سکول، کالج، یونیورسٹی اور انقلابی کمیونسٹ سیاست

|تحریر: فضیل اصغر|

سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس کو پڑھایا جاتا ہے کہ محنت کرو اور اچھے نمبر لو تاکہ تمہارا مستقبل بن جائے۔ مگر کیا واقعی اچھے نمبر لینے سے مستقبل بنتا بھی ہے؟ جی نہیں!

ویسے تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 80 لاکھ سے زائد بچے غربت کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے، بہر حال جو جاتے ہیں انہیں بھی بچپن سے ہی طوطے کی طرح رٹے مروائے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کروایا جاتا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ اگر زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو پھر مقابلہ کرنا سیکھو۔ ہمیشہ کلاس میں نمبر ون آنے والے سٹوڈنٹ کو مثال بنا کر باقی سٹوڈنٹس کو ذلیل کیا جاتا ہے اور انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم کام چور ہو۔ بچپن سے مجھے خود یہ بات کبھی بھی سمجھ نہیں آئی کہ کلاس میں سب سٹوڈنٹس بھلا نمبر ون کیسے آ سکتے ہیں؟ تھوڑا بڑا ہونے کے بعد ایک اور سوال میرے ذہن میں پیدا ہوا کہ آخر ہم ایک دوسرے سے مقابلہ کر کیوں رہے ہیں؟ ایک تو سارا سارا دن طوطوں کی طرح رٹا مروایا جاتا ہے اور اوپر سے اتنا سخت ڈسپلن کیوں ہے؟ ہم نے ایسا کیا جرم کیا ہے کہ سکول کو جیل بنایا ہوا ہے؟ بہر حال جب میں یہ سوالات ٹیچر سے پوچھتا تو جواب میں مجھے بدتمیز کا ٹائٹل مل جاتا اور دو تھپڑ لگتے۔ سکول کے سٹوڈنٹس کو لگتا ہے کہ شاید سکول میں ہی ایسا ہے، کالج میں جا کر کچھ آزادی ملے گی۔

مگر کالج پہنچ کر انہیں پتہ چلتا ہے کہ اب تو انہیں پہلے سے بھی زیادہ رٹا مارنا پڑے گا کیونکہ اب ٹیچرز انہیں یہ کہتے ہیں کہ بیٹا اچھے نمبر لو گے تب ہی کسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ ملے گا اور اگر سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملا تو پھر کسی مہنگی پرائیویٹ یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑے گا۔ اسی طرح کالج میں بھی کم و بیش جیل کی طرح کا ہی ڈسپلن ہوتا ہے۔

اگر سرکاری کالجوں کی بات کی جائے تو ان میں زیادہ تر محنت کشوں کے بچے پڑھتے ہیں، یا پھر کچھ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے۔ آج کل شدید مہنگائی کی وجہ سے مجبوراً ماں باپ بچوں کو کالج جانے کی بجائے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ اگر وہ نہ بھی کہیں تو بھی بچے خود ہی گھر کا خرچہ چلانے کے لیے کام پر لگ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے سکول ختم ہونے کے بعد سٹوڈنٹس کی بڑی تعداد کالج تک بھی نہیں پہنچ پا رہی۔ حتیٰ کہ اب تو کالج میں پڑھنے والے کئی سٹوڈنٹس کو بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کرنی پڑ رہی ہے۔ ایسے میں ان پر زیادہ نمبر لینے کا بوجھ اب پہلے سے مزید بڑھ گیا ہے۔ اس وقت انہیں خواب دکھائے جا رہے ہیں کہ اچھے نمبر لے لو پھرکسی سرکاری یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ڈگری لو اور اچھی نوکری حاصل کر لو۔ کیا آگے جا کر ایسا ہی ہو گا؟ بالکل نہیں۔
اس وقت یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے سٹوڈنٹس کئی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ آج ڈگری کے بعد بھی نوکری کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اس وقت یونیورسٹیوں میں جتنے بھی سٹوڈنٹس پڑھ رہے ہیں ان کے ذہنوں میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ ”کہیں ہم ڈگری پر پیسے ضائع تو نہیں کر رہے؟“۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی 2022ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں 4000 پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والے نوجوان بیروز گار پِھر رہے ہیں۔ اب خود اندازہ لگا لیں کہ اگر پی ایچ ڈی کے بعد بھی ایک نوجوان بیروزگار ہے تو پھر باقیوں کا کیا بن رہا ہو گا؟ اسی لیے اس وقت زیادہ تر سٹوڈنٹس فری لانسنگ میں جا رہے ہیں مگر وہاں اب حالات اچھے نہیں رہے۔ اوپر سے سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی فیسیں بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں اور محنت کش کے بچے تو دور اب تو مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی یونیورسٹی میں تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہے۔

