|رپورٹ: اصغر شاہ، گلگت بلتستان|
گلگت بلتستان کے عوام اس وقت ایک طرف اپنی ایک الگ شناخت اور اپنی بنیادی سہولیات کے لیے عرصہ دراز سے جدوجہد کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف تقریباً دو ہفتے پہلے گلگت سٹی سے بیس منٹ کے فاصلے پر واقع سلطان آباد دنیور کی رہائشی ایک 12 سالہ بچی فلک نور ولد سخی احمد جان کے اغواہ ہونے کی خبر سامنے آئی۔ اطلاعات کے مطابق فلک نور کو دو مہینے پہلے ان کے ہمسائے لڑکے نے اغوا کیا۔ سخی احمد جان، جو ایک محنت کش ہے، نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی اور اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے کے لیے قانون کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس کی کسی نے ایک نہ سنی۔
جب یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان میں پھیل گیا تو نوجوانوں اور محنت کشوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ابھی فلک نور کا معاملہ حل نہیں ہوا تھا کہ انارہ نامی ایک اور نوجوان لڑکی کی جو سلائی سکول سے واپسی پر اپنے گھر نہیں لوٹی تھی اور فیضان نامی ایک نوجوان لڑکے کی گلگت بلتستان سے لاشیں برآمد ہوئیں۔ انارہ اور فیضان کی خبر ملنے کے بعد نوجوانوں اور محنت کشوں کے غصے نے مزید شدت اختیار کی اور گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں پروگریسو یوتھ الائنس اور دیگر طلبہ تنظیموں نے مظاہروں کا آغاز کیا۔
گلگت پریس کلب کے باہر پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان اور دیگر طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے اور حکومت وقت کو تنبیہ کیا کہ اگر ایک ہفتے کے اندر فلک نور کو بازیاب نہیں کرایا گیا تو پورے گلگت بلتستان میں پہیہ جام ہڑتال کا آغاز کریں گے۔ اس کے بعد پولیس اور عدالت کچھ حرکت میں آئے۔ عدالت میں فلک کے کیس کی کاروائی کو گلگت بلتستان کی عوامی ایکشن کمیٹی کے چیف کوآرڈینیٹر اور آئی ایم ٹی (عالمی مارکسی رجحان) کے رہنما احسان ایڈووکیٹ کر رہے ہیں جن کے ساتھ عدالت کے باہر ایس ایس پی گلگت اور اس کے پالتو غنڈوں نے بدتمیزی کی اور ڈرانے دھمکانے کی بھی کوشش کی گئی۔
نااہل حکمران ان تینوں کیسز کو دبانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں اور فلک نور کے کیس کو پسند کی شادی، قومیت، مسلک اور علاقائی رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ یہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے۔ چونکہ فلک نور کا والد ایک مزدور ہے اسی لیے اس کو دو مہینے بعد بھی انصاف نہیں ملا۔ لیکن اگر کسی سرمایہ دار، بیوروکریٹ یا افسر کی بیٹی ہوتی تو ریاستی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے اسے چوبیس گھنٹوں سے پہلے بازیاب کروا لیا جاتا۔
عوام کا اب سرمایہ دارانہ نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے جس میں محنت کش طبقے کو انصاف ملنا ایک خواب بن کے رہ گیا ہے اور پولیس انتظامیہ افسر شاہی اور سرمایہ داروں کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہے۔
فلک کے جھوٹے ویڈیو پیغامات سامنے لائے جا رہے ہیں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فلک نور اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی جبکہ انارہ اور فیضان کے کیسز کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق فلک نور کے والد کو خاموش رہنے کے لیے پیسوں کی آفر بھی کی گئی لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔
ابھی حال ہی میں ایک خبر کے مطابق فلک کے اغوا کاروں نے گلگت بلتستان کے چیف کورٹ میں فلک کے والد کے خلاف ایک کریمنل پٹیشن درج کروائی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت فلک، انارہ اور فیضان کے کیسز کو لے کر بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے اور اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ان واقعات کو دبانے کی پوری کوشش میں ریاستی ادارے بھی پوری طرح ملوث ہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس ان واقعات کی مذمت کرتا ہے اور ان واقعات کو دبانے کے لیے استعمال کیے جانے والے تمام ریاستی ہتھکنڈوں کی اور ریاستی اداروں مذمت کرتا ہے جو اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں بالکل ناکام ہے۔ یہ واقعات واضح کرتے ہیں کہ دفاع کے نام پہ لگائے والے بجٹ کا استعمال کہاں ہوتا ہے۔ جب طلبہ اور محنت کش اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو ان کو دبانے کے لیے ریاستی ادارے حرکت میں آنے میں بالکل بھی وقت نہیں لگاتے، لیکن شہریوں کی حفاظت کرنے اور انصاف دلانے میں یہی ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
ہم ان واقعات کے لیے کیے جانے والے طلبہ اور محنت کشوں کے تمام احتجاجوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت جلد از جلد فلک کو بازیاب کروا کر اسے اس کے والدین کے حوالے کرے اور اس کے مجرموں سمیت انارہ اور فیضان کے مجرموں کو بھی عبرنات سزائیں دے۔ اگر حکومت انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو ہم گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان میں طلبہ اور محنت کشوں کی ملک گیر تحریک کا آغاز کریں گے اور مجرموں کے ساتھ ساتھ حکومتی اور ریاستی اہلکاروں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔
کسی غریب قبیلے کی آبرو کی طرح
ہمارا درد کسی درد میں شمار نہیں