کیا فری لانسنگ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا حل ہے؟

|تحریر: عرفان منصور|

آن لائن لیبر انڈیکس کے مطابق20 لاکھ37ہزار سے زائد پاکستانی اس وقت فری لانسنگ کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں اور اس میں بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب پاکستان فری لانسنگ کے حوالے سے دنیا کے پہلے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے۔حکومت نے بھی مختلف آن لائن سکلز سکھانے والے اداروں کے اشتراک سے ملکی اور صوبائی سطح پر کئی پروگرام شروع کررکھے ہیں اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو اب نوجوانوں کو غربت اور بے روزگاری سے نکال سکتا ہے اور ملک کے معاشی بحران میں بھی کمی کا ایک راستہ بن سکتا ہے۔اس تمام ریاستی پراپیگنڈے کے پیش نظر ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی فری لانسنگ سے بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟اس کا جواب نفی میں ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ کیوں فری لانسنگ کے ذریعے بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا؟
کرونا وبا کے بعد فری لانسنگ میں بہت زیادہ پھیلاؤ دیکھنے کو ملا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے ایک مستقل روزگار کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ کروڑوں لوگوں کے لیے پارٹ ٹائم روزگار کا بھی وسیلہ بن چکا ہے۔ پاکستانی حکومت نے مالی سال 2021-22ء میں فری لانسنگ سے آنے والی ریمیٹنسز کی مد میں 397.3ملین ڈالر سے زائد رقم حاصل کی۔
مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب فری لانسنگ سمیت مکمل گگ اکانومی کی پیچیدگیاں اور استحصال کی نئی شکلیں سامنے آرہی ہیں اور ان پر ریسرچ بڑھتی جارہی ہے۔ ایک حقیقت جو فری لانسنگ کو باقیوں سے الگ کردیتی ہے وہ اس کا بطورِ مجبوری اختیار کیا جانا ہے۔ فری لانسرز کی بھاری اکثریت اس کو بے روزگاری سے بچنے کے لیے اور ایک مستقل نوکری کی تلاش کے دوران ایک جزوقتی پیشے کے طور پر اختیار کرتی ہے اور پاکستان میں اسے زیادہ شفاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ جہاں سائنس اور آرٹس میں ایم فل کرچکے لوگ جب کسی روزگار کے حصول میں ناکام ہوجاتے ہیں تو روزی روٹی کے لیے گرافک ڈیزائننگ کرتے ہیں یا اسائنمٹیں لکھنا شروع کردیتے ہیں۔
یہ حقیقت اس ملک میں بے روزگاری کی تشویشناک صورتحال کو عیاں کر دیتی ہے۔ اول یہ کہ یہ ریاست روزگار دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ دوم یہ کہ ڈگریاں حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ صرف مہنگی رسیدوں کے سوا کچھ نہیں۔ سوم یہ کہ پروفیشنلزم اور تخلیق کے لیے جو مہارت اور دیگر لوازمات درکار ہوتے ہیں وہ اس ریاست میں نہیں مل رہے۔ یہ فہرست طویل ہوسکتی ہے مگر ابھی کے لیے رہنے دیتے ہیں۔
گگ اکانومی کو جو ایک اہم عنصر دیگر کنونشنل نوکریوں سے جدا کرتا ہے وہ یہ کہ اس میں سروسز بیچنے والے کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ کنونشنل نوکریوں میں کام کی جگہ وہ آلات جن پر کام کرنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صحت،رہائش،مستقل تنخواہ کے اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن جیسی سہولیات دی جاتی ہیں جوکہ دن بدن کم ہوتی جارہی ہیں۔
لیکن گگ اکانومی میں اور فری لانسنگ میں یہ سب کچھ محنت بیچنے والے کو خود سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اپنے کمائے ہوئے پیسے سے ہر ایک انتظام اور بڑھاپے کی پرسکون زندگی کا خواب سجائے وہ خود سے ہی لیپ ٹاپ، بائیک، انٹرنیٹ وغیرہ کا انتظام کرتا ہے اور اس کو ویسا کسی قسم کا حق حاصل نہیں ہوتا جیسا روایتی نوکریوں میں موجود ہوتا ہے۔ اس کا اس فری لانسر کی نسبت کہیں زیادہ فائدہ اس سے کام کروانے والی کمپنی کو ہوتا ہے۔ اسی متعلق کیلی او سی جی نے 2018ء میں ایک رپورٹ شائع کی کہ ان کے ایک سروے میں 65 فیصد منیجرز نے کہا کہ وہ اپنے کام کو فری لانس یا آؤٹ سورس اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے ان کے کام کی لاگت کم ہوجاتی ہے۔ یہ لاگت کی کمی درحقیقت وہ دولت ہوتی ہے جو روایتی نوکریوں میں ان کو اپنے ملازمین پر خرچ کرنا پڑتی ہے جو فری لانسنگ کی صورت میں ان کو بچ جاتی ہے اور ان کا منافع کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