اوپر سے اس وقت پورا ملک قرضوں پر چل رہا ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہ ملے تو پاکستان چل ہی نہیں سکتا۔ مگر قرضے لینے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ وہ حد اب پوری ہوتی جا رہی ہے۔ مالی سال 2024ء میں پاکستان کو 27 ارب ڈالر قرضے واپس کرنے تھے جبکہ حکومت کے پاس محض 10 ارب ڈالر سے کچھ زائد ذخائر موجود تھے۔ ابھی آئی ایم ایف نے مزید قرضہ دیا ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی ہے کہ گیس، بجلی اور تیل سمیت باقی چیزوں پر ٹیکس مزید بڑھایا جائے۔ یعنی کہ مستقبل میں پہلے سے بھی زیادہ مہنگائی اور بیروزگاری ہونے والی ہے اور فیسوں میں اضافہ ہونے والا ہے۔ ایک طرف کروڑوں غریب محنت کش لوگ ایک وقت کے کھانے کو ترس رہے ہیں جبکہ دوسری جانب میڈیا پر نواز شریف، آصف زرداری، جنرل عاصم منیر اور عمران خان کی لڑائی کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

دوستو! باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس وقت ساری دولت اور وسائل پر مٹھی بھر امیروں کا قبضہ ہے۔ ہر حکومت میں یہی مٹھی بھر امیر لوگ یا ان کے رشتہ دار شامل ہوتے ہیں۔ فوج، عدلیہ، میڈیا، پولیس سمیت تمام ریاستی ادارے انہی کے کنٹرول میں ہیں۔ اسی لیے اس ملک کی عدالتوں میں اُس امیر آدمی کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے جس نے ایک نہیں بلکہ کئی قتل کیے ہوں، مگر غریب آدمی کو بغیر کسی جرم کے بھی سزا سنا دی جاتی ہے۔

چاہے جتنی بھی مہنگائی ہو جائے ان حکمرانوں کے پاس اتنا زیادہ پیسہ ہے کہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ در اصل آئی ایم ایف کی عوام دشمن پالیسیوں کو اس ملک میں لاگو کرنے والے یہ حکمران ہی ذمہ دار ہیں موجودہ مہنگائی کے۔ ان میں سے کسی کو بھی غریب مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں اور طلبہ کی کوئی فکر نہیں۔ اگر انہیں فکر ہوتی تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر تمام پارٹیاں پہلے بھی کئی بار حکومت میں رہ چکی ہیں اور اس وقت بھی ہیں، مگر انہوں نے پچھلے 76 سالوں میں ہمیشہ امیروں کو ہی فائدہ دیا۔ بینظیر انکم سپورٹ، دانش سکولز اور صحت کارڈ سمیت جتنی بھی پالیسیاں بنائی گئیں ان سب میں عوام کو بھکاری بنا کر امداد کے ٹکڑے پھینکے گئے۔ جبکہ در حقیقت تمام لوگوں کو روزگار، مفت علاج، مفت اور معیاری تعلیم اور رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسی کے بدلے تو یہ محنت کش عوام سے ٹیکس لیتے ہیں۔

سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمیں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ ماچس کی ڈبی سے لے کر موبائل فون تک ہر چیز پر لگنے والے ٹیکس سے جو پیسہ اکٹھا ہوتا ہے یہ عوام کی امانت ہے۔ اس پیسے سے ریاست نئے تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنائے گی، نیا روزگار پیدا کرے گی وغیرہ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور فوج، بیوروکریسی اور عدلیہ محنت کش عوام کے خادم ہیں۔ ہر شخص یہ بخوبی جانتا ہے کہ ایک گاؤں کا چوہدری اور بڑا جاگیردار یا بڑے شہروں میں بڑے بڑے بینکوں اور کمپنیوں کے مالک محنت کش عوام کے خادم نہیں بلکہ دشمن ہوتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ پورے ملک پر مٹھی بھر ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا قبضہ ہے۔ جس طرح غنڈے لوگوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے رشتہ داروں سے بھتہ لیتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی FBR، پولیس، فوج اور عدالتوں کے ذریعے محنت کش عوام سے ٹیکس نہیں لیتے بلکہ بھتہ وصول کرتے ہیں اور جو عام آدمی ٹیکس نہ دے یا کوئی مزدور، کسان یا طالب علم اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرے یا آواز اٹھائے تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں گرفتار کیا جاتا ہے۔

دراصل پاکستان سمیت پوری دنیا ہی دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف امیر لوگ ہیں جو ساری دولت پر قابض ہیں جن میں سرمایہ دار اور جاگیردار شامل ہیں اور دوسری طرف مزدور اور کسان ہیں۔ اسے طبقاتی نظام کہتے ہیں۔ اس میں حکمران طبقہ خود کوئی کام نہیں کرتا سوائے عیاشی کے۔ جبکہ مزدور ساری زندگی ان سرمایہ داروں کو اپنی قوت محنت بیچتا ہے تاکہ زندہ رہ سکے۔ ایک سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر چیز مزدوروں کی محنت سے بنتی ہے مگر مزدور کی محنت کا استحصال کر کے اسے منڈی میں بیچ کر منافع سرمایہ دار کماتا ہے۔

اسی طرح جس چیز میں ان امیروں کا فائدہ ہوتا ہے اُس میں غریب محنت کش عوام کا نقصان ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر حکومت لوگوں کو صاف پانی دینا شروع کر دے تو پھر نیسلے اور داسانی جیسی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منرل واٹر کی بوتلیں کون خریدے گا؟ اگر حکومت ٹیکس کے پیسے سے نئے اور معیاری سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بنا دے جن میں مفت اور جدید تعلیم دی جائے تو پھر بلوم فیلڈ ہال سکول، یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب، سپیرئیر کالج سمیت کئی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کاروبار تو بند ہو جائے گا۔ اسی طرح حکومت پورے ملک میں بیروزگاروں کی لسٹ تیار کر کے ان کے لیے نیا روزگار پیدا کر سکتی ہے۔ مگر ایسا کرنے سے فیکٹری مالکان کے منافعے کم ہو جائیں گے، کیونکہ اگر بیروزگاری ہو تو پھر یہ مزدوروں کو نوکری سے فارغ کرنے کی دھمکی دے کر انتہائی کم تنخواہ میں کام لیتے ہیں۔

