لاہور: ”کیا پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے؟“ کے عنوان پر اوپن مائیک پروگرام کا انعقاد!

| رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور |

پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کی جانب سے27 مئی2022 ء کو انارکلی میں اوپن مائیک پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع ”کیا پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے؟“ تھا۔ امتحانات کے باوجود طلبہ نے اور مزدوروں نے انقلابی جذبے کے ساتھ بھر پور شرکت کی۔

تقریب میں نظامت کے فرائض ایجوکیشن یونیورسٹی کے طالبعلم ثنا ء اللہ جلبانی نے انجام دیے۔ سب سے پہلے جی سی یونیورسٹی سے پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن شعیب کو بحث کے آغاز کے لیے دعوت دی گئی۔ شعیب نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں نامیاتی بحران کا شکار ہے جو ختم ہونے کی بجائے وقت کے ساتھ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ حکمران طبقے کی یہ روایت رہی کہ وہ کبھی بھی سرمایہ داروں کے منافعوں اور اپنی عیاشیوں میں کمی نہیں کرتا اور اپنی جیبیں بھرنے کے لیے عوام پر مزید ٹیکس لگاتا ہے اور بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں میں ڈالتا ہے۔ پچھلے چند ماہ سے سری لنکا کی ملکی معیشت بحران کا شکار تھی اور زرمبادلہ نہ ہونے کے باعث تیل اور دوسرے خام مال کی درامدات نہ کرنے کی وجہ سے چیزوں کا بحران جنم لینے لگا اور پیٹرول خریدنے کے لیے لوگوں کو دو دو دن تک لائن میں ٹھہرنا پڑتا۔کیونکہ سری لنکا کی بجلی کا زیادہ تر حصہ تھرمل پاور سے بنتا ہے اسی لیے گھنٹوں بجلی کی لوڈ شیڈنگ رہتی اور اس کے باعث موم بتی کے پیکٹ کی قیمت بھی500 روپے تک چلی گئی۔ اور اسی طرح گیس کی عدم دستیابی کے باعث یہاں تک کہ اچھے خاصے خاندانوں کو کھانا پکانے کے لیے لکڑیوں کا استعمال کرنا پڑا اور صورت حال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ درمیانے طبقے کے صارفین رکھنے والی سپر مارکیٹیں اب آگ جلانے کیلئے لکڑیاں بیچ رہی ہیں۔

31 مارچ2022 ء کو کسی پارٹی یا منشور کے بغیر، سری لنکا کے دار الحکومت کولمبو کے عوام اپنے شدید غم و غصّے کا اظہار کرنے کے لیے خود رو طور پر سڑکوں پہ نکل آئے۔ جن پر راجاپکشا حکومت کی جانب سے شدید جبر کیا گیا۔ مگر تحریک پیچھے ہٹنے کی بجائے ملک گیر سطح پر پھیل گئی اور حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ مختصر عرصے کے لیے نافذ کی گئی ایمرجنسی کو برقرار نہیں رکھا جا سکا اور حکمران طبقہ شدید پریشانی میں مبتلا ہو گیا۔اس کے بعد احتجاجوں کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، اور 9 اپریل کو ہونے والے مارچ سے تحریک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی۔ کولمبو سمیت دیگر علاقوں سے عوام دارالحکومت میں موجود گیل فیس گرین نامی پارک میں جمع ہو گئے، جو ساحلی علاقے پر وزیر اعظم کے دفتر کے پاس واقع ہے۔ یہ بہت بڑا احتجاج تھا اس میں 1 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی، جو طاقت کا بہت بڑا مظاہرہ تھا کیونکہ کولمبو کی آبادی 7 لاکھ ہے اور سری لنکا کی مجموعی آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ ہے، جس کی اکثریت دیہی اضلاع میں رہتے ہیں۔9 اپریل کی رات مظاہرین نے منتشر ہونے کی بجائے وہاں خیمے لگا کر اپنی رہائش کا انتظام کر لیا۔ اس جگہ کو ’گوٹا گو گاما‘ (گو گوٹا گو گاؤں) کا نام دیا گیا، جو تحریک کا مرکزی مقام بن چکا ہے۔

