یہ عربی زبان میں ایک فلم ہے جو مسئلہ فلسطین کے ایک انتہائی بنیادی پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ 1948ء میں فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے آغازکی ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی اس پورے خطے کے ایک گاؤں میں موجود ایک باپ اور اس کی بیٹی کی کہانی ہے جو ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اچانک نکبہ کے تاریخی واقعے اور اسرائیلی فوج کے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فلسطین پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے اس مسئلے کی سنگینی کو مزید ابھارا ہے اور پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے نئی بحثوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں فلسطین کی آزادی کے لیے لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں جبکہ پوری دنیا کی سامراجی طاقتیں اور حکمران طبقات اسرائیل کی کھلم کھلا یا درپردہ حمایت کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے آغاز کے جرم کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے یا پھر اس حوالے سے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس فلم میں اس ظالمانہ قبضے کے حوالے سے ایک جھلک نظر آتی ہے کہ کس طرح اس خطے میں رہنے والے ساڑھے سات لاکھ کے قریب مقامی افراد کو ان کے گھروں سے نکال دیا گیا اور ان کی نسلیں آج تک دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔ یہ ایک بچی کی کہانی ہے جس کا باپ اسے تحفظ دینے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا ہے اور ان دو کرداروں کے گرد پورے گاؤں کے حالات کی ایک جھلک بھی نظر آتی ہے۔ فلم کی ڈائریکٹر دارین جے سلام خود بھی اردن میں رہنے والی فلسطینی ہیں اور ان کے مطابق یہ فلم ایک اصل کہانی سے ماخوذ ہے اور انہوں نے اپنے بچپن میں اس بچی کی کہانی سنی تھی۔
فلم میں منظر نگاری انتہائی خوبصورتی سے کی گئی ہے اور اُس وقت کی فلسطینی ثقافت بھی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں کی سادہ زندگی اور کرداروں کی گفتگو بھی حقیقت نگاری پر مبنی ہے۔ روایتی فلموں کی طرح اس میں ہیرو ازم یا مبالغہ آرائی کی بجائے حقیقی واقعات اور مظالم کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم دیکھنے والا یقینا فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو بخوبی سمجھ سکتا ہے اور اسرائیل کی صیہونی ریاست کے قیام کی سامراجی بنیادوں کو بھی سمجھ سکتا ہے۔