مگر چونکہ محنت کش طبقہ تعداد میں حکمران طبقے سے بہت زیادہ ہے اور سماج کی ساری دولت بھی یہی پیدا کر رہا ہے، لہٰذا حکمران طبقے کو اس سے خطرہ رہتا ہے کہ کہیں مزدور فیکٹریوں پر قبضہ کر کے یہ نہ کہہ دیں کہ جب فیکٹری میں سارا مال ہم بنا رہے ہیں تو پھر اس پر کنٹرول بھی ہمارا ہی ہو گا۔ کہیں مزارعے اور چھوٹے کسان بڑے جاگیرداروں کی زمینوں پر قبضہ ہی نہ کر لیں۔ کہیں سٹوڈنٹس سکول، کالج یا یونیورسٹی پر قبضہ کر کے یہ نہ کہنا شروع کر دیں کہ ”فیسیں زیادہ ہیں، ہم نہیں دے سکتے، ہمیں تعلیم مفت دو“۔ لہٰذا پولیس، فوج، عدلیہ وغیرہ، جنہیں ریاست کہا جاتا ہے، کو محنت کش عوام کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے سرمایہ دار حکمران طبقہ استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے پولیس صرف غریبوں کو ہی مارتی ہے۔

جہاں ایک طرف حکمران ڈنڈے اور زور سے محنت کشوں اور سٹوڈنٹس کو کنٹرول کرتے ہیں وہیں انہیں حقیقی انقلابی سیاست سے بھی دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے سکول سے ہی سٹوڈنٹس کو یہ کہا جاتا ہے کہ سیاست کرنا تو نواز شریف، زرداری، عمران خان یا ان کے بچوں کا کام ہے، عام لوگوں کے بچوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سیاست ہوتی کیا ہے؟ کیا سیاست یہ ہے جو نواز شریف، زرداری اور عمران خان کر رہے ہیں؟ نہیں، یہ حکمرانوں کی سیاست ہے۔ اصل سیاست کا مطلب اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر فیسیں زیادہ ہیں تو ان کو ختم کرانے کے لیے جب کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اکٹھے ہو کر احتجاج کرتے ہیں تو وہ اصل سیاست ہوتی ہے۔ جب فیکٹریوں کے مزدور تنخواہ نہ ملنے یا کسی اور مسئلہ کے حل کے لیے اکٹھے ہو کر ہڑتال کرتے ہیں تو یہ اصل سیاست ہوتی ہے۔ جب بجلی کا بل گھر آتا ہے اور ہم اپنے ماں باپ کو سر پیٹتا دیکھتے ہیں تو وہ جو باتیں کر رہے ہوتے ہیں وہ سیاسی باتیں ہی ہوتی ہیں، بلکہ اصل سیاسی باتیں ہوتی ہی وہ ہیں۔

آج نوجوان جس سیاست سے نفرت کر رہے ہیں وہ ان حکمرانوں کی سیاست ہے۔ وہ واقعی اتنی غلیظ ہے کہ اس سے نفرت ہی کرنی چاہیے۔ مگر حکمران بڑے چالاک ہیں، وہ میڈیا، فلموں، ڈراموں، سکولوں، کالجوں کے ذریعے ہمارے ذہنوں میں بات ڈالتے ہیں کہ سیاست ہے ہی گندی چیز تاکہ نوجوانوں کو متحد ہونے اور جدوجہد کرنے سے روکا جا سکے۔

اس وقت نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت باقی تمام قوم پرست اور مذہبی پارٹیوں سے نفرت کی وجہ سے نوجوان پی ٹی آئی سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر پی ٹی آئی بھی جو سیاست کر رہی ہے وہ باقی پارٹیوں کی طرح حکمرانوں کی سیاست ہی ہے۔ آپ خود سوچیں کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی وغیرہ کی طرح کیا پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند کر کے جدید اور مفت سرکاری تعلیمی نظام بنایا؟ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ عمران خان تو کرنا چاہتا تھا مگر باقی لوگ کرپٹ تھے، تو اس سے میرا سوال ہے کہ کیا حکومت میں آنے سے پہلے ایسا کوئی منصوبہ تھا پی ٹی آئی کا؟ کیا کبھی آپ نے عمران خان کے منہ سے یہ سنا کہ ملک کی ساری دولت تو مزدور پیدا کر رہے ہیں، ساری فیکٹریاں یہ چلا رہے ہیں، لہٰذا ساری فیکٹریوں پر ملکیت اور کنٹرول بھی ان کا ہونا چاہیے؟ اس طرح کی باتیں پی ٹی آئی کیوں نہیں کرتی؟ بھئی سادہ سی بات ہے کہ پی ٹی آئی بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہی پارٹی ہے۔ اس کی ساری پالیسیاں سرمایہ دار طبقے کے فائدے کے لیے ہی ہیں۔ اسی لیے تو پی ٹی آئی کے دور میں بھی آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر تیل، گیس اور باقی چیزیں مہنگی کی گئیں۔ اس وقت نون لیگ اور باقی پارٹیاں بھی یہی معاشی پالیسی چلا رہی ہیں۔

