انقلاب کیسے لاؤ گے؟

|تحریر: ارسلان خان، (طالب علم، اسلامیہ کالج گوجرانوالہ)|

اکثر یہ سوال ہم سے کیا جاتاہے کہ انقلاب کیسے لاؤ گے؟ تو مشہور روسی انقلابی لینن نے کہا تھا کہ انقلاب کسی شخص یا پارٹی کی مرضی سے نہیں آتا بلکہ انقلاب سماجی و معاشی حالات کی پیداوار ہوتا ہے۔

تو پھر ہم یہ سب جدوجہد کیونکر کر رہے ہیں؟

ہم جو جدوجہد کر رہے ہیں اس کا صرف یہ مقصد ہے کہ جب بھی محنت کش سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت پر اتریں تو ہمارے پاس انقلابی کیڈرز کی ایک ایسی منظم تنظیم موجود ہو جو اُس وقت محنت کشوں کو سائنسی سوشلزم کے نظریات کی بنیاد پر منظم کر سکیں۔ جیسا کہ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کے بعد روس کے حالات خراب ہوچکے تھے اور ہزار سال سے چلنے والی زار روس کی بادشاہت کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ اور اس کے خاتمے کے بعد ایک عبوری حکومت قائم ہوچکی تھی جو درحقیقت سرمایہ داروں کی ہی حکومت تھی۔ تو اُس وقت روس میں لینن کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے مزدوروں، کسانوں اورسپاہیوں کی جانب سے برپا کی گئی بغاوت کو انقلاب کا صحیح راستہ دکھایا یعنی سوشلزم کا، اور تاریخ میں پہلی بار محنت کشوں کی سوشلسٹ ریاست قائم کی۔ اُس وقت بالشویک پارٹی کے کیڈرز کی تعداد محض 8 ہزار کے قریب تھی جو درست نظریات اور منظم ڈھانچے میں موجود ہونے کی بدولت عوامی بغاوت کو درست سمت دکھانے میں کامیاب ہوئی۔

آج کل پاکستان میں بھی اسی طرح کے بحرانی حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ حکمران طبقہ آپس میں دست و گریبان ہے۔ تو نوجوان ساتھیو! محنت کشوں، طلبہ، نوجوانوں اور سماج کی مظلوم پرتوں میں جاکر انہیں نظام کی تبدیلی کے بارے میں متبادل معاشی نظام یعنی سوشلزم کے متعلق آگاہ کرنا ہوگا۔ ان کی ناامیدی ختم کرکے ایک نئی صبح کی نوید ان تک پہنچانا ہوگی۔

انقلاب محنت کشوں نے کرنا ہے، ہمارا فریضہ ایک انقلابی پارٹی تخلیق کرنا ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.