اچھا، جب آپ فری لانسر سے بات کرتے ہیں تو فری لانسنگ کے فوائد گنواتے ہوئے اپنے پچھلے 36 گھنٹوں سے سوجے ہوئے چہرے، خون نکالتی آنکھوں اور تھکے ہوئے لہجے میں ایک فائدہ یہ بھی گنواتا ہے کہ ہمیں کام کرنے یا نہ کرنے اور اپنی منشا سے کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ اگر آپ مستقل فری لانسنگ کی مارکیٹ میں رہنا چاہتے ہیں، آرڈرز لینا چاہتے ہیں اور آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ایک چیز تو آپ کو میسر نہیں ہوسکتی ہے اور وہ ہے وقت کی آزادی۔ ری ویوز، ری ویژنز، مستقل آن لائن رہنا، آزادی کی بجائے مستقل غلامی کا اظہار ہیں اور اس وقت سائیکالوجی کے بہت سارے جرنلز سے آپ کو فری لانسرز اور گگ اکانومی کے ورکرز میں بڑھتی ہوئی بیگانگی اور ڈپریشن پر مواد مل جائے گا جو اس بات کا اظہار ہے کہ اس کام کی نوعیت ہی شدید غلامی اور استحصال والی ہے جس کا علاج موٹیویشنل سپیکرز کو سننا نہیں بلکہ کام کی نوعیت کو ہی مکمل بدلنا اور اس میں غلامی اور استحصال کا خاتمہ کرنا ہے۔
اگلی دلیل ہمیں یہ سننے کو ملتی ہے کہ پیسہ بہت ہے۔ خیر، اس سے انکار بھی نہیں ہے کہ گزشتہ سالوں کے اندر جنہوں نے اس اکانومی میں چینز قائم کر لیں وہ بہت پیسہ بنا رہے ہیں مگر اس کو بھی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ پاؤنیر نے فری لانسرز کی اجرت کے حوالے سے حال ہی میں ایک رپورٹ شیئر کی ہے کہ پاکستانی فری لانسر عالمی ریٹ سے سات گنا کم ریٹ پر کام کررہا ہے۔ اس سات گنا کم اجرت سے وہ اس پلیٹ فارم کو بھی پیسے دیتا ہے اور اس کے بعد مختلف ٹیکسز بھی ادا کرتا ہے مگر پھر بھی وہ دیگر کنونشنل پرائیویٹ جابز سے زیادہ کما لیتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ مقابلہ بازی کے سبب یہ صورت تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ ہر ایک پلیٹ فارم پر فری لانسرز کی تعداد، کلائنٹس سے بہت زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔ جس کا اظہار مسلسل کم ہوتی اجرتوں اور زیادہ سے زیادہ استحصال کی صورت میں نکلنا طے ہے۔
یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ کیا یہ نوجوانوں کا مستقبل ہوسکتا ہے؟ بحران زدہ پاکستانی ریاست نوجوانوں میں بے روزگاری کا غصہ ٹالنے اور ان کی ریمیٹنسز سے آنی والے پیسے کے لیے مختلف ای-روزگار کے کورسز کروا رہی ہے جن سے بنیادی نوعیت کے کام سکھائے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر تو اب بارڈ اور چیٹ جی پی ٹی بھی کردیتا ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ ریاست فری لانسرز کی آمدن پر مزید ٹیکسز بھی لگا کر ان کو لوٹے تو اس سے یہ سامنے آجاتا ہے کہ ریاست کا اس پر فوکس فری لانسرز کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ اپنی لوٹ مار کے لیے ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال بھی موجود ہے کہ کیا سب نوجوان فری لانسرز بن سکتے ہیں؟ پاکستان کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور مکمل آبادی کی کتنی تعداد کے پاس سمارٹ ڈیوائسز ہیں؟ لیپ ٹاپس یا کمپیوٹرز کے حوالے سے تو ڈیٹا دستیاب نہیں مگر ورلڈ بینک ڈویلپمنٹ
انڈیکیٹر کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 21 فیصد حصہ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے اور ان میں سے بھی 82 فی صد سیلولر موبائل سے انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ اس ایک فیکٹ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے فری لانسنگ پاکستان کے اکثریتی نوجوانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
مزید یہ کہ بڑھتا ہوا عالمی معاشی بحران اپنے الگ سے اثرات رکھتا ہے جس کا نتیجہ کم ہوتی ڈیمانڈ میں نکلے گا اور اس کے علاوہ بھی کنونشنل نوکریوں کی اہمیت و ضرورت اور اس کے حوالے سے ریاستی پالیسی بھی ایک بحث طلب مدعا ہے۔ اوپر کی گئی ساری بحث سے نتیجہ نکلتا ہے کہ فری لانسنگ استحصال کو ختم کرنے اور نظام کو بحران سے نکالنے کے برعکس اسی نظام کی محدودیت اور بحران کا ہی ایک اظہار ہے جس میں استحصال اور غلامی کئی گنا بڑھ کر سامنے آئی ہے۔ نوجوان اور عوام بے روزگاری اور کم تنخواہ پر روزگار کے سبب اس کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں جن میں ان کو کسی قسم کے لیبر حقوق حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ فری لانسنگ کا اپنا اس قدر ابھار بذات خود ریاست کی ناکامی اور نظام کے بحران کا اظہار ہی ہے جس کا حل فری لانسنگ میں نہیں بلکہ استحصال پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.