اصل سیاست ہمیشہ انقلابی سیاست ہی ہوتی ہے۔ انقلابی اس لیے کیونکہ طبقاتی نظام میں حکمران طبقہ محنت کش عوام کو ان کے حقوق مانگنے سے کبھی بھی نہیں دیتا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر یہ بات کی ہے کہ جس چیز میں محنت کش عوام کا فائدہ ہو گا اُس میں حکمرانوں کا نقصان ہو گا، لہٰذا محنت کشوں کو اپنے حقوق جدوجہد کر کے چھیننے پڑتے ہیں۔

اگر آپ تاریخ پڑھیں تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ دنیا کے ہر ملک میں محنت کش عوام نے جدوجہد کے ذریعے ہی اپنے حقوق حاصل کیے ہیں۔ بلکہ جب مزدور، کسان اور سٹوڈنٹس اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد شروع کرتے ہیں تو لڑائی کے دوران انہیں یہ سمجھ لگتی جاتی کہ اگر وہ سب اکٹھے ہو کر لڑیں تو وہ کتنی بڑی طاقت بن سکتے ہیں۔ مزدوروں کو بھی اپنی طاقت کا احساس ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب مزدوروں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اگر وہ کام نہ کریں تو پھر فرشتے بھی آ کر مالک کی فیکٹری نہیں چلا سکتے۔ مزارعوں اور چھوٹے کسانوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اگر وہ کام نہ کریں تو پھر چوہدری صاحب کے سینکڑوں مربعوں پر ایک تنکا بھی نہیں اُگ سکتا۔

اُس وقت وہ فیکٹریوں، زمینوں اور بینکوں پر قبضے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک انقلاب ہوتا ہے۔ اس وقت اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہو تو وہ مزدوروں، کسانوں، سٹوڈنٹس اور سماج کی مظلوم پرتوں کا اتحاد بنا کر اس انقلاب کو کامیاب بنا دیتی ہے۔ ایسا 1917ء میں روس میں ہوا تھا جب لینن اور ٹراٹسکی نامی انقلابیوں نے ایک کمیونسٹ پارٹی بنا کر پورے روس کے محنت کش عوام کو متحد کر دیا اور انقلاب کو کامیاب کیا۔

انقلاب کے کامیاب ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ انقلاب کے کامیاب ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جگہ مزدوروں، کسانوں اور مظلوم لوگوں کی حکمرانی بن جاتی ہے اور وہ ایک مزدور ریاست بناتے ہیں۔ محنت کش عوام کی یہ ریاست حکمرانوں کے الیکشن کے ذریعے نہیں بنتی بلکہ انقلاب کے دوران گلیوں، محلوں، فیکٹریوں، کھیت کھلیانوں اور تعلیمی اداروں میں محنت کش عوام کی منتخب کردہ انقلابی کمیٹیوں کے ذریعے بنتی ہے۔ نئی مزدور ریاست میں کوئی بھی سرمایہ دار یا جاگیردار نہیں ہوتا۔ اس میں اقتدار میں وہ مزدور اور کسان بیٹھے ہوتے ہیں جنہیں آج حکمران جاہل، اَن پڑھ اور کیڑا مکوڑا کہتے ہیں۔ مزدور ریاست ساری فیکٹریاں، زمینیں، بینک وغیرہ مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے چھین لیتی ہے اور محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں دے دیتی ہے۔

