کمیونزم، پاکستان اور آج کی دنیا

|تحریر: فضیل اصغر|

یقیناً آپ نے کبھی نہ کبھی ’کمیونزم‘ یا ’سوشلزم‘ کا نام ضرور سنا ہو گا۔ یونیورسٹی میں کسی پروفیسر سے، یوٹیوب کی کسی وڈیو میں یا پھر شاید کسی فلم میں۔ مگر میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ کمیونزم کے لفظ کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی ضرور سنا ہو گا کہ یہ نظام روس میں ناکام ہو چکا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ پاکستان سمیت پوری دنیا کے حکمران اور ان کے پالتو دانشور اور پروفیسر کمیونزم کو جان بوجھ کر ایک ناکام نظام کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ سوشلزم کے تحت روس (انقلاب کے بعد جس کا نام سوویت یونین ہو گیا تھا) چند دہائیوں میں ہی دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن گیا تھا۔ حتیٰ کہ خلا میں سب سے پہلا سپیس سٹیشن (Space Station) بھی سوویت یونین کی مزدور ریاست نے ہی قائم کیا۔ اس کے علاوہ بھی تعلیم، ریسرچ، صحت، معیشت سمیت کئی اور میدانوں میں باقی سرمایہ دارانہ دنیا سے بہت آگے تھا۔ اول تو سرمایہ دارانہ پالتو دانشوروں کی کوشش ہوتی ہے کہ طلبہ و نوجوانوں تک سوشلزم کا نام ہی نہ پہنچے اور اگر پہنچ بھی جائے تو بُرے الفاظ میں ہی پہنچے۔ تاکہ وہ اسے ناکام نظام سمجھ کر اس کے متعلق مزید جاننے کی کوشش ہی نہ کریں۔
پاکستان کے حکمرانوں نے بھی 1947ء سے ایسا ہی کیا ہے۔ مگر سچ کو زیادہ عرصے تک نہیں روکا جا سکتا۔ اسی لیے 1968-69ء میں اِسی پاکستان میں جب ایک بہت بڑی انقلابی بغاوت ہوئی تو ’کمیونزم‘ کا لفظ پورے ملک میں مشہور ہونا شروع ہو گیا۔ 1968-69ء میں مزدوروں نے فیکٹریوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے اور مزارعوں نے زمینوں اور جاگیروں پر۔ اُس وقت پاکستان میں منظم اور نظریاتی طور پر مضبوط ایک انقلابی پارٹی موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس انقلابی سرکشی کو ایک سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا نعرہ لگا کر محنت کش عوام کے اس انقلابی سرکشی کے جذبے کو اپنے ہاتھ میں کر لیا اور دوبارہ سرمایہ دارانہ نظام بحال کر دیا۔ محنت کشوں کے پریشر کی وجہ سے بھٹو کو کچھ اقدامات سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف بھی کرنا پڑے مگر بالآخر اس نے فیکٹریوں پر مزدوروں کے قبضوں اور جاگیروں پر مزارعوں کے قبضوں کو ختم کرا دیا۔ اس طرح یہ انقلاب کامیاب نہیں ہو سکا۔ ملکی و عالمی سامراجی حکمرانوں کو پاکستان کے محنت کشوں کی بغاوت پر شدید غصہ تھا مگر وہ بدلہ لینے کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہے تھے۔ بالآخر وہ وقت آ گیا۔ بھٹو کی مزدور دشمن پالیسیاں جوں جوں بڑھتی گئیں تو اس کی عوامی حمایت بھی کم ہوتی چلی گئی اور پھر ضیاء الباطل آیا۔
ضیاء نے بھٹو کو پھانسی لگا دی۔ ضیاء پاکستان کی تاریخ کا سب سے بد ترین عوام دشمن حکمران تھا۔ اس نے ہر طرح کی جمہوری آزادیوں پر پابندیاں لگانا شروع کیں۔ اس نے اسلام کا نام لے کر تعلیمی نصاب کو مکمل طور پر ایسا بنایا جو نوجوانوں میں تخلیقی و تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانے کی بجائے انہیں اطاعت و فرمانبرداری سکھائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے طلبہ یونین پر بھی پابندی لگا دی تا کہ نوجوانوں کو غیر سیاسی کیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ جب نوجوان غیر سیاسی ہو جائیں گے تو پھر کوئی بھی اس کی حکمرانی پر تنقیدی سوال ہی نہیں کرے گا۔ اسی طرح امریکی ڈالروں کے زور پر مدرسوں اور میڈیا کے ذریعے پورے سماج میں شدت پسندانہ مذہبی سوچ کو پروان چڑھایا گیا۔ 1978ء میں افغانستان میں ’ثور انقلاب (Saur Revolution)‘ برپا ہو گیا۔ نہ تو امریکہ چاہتا تھا کہ یہ انقلاب باقی خطے میں پھیلے اور نہ ہی پاکستانی حکمران، لہٰذا کمیونزم کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کیا گیا۔ امریکی مفادات کے تحت پاکستانی ریاست کی جانب سے افغانستان میں شروع کیے گئے ڈالر جہاد کی وجہ سے بھی یہ عمل مزید شدت اختیار کرتا گیا۔