”گو گوٹا گو“ اور ”گو راجاپکشا گو“ کے ساتھ ساتھ عوام نے کثرت سے تمام ممبرانِ پارلیمنٹ کے حوالے سے ”گو 225 گو“ کا نعرہ بھی بلند کیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، عوام کی اکثریت پارلیمنٹ میں موجود کسی بھی پارٹی، گروہ یا شخص کے اوپر اعتماد نہیں کرتی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام سب ہی قائدین اور سب ہی تنظیموں کو بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ گیل فیس میں ٹریڈ یونینز اور طلبہ یونینز کی کال پر ہونے والی ریلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام ان تنظیموں کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کا راستہ فراہم کریں۔ عوام محض ان ’قائدین‘ کو بجا طور پر شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جو انہیں دھوکہ دے کر سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اقتدار میں آ کر پارلیمنٹ کی مراعات یافتہ زندگی کے مزے لے سکیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کو محض اپنی قوت پر یقین کرنا پڑے گا۔ مگر ٹریڈ یونینز بھی انہی کی تنظیمیں ہیں۔ چنانچہ ٹریڈ یونینز کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے منظم ہونا ہوگا، تاکہ وہ کسی اور سرمایہ دارانہ دھڑے کے کنٹرول میں نہ چلا جائے۔ حکومت اور پارلیمانی اپوزیشن دونوں عوام کی اذیتوں کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ضرورت محنت کشوں کی قوت کو منظم کرنے کی ہے تاکہ موجودہ حکومت کو للکارا جا سکے۔سنجیدہ جدوجہد کی تیاریوں کے لیے عوامی تنظیموں کی تعمیر ضروری ہے۔ کام کی سب جگہوں، تمام غریب محلّوں، کسانوں اور مچھواروں کی ہر بستی میں ہڑتالی کمیٹیاں قائم کرنا ہوں گی۔ اس قسم کی کمیٹیاں ہڑتال کے دوران نظم و ضبط اور دیگر ضروریات کا خیال رکھیں گی، اور اس طرح ریاست کو مفلوج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں سے بھائی چارہ قائم کریں گی، جس سے پرانی ریاستی طاقت طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ جائے گی۔یہ کمیٹیاں ضلعی اور ملکی سطح پر جڑت قائم کر کے وہ قوت بن جائے گی جس کے اوپر عوام اعتماد کریں گے، کیونکہ وہ انہی مظلوم اور استحصال زدہ عوام کے اوپر مشتمل ہوں گی، جو محنت کش طبقے کی قیادت کے تحت منظم ہوں گی۔

صدر گوٹا بایا راجاپکشا نے کو ہٹا کر نیا وزریر اعظم وکرما سنگھے کو منتخب کر لیا ہے لیکن وہ بھی مسائل کو حل نہیں کر پائے گا۔ ابھی بھی تحریک کو منظم کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹا جا سکتا ہے۔یہی آگے کا راستہ ہے؛ وہ راستہ جو حکومت گرانے اور سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی طرف جاتا ہے، کیونکہ عوام کی اذیتوں کے خاتمے کا یہی طریقہ ہے۔وقت آ چکا ہے کہ ٹریڈ یونین قائدین جدوجہد کا یہ طریقہ اپنا لیں، اور سنجیدہ لڑائی کے لیے منظم ہوں۔ اور اگر ان میں لڑنے کی ہمت نہیں ہے تو انہیں سامنے سے ہٹ کر ان لوگوں کو راستہ دینے کی ضرورت ہے جو لڑنا جانتے ہیں۔

اس کے بعد سوالات کا آغاز ہوا اور تمام شرکاء کو بحث میں حصہ لینے کے لیے دعوت دی گئی۔

اس کے بعد بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جی سی یونیورسٹی کے طالب علم نسیم بن عزیز اور ایف سی یونیورسٹی سے پروگریسو یوتھ الائنس کے سرگرم کارکن باسط خان نے بات کی۔

