بلوچستان: ایک ہی دن میں تین نوجوانوں نے خود کشی کر لی۔۔۔ نجات صرف سوشلسٹ انقلاب ہے!

26 مارچ بروز منگل کو صرف ایک ہی دن میں تین نوجوانوں کی خودکشیاں مکُران سے رپورٹ کی گئی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سماج اب زندہ رہنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس ملک میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا مستقبل بلکل تاریک بن چکا ہے، تب ہی نوجوانوں اس تکلیف دہ زندگی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خودکشیاں نہیں بلکہ قتل ہیں جس کی ذمہ دار موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

ان نوجوانوں میں ایک سترہ سالہ نوجوان راجا ولد گوہر، جو ضلع گْوادر کی تحصیل پسنی کے وارڈ نمبر 7 ریکپشت کا رہائشی تھا، نے گلے میں پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی۔ دوسرا نوجوان جو میناز بلیدہ ڈسٹرکٹ کیچ سے تعلق رکھتا تھا نے ڈسٹرکٹ جیل تُربَت میں ناڑے سے پھندہ ڈال کر خودکشی کرلی۔ ایسا ہی ایک اور حادثہ ڈسٹرکٹ کیچ سے رپورٹ ہوا ہے، جہاں ایک جوان لڑکے محمد نور ولد حاجی زرین نے گلے میں رسی ڈال کر خودکشی کرلی۔

اس کے علاوہ اسی مہینے کی17 تاریخ کو بلوچستان کے ڈسٹرکٹ حب سے تعلق رکھنے والے ایک داؤد نامی نوجوان فوٹوگرافر نے خودکشی کرلی، دوسرے دن 18 مارچ کو خاران میں رحمت اللہ ولد عبدالحق جو جیکب آباد کا رہائشی تھا، نے خودکشی کرلی۔ اس سے پانچ دن پہلے ڈیرہ الہیار میں عارف رند نامی ایک نوجوان نے خود پر پسٹل کے فائر کرکے خودکشی کرلی، اس کے علاوہ 8 مارچ کو کوئٹہ میں ایک نوجوان نے خود کو گولی مارکر زندگی کا انت کردیا۔ یہ محض اس مہینے میں رپورٹ ہونے والی خودکشیاں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ایسے کیسز بھی ہوئے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوسکے ہیں۔

بلوچستان میں خودکشیوں کا رجحان پاکستان کے دوسرے علاقوں کے طرح دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، جہاں خودکشی کرنے والوں کی زیادہ تر تعداد 12 سے 20 سال کی عمر کے جوانوں کی ہے۔

ان میں سے زیادہ تر ایسے جوان ہیں جو بیروزگاری، غربت، اور جنسی ہراسانی کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں۔ پچھلے سال تُربَت سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نے میڈیکل کا سیٹ نہ ملنے پر خودکشی کی تھی۔ اسی طرح پچھلے مہینے بھی گْوادر، پنجگور اور کوہلو سے نوجوانوں کی خودکشیاں رپورٹ ہوئی تھیں۔

نوجوانوں میں نفسیاتی بیماریوں اور بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی وجوہات موجودہ امیر اور غریب پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں۔ پاکستان میں موجود تمام سیاسی پارٹیاں اور حکمران طبقے کے دیگر حصے اس نظام کے رکھوالے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تمام تر دولت تو محنت کش پیدا کرتے ہیں، مگرذرائع پیداوار سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔

لہٰذا ساری پیدا کردہ دولت بھی انہی امیروں کے کنٹرول میں ہوتی ہے، جو انہوں نے محنت کشوں کی محنت کو نچوڑ کر لوٹی ہوتی ہے۔ اسی لیے امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے اور غریب غریب ترہوتا چلا جاتا ہے۔منافع پر مبنی اس نظام کے باعث محنت کش کے لئے زندگی گزارنا دن بدن عذاب بنتا چلا جاتا ہے۔ مسلسل زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے اس نا ختم ہونے والے پریشر سے جہاں وہ کئی مہلک نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، تو دوسری طرف اس اذیت سے نجات حاصل کر نے کا کوئی واضح راستہ بھی ان کو میسر نہیں ہوتا۔