اُس کے بعد ملک میں جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے وہ کسی ملک ریاض، میاں منشاء، زرداری یا نواز شریف کے بینک اکاؤنٹ میں نہیں جاتی بلکہ مزدوروں کی حکومت کے پاس آتی ہے۔ اسے پھر پلاننگ کے ساتھ ساری آبادی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق نئے سکول، کالج، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور انفراسٹرکچر بنائے جاتے ہیں۔ یہ انقلاب ایک کمیونسٹ انقلاب ہوتا ہے اور یہ ریاست ایک مزدور ریاست ہوتی ہے۔

اس انقلاب کو لیڈ ایک کمیونسٹ پارٹی ہی کر سکتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی ایک ایسی پارٹی ہوتی ہے جس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ امیر اور غریب کے نظام کو ختم کر کے سماج کی ساری دولت کو پیدا کرنے والے ذرائع جیسے زمین اور فیکٹریاں وغیرہ محنت کش عوام کے کنٹرول میں لیے جائیں۔ پھر انہیں پلاننگ کے ساتھ مسائل کو حل کرنے اور ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں حالات انقلاب کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ ہر ملک میں لوگ پرانی سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ سے نفرت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان، نام نہاد آزاد کشمیر اور بلوچستان میں لاکھوں لوگ مختلف مسائل کے حل کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں مہنگے آٹے سمیت دیگر مسائل، کشمیر میں مہنگی بجلی اور بلوچستان میں ریاستی جبر اور جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج ہو رہے ہیں۔ کشمیر میں تو تقریباً پچھلے دس ماہ سے لوگوں نے بجلی کے بل تک جمع نہیں کروائے۔

اسی طرح پوری دنیا میں فلسطین میں ہونے والے ظلم و بربریت کے خلاف کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ لندن شہر میں تو دس لاکھ لوگوں نے اسرائیلی ظلم کے خلاف احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ بھی مہنگائی سمیت دیگر مسائل کے خلاف کروڑوں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسے ایمازون کے مزدور بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ سری لنکا میں تو 2022ء میں مہنگائی سے تنگ آ کر لوگ وزیراعظم اور صدر کے گھر میں گھس گئے اور قبضہ کر لیا۔ پولیس اور فوج میں بھی بغاوت ہو گئی اور عام سپاہیوں نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا اور ان کے ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے۔ بد قسمتی سے سری لنکا میں ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی موجود نہیں تھی اور انقلاب کو کامیاب بنانے کا شاندار موقع ہاتھ سے نکل گیا۔

تو ساتھیو! سری لنکا سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستان میں جلد از جلد ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنائی جائے۔ اس پارٹی کو بنانے میں سٹوڈنٹس اور نوجوانوں کا بہت ہی اہم کردار ہو گا۔ سٹوڈنٹس کو کہا جاتا ہے اپنا کیرئیر بناؤ، سیاست سے دور رہو، مگر سوال یہ ہے کہ کیرئیر ہے کہاں؟ جب مستقبل ویسے ہی تباہ ہے تو پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر موت کا انتظار کرنا کون سی عقلمندی ہے؟ یہ وقت کیرئیر بنانے کا نہیں بلکہ انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنانے کا ہے۔ وہ شخص، پارٹی اور نظریہ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے جو ہمیں سر جھکا کر ایک ”پُر امن“ غلامانہ زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے۔ ہمارا سچا دوست وہ ہے جو ہمیں ذلت، محرومی، مہنگائی، لاعلاجی اور جہالت سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنے کا درس دیتا ہے۔ پاکستان میں ہم ایک ایسی ہی انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنا رہے ہیں اور آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ بھی اس کے ممبر بن کر اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔
جینا ہے تو لڑنا ہو گا!

بھوک ننگ سب دین انہی کی ہے لوگو
بھول کے بھی مت ان سے عرض حال کرو
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.