانا تھا۔ تربت یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پچھلے ایک سال سے یونیورسٹی کو قید خانہ بنا دیا گیا ہے جہاں کوئی طالب علم یونیورسٹی کے اندر بغیر اجازت داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی والدین آزادی سے اپنے بچوں سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
یونیورسٹی کے اندر ہر قسم کی طلبہ سیاست پر پابندی لگائی گئی ہے جہاں طلبہ کو کسی بھی قسم سیاسی گفتگو اور اسٹڈی سرکلز کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ دوسری جانب بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کو بھی پولیس چھاؤنیوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے جہاں پر سیکیورٹی فورسز کی ہر وقت موجودگی سے طلبہ ذہنی کوفت کا شکار رہتے ہیں اور انہی تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی اداروں کے افسران کی کھلم کھلا مداخلت اور ان کی سرگرمیوں پر کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔
یونیورسٹی کے اندر سیکیورٹی اداروں کی موجودگی کی وجہ سے طلبہ تعلیمی اداروں میں ہر حوالے سے خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں جس کی واضح مثال سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی بھی ہے جن کو بلوچستان یونیورسٹی سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کچھ طلباء اپنے ہاتھوں میں کتاب اٹھائے ہوئے یونیورسٹی میں داخل ہو رہے تھے اور سیکیورٹی والے انہیں یونیورسٹی کے اندر کتاب لے جانے سے زبردستی روک رہے تھے۔

اس سے قبل تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ پر بُک اسٹال لگانے سے طلبہ کو روکا تھا اور یونیورسٹی کے سیکیورٹی گارڈز نے بُک اسٹال لگانے والے طلبہ کی ویڈیو بنا کر ان کی پروفائلنگ بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ طالبات کی جانب سے بھی شکایت کی جا رہی ہے کہ جامعہ میں عسکری اداروں کی مداخلت میں اضافہ ہو رہا ہے اور طالبات کو زبردستی عسکری حکام کی تقاریب میں شرکت کے لیے لے جایا جاتا ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس جامعہ تربت کی انتظامیہ کے آمرانہ رویے کی شدید مذمت کرتا ہے اور ہم احتجاج کرنے والے طلبہ کے ساتھ مکمل یکجہتی کرتے ہوئے ان کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست پر اعلانیہ پابندی فی الفور ختم کیا جائے۔ ان تمام مطالبات کی تکمیل کے لیے یونیورسٹی میں ہر ڈیپارٹمنٹ کے اندر طلبہ کی منتخب شدہ کمیٹیوں کا بننا اور طلبہ یونین کی بحالی ایک ناگزیر عمل ہے جو کہ اس وقت پاکستان بھر میں پابندی کے زیر عتاب ہے۔ طلبہ کو اپنی جدوجہد کے ذریعے ہی اپنی منتخب شدہ کمیٹیوں اور طلبہ یونین کی بحالی کی طرف بڑھنا ہو گا۔
تعلیمی اداروں میں یونین سازی طلبہ کا آئینی، سیاسی اور قانونی حق ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ طلبہ یونین پر پابندی کو فی الفور ختم کر کے طلبہ یونین کے الیکشن کروائے جائیں اور تعلیمی اداروں کے تمام انتظامی امور میں طلبہ کی نمائندگی موجود ہو۔ اس ضمن میں پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں طلبہ کو منظم کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے، ہم پاکستان بھر کے طلبہ اور سیاسی کارکنان سے اس جدوجہد اور پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بننے کی اپیل کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.