آخر کار اس کشمکش سے تنگ آکر وہ اپنی جان تلفی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں ایک طرف ان کا اس انسان دشمن سماج سے نبرد آزمائی میں ناکامی ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف اس نظام سے بیزاری اور چھٹکارے کے احساسات کا بھی مکمل طور پر اظہار ہوتا ہے۔ اس اذیت ناک اور جانوروں سے بھی بدتر زندگی سے نجات پانے کی خاطر نوجوانوں ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔ یہ کیفیت تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی، اگر ان نوجوانوں کو درست انقلابی نظریات تک رسائی ہو گئی، تو اس باغیانہ موڈ اور انقلابی نظریات کے تحت اس نظام کے پرکھچے اڑا کر رکھ دیں گے۔

اس وقت پاکستان تاریخ میں کبھی نہ دیکھے گئے سیاسی، معاشی اور ریاستی بحران سے گزر رہا ہے۔ حکمران طبقات کی تمام تر امیدیں آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی امداد سے منسلک ہیں اور ان کے حکم نامے پر عوام پر گھناؤنے حملے کر رہے ہیں۔ بحران کا سارا بوجھ ٹیکسوں کی شکل میں عوام پر لادا جارہا ہے۔ عوامی ادروں کو بیچا جارہا ہے، مہنگائی میں بے تہاشہ اضافہ کیا جارہے۔ اور ہر طرح کی لوٹ مار کے ذریعے اشرافیہ، بیورو کریٹوں، عوام دشمن سیاست دانوں، ججوں، جرنیلوں اور سرمایہ داروں کو عیاشیوں کے ہزارہا مواقع دیے جارہے ہیں۔

لیکن اس کے برعکس محنت کشوں اور غریب عوام کا معیار ِزندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ جس کے جواب میں ملک بھر میں عوامی کی شاندار مزاحمت جاری ہے۔ کشمیر میں جاری بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے انکار کی تحریک، گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی میں کٹوتی کے خلاف تحریک، مسنگ پرنسز اور ریاستی جبر کے خلاف بلوچ عوامی تحریک اور پنجاب کے لیڈی ہیلتھ ورکرز اور اساتذہ کی لڑاکا تحریک کی شکل میں حکمران طبقے کے عوام دشمن فیصلوں کا منہ توڑ جواب دیا جارہا ہے۔ ان تحریکوں نے حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا ہے۔ ان تمام تحریکوں کو متحد کر کے منافع پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام پر مشترکہ طور پر کاری ضرب لگاتے ہو ئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حتمی کامیابی ممکن ہے۔

لہٰذا ہم تمام نوجوان ساتھیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ خود کشیوں کی بنیادی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی اور ذلت سے بھری اس زندگی کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے رائج الوقت تمام سیاسی پارٹیوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سرداروں، ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے خلاف طبقاتی بنیادوں پہ علَم بغاوت بلند کرنا ہوگا۔ اور محنت کش عوام کی انقلابی صلاحیت کا استعمال کر کے اس دھرتی پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہوگا۔

سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام تر پیداوار کامقصد انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کرنا ہوتا ہے، نہ کہ موجودہ سرامایہ ادارانہ نظام کی طرح منافعوں میں اضافہ کرنا۔ جب تمام پیداوار انسانوں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر کی جائے گی تو مہنگائی، بے روزگاری، لاعلاجی، جہالت اور غربت کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس یہ سمجھتا ہے کہ یہ خودکشیاں نہیں بلکہ قتل ہیں جس کا ذمہ دار یہ سرمایہ دارانہ نظام اور یہاں رائج الوقت حکمران پارٹیاں ہیں، جوعوام کو بنیادی ضروریات زندگی تک مہیا نہیں کرپا رہیں۔ آج صرف ایک انقلاب کی جدوجہد ہی ذلت و رسوائی سے چھٹکارے کا واحد رستہ ہے۔ ایک ایسی انقلابی جدوجہد جو سرمایہ ادرانہ نظام کے خاتمے کے لیے کی جائے، جو صرف سوشلزم کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت ہی سرمایہ داری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، باقی تمام نظریے اور حکمت عملیاں جھوٹ، فراڈ اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کے لیے طلبہ اور نوجوانوں کو سوشلزم کے انقلابی نظریات سے روشناس ہوکر ملک گیر سطح پر منظم ہونا ہوگا۔

پروگیسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.