اس دوران 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کو سرمایہ داروں کے پالتو دانشوروں نے سرمایہ داری کی فتح قرار دیا۔ اسی دور میں فرانسس فوکویاما کی کتاب ”تاریخ کا خاتمہ“ شائع ہوئی جس میں یہ کہا گیا کہ اب دنیا سے امیر اور غریب، سرمایہ دار اور مزدور کی لڑائی (جسے کارل مارکس طبقاتی کشمکش کہتا ہے) ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے لہٰذا کمیونزم کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔ جبکہ در حقیقت سوویت یونین انقلاب کے عالمی سطح پر نہ پھیل پانے اور ایک ملک تک محدود رہ جانے کی وجہ سے افسر شاہانہ زوال پذیری کا شکار ہو گیا اور سٹالن کے غیر سائنسی نظریات اور پالیسیوں کے نتیجے میں ٹوٹا تھا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کی پیشن گوئی بذات خود انقلاب روس کے لیڈر لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی کتاب ”انقلاب سے غداری“ میں کی تھی اور اس کی سائنسی وجوہات بھی بیان کی تھیں۔ مگر کسی ٹی وی پروگرام یا مشرقی و مغربی ممالک کی یونیورسٹیوں میں اس کتاب کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔
سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کمیونسٹوں کی بھی بہت بڑی تعداد کمیونزم سے دور ہو گئی اور کوئی صوفی بن گیا، کسی نے یورپ و امریکہ میں نوکری یا کاروبار شروع کر لیا، کئی سابقہ کمیونسٹوں نے این جی اوز (NGOs) بنا لیں۔ یہ سب وہ لوگ تھے جن کا مارکسزم کے ساتھ تعلق ایک سائنسی نظریے کی بجائے جذباتی یا عقیدے کے طور پر تھا۔ آج ان سابقہ کمیونسٹوں یا ان کی اولادوں کو آپ مختلف یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر، این جی اوز کے مالکان، میڈیا چینلز اور اخبارات میں بطور دانشور اور خاص طور پر یوٹیوب پر بطور دانشور کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت تو کُھل کر کمیونزم کی مخالفت کرتی ہے اور کچھ اپنے آپ کو کمیونسٹ ہی کہتے ہیں مگر انقلابی پارٹی کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے یوٹیوب وغیرہ پر بیٹھ کر محض دانشوری کرتے پائے جاتے ہیں۔ مؤخرالذکر کمیونزم سمیت دیگر سیاسی موضوعات کو یوٹیوب وغیرہ پر ایسے بیان کرتے ہیں جیسے کوئی معلوماتی لیکچر دیا جا رہا ہو نہ کہ انقلاب کے لیے نوجوانوں کو عملی جدوجہد کی ترغیب۔ یعنی کہ کمیونزم کو بطور انقلابی نظریے کی بجائے ایک ’اچھے‘ اور ’انسان دوست‘ نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسے بس جان لینا ہی کافی ہے۔ ان کو سُن کر آپ کو بزرگوں اور سکول کے اساتذہ کی وہ نصیحتیں یاد آئیں گی کہ ”دوسروں کو دکھ نہیں دینا“، ”چوری نہیں کرنی“، ”محنت میں عظمت ہے“ وغیرہ۔ ان کی باتوں سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ نظام میں مسئلہ نہیں ہے، اصل مسئلہ ہر انسان کے اپنے اندر ہے اور اگر ہر کوئی اپنے آپ کو ٹھیک کر لے تو ساری دنیا ٹھیک ہو جائے گی۔

در حقیقت مارکسزم ہے ہی عین اسی سوچ کے خلاف۔ مارکسزم کے مطابق اصل مسئلہ انسانوں میں نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانوں کی ضرورت کی بجائے منافع کے لیے پیداوار کی جاتی ہے چنانچہ انسان ایک ایسی مشین بن جاتا ہے جس کا مقصد پیسے کے لیے زندہ رہنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس نظام کو بدل کر ہی انسانوں کو بھی بدلا جا سکتا ہے۔ یہ تبدیلی پارلیمنٹ، فوج اور عدالتوں میں بُرے اور کرپٹ لوگوں کی جگہ ایماندار لوگوں کے آجانے سے نہیں آ سکتی اور نہ ہی میڈیا، فلموں، ڈراموں اور نصیحتوں کے ذریعے لوگوں کی سوچ تبدیل کی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو آج تک جتنی اصلاح کرنے والی کتابیں لکھی گئی ہیں، جتنی انسان دوستی کا پیغام دینے والی فلمیں اور ادب تخلیق ہوا ہے، کوئی انسان بھوکا نہ سو رہا ہوتا، کہیں دہشت گردی نہ ہوتی، دنیا میں کہیں جنگیں نہ ہوتیں۔ کارل مارکس نے اسی لیے کہا تھا کہ انسانوں کی سوچ میں تبدیلی صرف ایک نئے نظام میں ہی آ سکتی ہے جس میں منافع کی بجائے انسان کی ضرورت کے مطابق معیشت اور سماج چلایا جائے۔ ایسے نظام کو سوشلزم کہتے ہیں۔ مگر یہ سرمایہ دارانہ نظام صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ آج صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو سوشلزم کی ضرورت ہے، جو محض نام کا کمیونسٹ بن کر یا ’اچھی‘ سوچ اپنا لینے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد کرنی پڑے گی۔
