کوئٹہ: ”افغانستان، مستقبل کا تناظر“ کے عنوان پر سٹڈی سرکل

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس،بلوچستان|

 

 جنوری بروز جمعہ کو کوئٹہ کے علاقے نواح کلی میں ”افغانستان اور مستقبل کا تناظر“ کے عنوان پر پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب7 سے سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا، جس میں نوجوان محنت کشوں نے انتہائی دلچسپی اور گرم جوشی کے ساتھ شرکت کی۔

سٹڈی سرکل کا آغاز کریم پرہر نے کیا۔ کریم پرہر نے بتایا کہ افغانستان میں تاریخی طور پر سامراجیوں کی بربریت ایک طویل عرصے سے جاری ہے جس کا منظم طریقے سے آغاز افغانستان میں غازی آمان اللہ کے دور سے کیا گیا۔ غازی امان اللہ جو کہ افغانستان میں ایک ایسے بادشاہ کے طور پر نمودار ہوا جو یورپین طرز حکومت سے متاثر ہوکر افغانستان کو جدید لبرل جمہوریت بنانے کا حامی تھا۔ مگر برطانوی سامراج کی جانب سے اس کی بادشاہت کو مختلف مذہبی اور سیاسی ہتھکنڈوں کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی گئی اور بلاخر اسے اپنی بادشاہت اور ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اٹلی میں جلاوطنی کے دوران ہی اسکی وفات ہوئی اسکے بعد مختلف ادوار میں سامراج نواز کٹھ پتلی حکمرانوں کو افغان عوام پر مسلط کیا جاتا رہا۔

کریم نے بات بڑھاتے ہوئے کہا کہ 1978ء میں جب افغان عوام نے خلق پارٹی کے زیرسایہ تمام تر سامراج نواز اور عوام دشمن قیادتوں کو رد کرتے ہوئے افغانستان میں تاریخ رقم کرنے والے ثور انقلاب کو برپا کیا۔ ثور انقلاب اس خطے کے تمام محنت کش عوام اور مظلوم قومیتوں کے لیے راہ نجات اور رول ماڈل کے طور پر سامنے آیا، مگر امریکی سامراج سمیت تمام دیگر سامراجی ملکوں نے اپنے مفادات اور منافع کی بنیاد پر قائم اس سرمایہ دارانہ نظام کے دفاع میں ثور انقلاب کو کچلنے کے لیے اس خطے کو مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ بناتے ہوئے رجعتی اور وحشت سے لبریز جہادی تنظیموں کو جنم دیا۔ پاکستانی ریاست جسکا وجود اس خطے میں اپنے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے، کو سامراج کی ایما پر اس ڈالر جہاد کا حصہ بنتے ہوئے امریکی اور سعودی امداد کی بنیاد پر جہادی تنظیموں اور کیمپوں کو پھلنے پھولنے کی بھر پور چھوٹ دی گئی۔ پاکستانی ریاست انقلابی قوتوں کو روندنے کے لیے سامراج کے گماشتے کے طور پر سرگرم عمل رہا اور افغان ثور انقلاب کو خون میں ڈبو تے ہوئے افغان محنت کش عوام پر بھوک، افلاس، بیماریوں اور جنگوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا جو کہ آج تک جاری ہے۔

15 اگست 2021ء کو امریکی انخلا کے فوراً بعد طالبان کی وحشت نے اشرف غنی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد تخت کابل پر قبضہ کرلیا، ایک طرف اگر طالبان جیسی وحشی اور رجعتی قوت لوگوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں اور لوگوں کو زندگی کی کوئی بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے تو دوسری طرف اشرف غنی حکومت کی بھی عوام میں کوئی حمایت موجود نہیں تھی جو کہ امریکہ کی ایماء پر ہی سانسیں لے رہی تھی، جسکی پوری کابینہ پرانے جہادیوں اور جنگی سالاروں پر مشتمل تھی۔ جنہوں نے اس پورے عرصے میں کرپشن کرتے ہوئے خوب ڈالر لوٹے اور اپنی عیاشیوں کو دوام دیتے ہوئے اپنی تجوریاں بھر بھر کر بہرون ممالک بھیجتے رہے اور آج اپنے خاندانوں سمیت پر تعیش اور پر سکون زندگی جی رہے ہیں۔ دو ٹریلین ڈالرز آنے کے باوجود افغانستان میں نہ کوئی انفراسٹرکچر تعمیر ہوسکا نہ ہی کوئی ادارہ منظم طور پر تشکیل پاسکا، اسی وجہ سے امریکی انخلا کے فوراً بعد اشرف غنی حکومت زمین بوس ہوگئی۔ عوام نے کئی بھی ان لٹیروں اور ڈاکوؤں کے دفاع میں مزاحمت نہیں کی، جو امریکہ کی کٹھ پُتلی حکومت سے افغان عوام کی نفرت کا واضح اظہار تھا۔امریکی انخلا کے یہ سب لٹیرے ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے اور عوام کو ایک وحشت کے سامنے چھوڑ دیا۔

کریم پرہر نے آج کے حالات پر بات کی کہ آج افغان عوام طالبان کے مظالم کو برداشت کر رہے ہیں۔ افغان عوام بے روزگاری، بھوک و ننگ، لاعلاجی، بیماری اور تمام جمہوری حقوق پر قدغن جیسے بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ افغان عوام پچھلے اور موجودہ حالات سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور اپنی انقلابی تاریخ دہراتے ہوئے ایک دفعہ پھر انقلاب ثور کی روایت کو اپناتے ہوئے ان تمام تر محرومیوں اور بربریت سے چھٹکارا حاصل کر ینگے۔ وہ دن دور نہیں جب افغان محنت کش عوام خطے کے تمام محنت کشوں کے ساتھ مل کر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کریں گے۔

اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ عمر پشتون نے موجودہ طالبان حکومت کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا کہ کس طرح طالبان حوکومت سے عوام کا چھٹکارا ممکن ہے۔ اس سوال کے جواب میں کریم نے یہ بتایا کہ آج افغانستان سمیت اس تمام خطے کو ایک سوشلسٹ انقلاب کی ضرورت ہے۔ اس خطے کے تمام محنت کشوں کو مل کر غلیظ سرمایہ دارانہ نظام سے لڑنا ہوگا۔

سٹڈی سرکل کے آخر میں آئے ہوئے دوستوں نے انتہائی دلچسپی سے تنظیمی لٹریچر خریدا اور اس تمام بحث کو سراہتے ہوئے ان سٹڈی سرکلز کو مسلسل جاری رکھنے اور تنظیمی بڑھوتری میں اپنا کردار ادا کرنے کا عہد کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.