اس کے بعد ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور کے آرگنائزر مقصود ہمداانی نے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک طبقاتی نظام ہے جس میں مزدور اپنی پوری زندگی سرمایہ دار کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتا ہے۔ سرمایہ دار بغیر کسی مذہب اور قوم کی تفریق کے ہر مزدور کا استحصال کرتا ہے۔ استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام سے نجات کا صرف ایک ہی حل ممکن ہے اور وہ ہے سوشلسٹ انقلاب۔جب عوام اپنے حالاتِ زندگی سے تنگ ہو کر سڑکوں پر نکلتے ہیں تو وہ ہر قسم کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر آپس میں جڑت بناتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کیلئے ایک جان ہو کر لڑتے ہیں اور ایک ایسی طاقت بن جاتے ہیں جو سماج کو مکمل طور پر بدل دیتی ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس سے فضیل اصغر نے پاکستان کی موجودہ صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کی اور پاکستان کی موجودہ سیاسی و معاشی بحران پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مارکسٹ تو لمبے عرصے سے اس بات کی پیشن گوئی کر رہے تھے کہ پاکسان میں ایک بہت بڑا بحران جنم لے گا لیکن آج پیٹی بورژوا کے اپنے کچھ سنجیدہ دانشور بھی اس بات کو تسلیم کر رہے کہ یہ موجودہ نامیاتی بحران تاریخی ہے اور اس سے نکلنے کا راستہ حکومت یا اپوزیشن کی بورژوا پارٹیوں کے پاس موجود نہیں۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فضیل نے-69 1968 ء کے انقلاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ایک لمبے عرصے کے بعد ایسے حالات رونما ہو چکے ہیں جو ایک مزدور تحریک کو جنم دیں گے۔ اس کے علاوہ پچھلے کچھ عرصے میں اگیگا اور دیگر پلیٹ فارمز سے ہونے والے محنت کشوں کے احتجاجات پر بات کی۔

اس کے بعد شعیب نے بحث کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اقتدار کی لڑائی میں حکمران طبقہ آج بالکل ننگا ہو چکا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر دھڑے بندی بھی اس سارے عرصے میں کھل کر عوام کے سامنے آگئی ہے۔ ایک دھڑا عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہے اور نئے الیکشن کروانے کے لیے کوشاں ہے اور دوسرا دھڑا متحدہ پی ڈی ایم کو سپورٹ کر رہا ہے اور اقتدار پہ اپنے پنجے گاڑے رکھنا چاہتا ہے مطلب اقتدار اور دولت کی لالچ میں کتوں کی طرح آپس میں لڑ رہے ہیں اور اس تمام عمل میں محنت کش طبقہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اور ان کی اقتدار اور لوٹ مار کی لڑائی میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہا۔ اقتدار کی یہ لڑائی مزید شدت اختیار کرے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ نئے الیکشنز ہوں یا نہ ہوں چاہے حکومت پر کوئی بھی براجمان ہو ملکی معیشت کو چلانے کے لیے انہیں آئی ایم سے قرضے کی مد میں اگلی قسط لینے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ہوگا جس کا مطلب ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں سو روپے تک کا اضافہ کیا جائے گا جس پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے اور پیٹرول کی قیمت میں 30 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے قرضہ سود سمیت لوٹانے کے لیے یہ اپنی لوٹ مار تو بند نہیں کر یں گے عوام پر ٹیکس میں اضافہ کریں گے اور عوامی بجٹ میں کٹوتیاں ہی کریں گے (یاد رہے کہ حکومت کی طرف سے آنے والے مالی سال میں تعلیمی بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کی تجویز پیش کی گئی ہے) اس کے علاوہ عوام سے مزید ٹیکس بٹورے جائیں گے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر پہلے ہی دو سو کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے اور تین سو کی طرف تیزی سے سفر کر رہی ہے اور اس صورت حال میں ملک کا معاشی بحران مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا اورآنے والے وقتوں میں مزدور تحریک ابھرنے کے امکانات موجود ہیں جو کسی بھی شکل میں اپنا اظہار کر سکتی ہے۔ اس تمام صورتحال سے نجات کا راستہ صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب ہے۔

اس صورتحال کے خلاف لڑنے کیلئے ہمیں اپنی قوتوں کو تیزی سے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میں یہاں موجود نوجوانوں کو اس جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔

اس کے بعد تما م شرکاء نے مل کر فیض احمد فیض کا انقلابی گیت ”ہم دیکھیں گے“اور جبیب جالب کی نظم”دستور“ گا کر پروگرام کا اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.