ماحولیات تبدیلی کی وجوہات کیا ہیں؟

|تحریر: جلال جان|

2023ء کے سال کو اب تک انسانی تجربے میں سب سے گرم سال قرار دیا جا چکا ہے، اگر صرف اس سال کے اکتوبر کے مہینے کو ہی دیکھا جائے تو یہ سب سے گرم اکتوبر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس سال اس گرمی کی وجہ سے یورپ سے لے کر ایشیا تک شدید ہیٹ ویو دیکھنے کو ملی۔ یونان کے جنگلات میں آگ لگنا ہو یا پھر صومالیہ میں سیلاب آنا سب ہی اسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیں جو کہ سرمایہ دارانہ بے ہنگم پیداوار کا نتیجہ ہے۔ اگر اعداد و شمار کی طرف دیکھا جائے تو ہر سال تین لاکھ سے زائد لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں اور اس تعداد میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان جو پچھلے سال ہی سیلاب اور شدید بارشوں کی صورت میں ماحولیاتی بحران سے دوچار رہا ہے۔ اس سال بھی پاکستان میں شدید بارشوں میں محض دو ہفتوں میں 50 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے ہیں جس میں ماحولیات کے ساتھ ساتھ پانی کی نکاسی کے جدید سسٹم کا نہ ہونا اور فرسودہ انفراسٹرکچر بھی ذمہ دار ہے۔ یہاں کے حکمران طبقے نے کبھی بھی ایک جدید انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور بس اپنی منافع خوری، کرپشن اور لوٹ مار پر توجہ دی۔ اسی طرح لاہور، ملتان سمیت کئی اور شہر انتہائی خوفناک سموگ کی زد میں ہیں جو کروڑوں لوگوں کو شدید متاثر کر رہا ہے۔
یہ ماحولیاتی تبدیلی اچانک سے وقوع پذیر نہیں ہو رہی بلکہ اس کی اصل ذمہ داری سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خوری کے لیے بے ہنگم اور زائد پیداوار پر جاتی ہے۔ انسان کی پوری تاریخ فطرت پر قابو پانے یا اس کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی تاریخ ہے۔ اسی ارتقائی سفر میں مختلف نظام آئے جن میں غلام داری، جاگیر داری اور سرمایہ داری شامل ہیں۔ موجودہ نظام سرمایہ داری ہے۔ اس سے پہلے والے نظاموں میں بھی سماج میں طبقات موجود تھے، یعنی کہ حکمران طبقہ اور محنت کش طبقہ۔ بہر حال اُن نظاموں میں سماج کی ساری دولت محض منافع خوری کے لیے پیدا نہیں کی جاتی تھی۔ اُن نظاموں میں منڈی کی شدید مقابلہ بازی اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ پیداوار کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ لہٰذا سماج میں زیادہ پیداوار بھی نہیں ہوتی تھی۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام میں تیز ترین اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے منڈی کی حدود سے زیادہ اور بے ہنگم پیداوار ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں پانی، ہوا، سمیت دیگر قدرتی وسائل کا بھرپور استحصال ہوتا ہے اور بحیثیت مجموعی ماحولیات تباہ و برباد ہوتے جاتے ہیں۔
اس منافع کی دوڑ میں سرمایہ داری نے جنگلات کو ختم کرنے سے لے کر تیل کے بے دریغ استعمال تک قدرتی وسائل کا بھرپور استحصال کیا ہے اور نتیجتاً ہوا انتہائی آلودہ ہو چکی ہے۔ انہی فیکٹریوں سے نکلنے والے پانی کی وجہ سے آج آبی مخلوقات کو خطرہ ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ دنیا کی سطح کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کی بنیادی وجہ ہوا کو آلودہ کرتی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر صحت گیسیں ہیں۔ انہی گیسوں کی وجہ سے اوزون لیئر (وہ لیئر جو زمین کے گرد موجود ہے اور اسے سورج کی شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے) کو بھی نقصان پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ پینے کا صاف پانی کم ہوتا جا رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ فیکٹریوں کا زہر آلود پانی سمندروں میں چھوڑنا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے لیے فوسل فیول کا بے دریغ استعمال آج ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحولیاتی بحران میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ دانشوروں کی طرف سے ماحولیاتی تبدیلی کا حل یہی بتایا جاتا ہے کہ تمام لوگ انفرادی طور پر کوشش کریں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ حکمرانوں کے میڈیا پر یہ بتایا جاتا ہے کہ کم پانی استعمال کریں، پلاسٹک کا کم استعمال کریں اور کاربن کے اخراج کو کم کریں وغیرہ، لیکن دی گارڈین اخبار کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق محض ایک فیصد لوگ 66 فیصد لوگوں سے زیادہ کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ایک فیصد درحقیقت فیکٹریوں کے مالک سرمایہ دار ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایک عام انسان کو اِن ایک فیصد امیر ترین افراد جتنی کاربن اخراج کرنے کے لیے 1500 سال درکار ہوں گے۔ اسی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار طبقہ ہی اصل ذمہ دار ہے اس پورے ماحولیاتی بحران کا۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے حکمرانوں سے گرین انرجی کے لیے زیادہ بجٹ مختص کرنے اور فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کی اپیلیں بھی زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوئی ہیں اور ایسے تمام دعوے اور بیانات صرف لفاظی تک ہی محدود رہے ہیں جبکہ یہ مسئلہ تیزی سے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس سے اس کرۂ ارض پر زندگی کی بقا ہی خطرے میں پڑ چکی ہے۔
سرمایہ داری کے ماحولیات کو دیے گئے زخموں نے پورے یورپ میں نوجوان نسل کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے۔ اس وقت یورپ سے لے کر امریکہ میں سکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف متحد ہو چکے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ماحولیات کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اُلٹا عام لوگوں پر ماحولیات کے نام پر نئے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن ان تمام پالیسیوں کے باوجود سرمایہ دارانہ نظام ماحولیاتی تبدیلی کو کم نہیں کر پایا بلکہ محنت کشوں کی زندگیوں کو مزید اجیرن ہی کر رہا ہے۔ ہم کمیونسٹ یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کبھی بھی ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ مسئلہ موجود ہی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہے۔
ماحولیاتی بحران کو ختم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا پڑے گا اور منصوبہ بند معیشت یعنی سوشلزم قائم کرنا پڑے گا۔ آج ہمارے پاس متبادل توانائی کے ذرائع موجود ہیں۔ صرف ایک سال پہلے فیوژن ری ایکشن، جس میں جوہری توانائی پر کامیاب ریسرچ کی گئی تھی، سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے ذریعے پوری دنیا کی توانائی کی ضروریات کو آلودگی کے بغیر پورا کیا جا سکتا ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے پانی کو جدید ٹیکنالوجی سے صاف کر کے دریاؤں میں لے جایا جا سکتا ہے۔ فوسل فیول ختم کر کے آج بجلی بنانے کے دیگر ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے نجی ملکیت اور منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔
”ہر قدم ہمیں یہ یاد کرواتا ہے کہ ہم کسی طور بھی فطرت پر کسی فاتح کی حیثیت سے حکمرانی نہیں کرتے، ایسے جیسے کوئی فطرت کے باہر سے اس پر حاکم ہو، بلکہ ہم گوشت، خون اور دماغ کے ذریعے فطرت کا حصہ ہیں اور اسی میں وجود رکھتے ہیں۔ اور فطرت پر ہماری تمام تر برتری اس حقیقت پر منحصر ہے کہ ہم دیگر تمام مخلوقات کی نسبت اس کے قوانین کو سیکھ کر انہیں درست طریقے سے اپنے کام میں لا سکتے ہیں۔“ (فریڈرک اینگلز)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.