آج سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہ در حقیقت زائد پیداوار کا بحران ہے جس میں منڈی کی حدود سے زیادہ پیداوار کے پوٹینشل کی وجہ سے سرمایہ داروں کا شرح منافع کم ہو چکا ہے اور دوسری جانب بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور منڈی کی کھپت (Consumption) میں بھی تیز ترین کمی آتی جا رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں مٹھی بھر حکمرانوں کے پاس اربوں محنت کشوں سے زیادہ پیسہ موجود ہے۔ آئے روز کروڑوں محنت کشوں کی آمدن کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی دولت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی شدید بحران کا شکار ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے سرمایہ دارانہ ممالک کی حکومتوں نے بڑے پیمانے پر سستے قرضے دینے شروع کیے جس کے لیے نئے نوٹ چھاپے گئے۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف بہت بڑے پیمانے پر ریاستوں پر قرضوں کے انبار لگ گئے تو دوسری طرف افراط زر (Inflation) میں اضافہ ہو گیا۔ اس وقت امریکہ اور یورپ میں افراط زر میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے اور وہاں کے مرکزی بینکوں کو اب مجبوراً شرح سود بڑھانی پڑ رہی ہے جس سے بحران مزید شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جرمنی، جسے یورپ کا انجن کہا جاتا ہے، کی انڈسٹری بند ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جلد ہی جرمنی کساد بازاری (Recession) کا شکار ہو نے والا ہے۔ چین کے اندر پراپرٹی مارکیٹ شدید بحران کا شکار ہے اور پراپرٹی کی قیمتیں تیزی سے گر رہی ہیں۔ اب چونکہ چین میں بھی باقی دنیا کی طرح پیداواری سیکٹر کی بجائے غیر پیداواری سیکٹر جیسے پراپرٹی میں زیادہ انویسٹمنٹ کر کے وقتی طور پر معیشت کو دھکا لگایا گیا، لہٰذا اب جب پراپرٹی کا بلبہ پھٹ رہا ہے تو بڑے پیمانے پر پراپرٹی پر انحصار کرنے والی چینی معیشت کو ایک خوفناک بحران کا سامنا ہے۔ اسی طرح چینی بینک اور پراپرٹی سے منسلک بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔ دیوالیہ پن کا یہ سلسلہ پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
تمام ریاستوں کے حکمرانوں کے پاس اس بحران کا ایک ہی حل ہے کہ محنت کشوں پر ٹیکس مزید بڑھا دیے جائیں اور سرمایہ داروں کے کاروباروں کو ڈوبنے سے بچایا جائے (جسے بیل آؤٹ Bailout کہا جاتا ہے)۔ مگر اس کے نتیجے میں غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح یہ بحران پاکستان جیسے چھوٹے ممالک تو چھوڑیں امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ خطوں کے تمام حکمرانوں تک کے کنٹرول سے بھی باہر ہو چکا ہے۔ یعنی کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ بحران کسی ایک سیاسی پارٹی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، بلکہ یہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے۔ آج دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں آ جائے، سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اُسے مزدور و عوام دشمن اقدامات ہی اٹھانے پڑیں گے۔ اُسے سرکاری اداروں کی پرائیویٹائزیشن کرنی ہی پڑے گی، بنیادی ضروریات کی اشیاء پر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا ہی پڑے گا، تنخواہیں کم کرنی ہی پڑیں گی، مہنگائی میں اضافہ کرنا ہی پڑے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال 2015ء میں یونان میں اقتدار میں آنے والی سائریزا نامی پارٹی ہے جو اپنے آپ کو سوشلسٹ کہتی تھی اور یہ وعدہ کر کے اقتدار میں آئی تھی کہ وہ سرمایہ داروں پر ٹیکس لگائے گی اور محنت کشوں کو ریلیف دے گی۔ مگر چونکہ وہ یہ سب کچھ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا چاہتی تھی نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ختم کر کے، لہٰذا بری طرح ناکام ہوئی اور اُلٹا محنت کشوں پر بدترین ٹیکس لگائے اور مزدور دشمن اقدامات اٹھائے۔ اس کے نتیجے میں محنت کش عوام پھر اس پارٹی کے خلاف بھی ہو گئے۔ لہٰذا اگر موجودہ بحران سے جان چھڑانی ہے تو پھر نجی ملکیت، بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نظام ’سرمایہ داری‘ کو ختم کر کے منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی سماج کو چلانا پڑے گا۔
آج جتنی جدید ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیت موجود ہے، اگر اسے منافع خوری کی بجائے منصوبہ بندی کے تحت تمام انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو چند مہینوں میں پوری دنیا سے غربت، بیروزگاری اور جہالت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
اسی لیے پاکستان میں بھی خواہ اسٹیبلشمنٹ کے آشیرباد کے ساتھ یا آشیرباد کے بغیر نون لیگ کی حکومت ہو، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی یا کسی اور قوم پرست یا مذہبی پارٹی کی یا پھر براہ راست مارشل لاء ہو، کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ پاکستانی حکمرانوں کے پاس ملک چلانے کے لیے وہی مزدور دشمن پالیسیاں ہیں جو باقی ممالک کے حکمرانوں کے پاس ہیں۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سی پیک کی مد میں آنے والے چینی قرضوں سمیت تمام تر دیگر سامراجی قرضوں کے سہارے چلنے والی پاکستانی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے بس باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔ اس دیوالیہ پن سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ یہ کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی دولت کو ضبط کیا جائے، سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کر کے مزدور ریاست قائم کی جائے اور تمام تر دولت کو منصوبہ بندی کے تحت پورے سماج کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ذرائع پیداوار یعنی کہ تمام بڑے بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، بڑی فیکٹریوں اور جاگیروں کو چند سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ملکیت سے چھین کر مزدور ریاست کے کنٹرول میں لیا جائے اور انہیں جمہوری طور پر منصوبہ بندی کے تحت انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے نہ کہ منافع کے لیے۔
پاکستان میں یہ تمام اقدامات موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست (پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج وغیرہ) کے ذریعے نہیں ہو سکتے کیونکہ اس ریاست کو چلانے والے خود ہی سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس ریاست کو اچھے اور ایماندار لوگ چلائیں تو سب کچھ بہتر ہو جائے گا تو وہ حکمرانوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو رہا ہے۔ جب تک اس ریاست کو جمہوری طور پر منتخب شدہ محنت کش عوام کی کمیٹیاں نہیں چلاتیں تب تک سماج کی اکثریت کے مفادات کی ترجمانی نہیں ہو سکتی۔ مگر محنت کش اس ریاست کا کنٹرول موجودہ سیٹ اپ یعنی سرمایہ دارانہ ریاست میں نہیں سنبھال سکتے۔ لہٰذا محنت کشوں کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ ریاست پر قبضہ کر کے منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔
سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے کمیونزم کے نظریے پر قائم ایک منظم ڈسپلن والی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے۔ تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں ایک ایسی انقلابی پارٹی موجود تھی وہاں محنت کش طبقہ انقلاب کرنے میں کامیاب ہو گیا اور جہاں نہیں موجود تھی وہاں ناکامی ہوئی۔ مثلاً 1917ء میں روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی (Bolshevik Party) سوشلسٹ انقلاب کرنے میں کامیاب ہو گئی مگر دو ہی سال بعد 1919ء میں جرمنی میں انقلاب کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ وہاں ایک انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی۔ اسی طرح بیسویں صدی میں کئی اور انقلابات صرف اسی لیے ناکام ہوئے کیونکہ ایک انقلابی پارٹی موجود نہیں تھی۔ لہٰذا پاکستان میں تیز ترین بنیادوں پر ایک انقلابی پارٹی تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پاکستان میں ایک ایسی ہی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد کا حصہ ہے۔ اگرچہ سوشلسٹ انقلاب محنت کش طبقہ ہی کرتا ہے مگر اس انقلاب کی قیادت اور انقلابی تحریک میں ایک عمل انگیز (Catalyst) کا کردار ادا کرنے والی انقلابی پارٹی میں محنت کشوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بلکہ جس انقلابی پارٹی کی قیادت اور اکثریت نظریاتی طور پر پختہ نوجوانوں پر مشتمل ہو، وہی کامیاب ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہم پاکستان کے طلبہ و نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ہماری تنظیم کا حصہ بنیں اور غلامی اور ذلت سے بھرپور زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.