لاہور: یو سی پی کے طلبہ پر یونیورسٹی سیکیورٹی اور پولیس کا بہیمانہ تشدد اور گرفتاریاں

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

مورخہ 26 جنوری، بروز منگل یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے طلبہ نے لاہور میں یونیورسٹی کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ احتجاجی دھرنے کا مقصد یونیورسٹی انتطامیہ کی جانب سے آن کیمپس امتحانات کی پالیسی کا خاتمہ تھا اور طلبہ کا مطالبہ تھا کہ آن لائن امتحانات لیے جائیں۔ صبح 11 بجے طلبہ کا جم غفیر یونیورسٹی کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہوا۔ طلبہ نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ اگر انہیں آن لائن پڑھایا گیا ہے تو ان کے امتحانات بھی آن لائن ہی لیے جائیں۔

یاد رہے کہ اس وقت پورے پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں اسی مسئلے پر احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے۔ لاہور میں بھی 18 اور 22 جنوری کو گورنر ہاؤس کے سامنے طلبہ نے فیزیکل امتحانات کے خلاف احتجاجات رکارڈ کروائے۔ 25 جنوری کو یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ ایک بھرپور احتجاج کے بعد اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے اور اپنے مطالبات منوانے کے بعد طلبہ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے طلبہ کے ساتھ اُن کے اِسی سلسلے میں جاری احتجاج میں شریک ہوئے۔

اس احتجاج کے دوران طلبہ کا کہنا تھا کہ وہ 2 بجے تک انتظار کریں گے کہ یونیورسٹی انتظامیہ آن لائن امتحانات کا اعلان نامہ جاری کرے مگر 2 بجے تک یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کسی قسم کا جواب موصول نہیں ہوا۔ اس کے بعد طلبہ نے یونیورسٹی کے اندر گھسنے کی کوشش کی، مگر یونیورسٹی گارڈز نے لاٹھیوں اور پتھروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے انہیں روکنا چاہا جس کے نتیجے میں کافی طلبہ زخمی ہوئے اور ایک طالبعلم یونیورسٹی گارڈز کے طلبہ پر بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے کے باعث ابھی بھی آئی سی یو میں موت اور زندگی کی لڑائی لڑ رہا ہے۔

اس واقعہ کے بعد طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور پُرامن احتجاج، مشتعل ہجوم کی شکل اختیار کر گیا۔ اس دوران پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان اور دیگر طلبہ نے اشتعال انگیز طلبہ کو پُرامن رہنے کی تلقین کی اور اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ طلبہ نے احتجاجاً یونیورسٹی کے مقابل سمت میں واقع شوکت خانم چوک بند کر کے چاروں سمت سے آنے والی ٹریفک جام کر دی۔ پولیس کے ایک عہدیدار نے طلبہ سے کہا کہ وہ اندر جا کر یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کرتا ہے، مگر کافی وقت گزرنے کے بعد بھی اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔ کافی دیر انتظار کے بعد طلبہ یونیورسٹی کے دوسرے دروازے کے گرد جمع ہونا شروع ہوئے اور جواب طلبی کے لیے زور دار نعرے لگائے اور دروازے کو دھکے لگائے جس پر اندر سے گارڈز نے طلبہ پر پتھراؤ شروع کر دیا اور مزید طلبہ زخمی ہوئے۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ میں موجود ایک شر پسند ٹولے نے، جو صبح سے ہاتھ میں لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے ہوئے تھا اور بار ہا سمجھانے پر بھی وہ باز نہ آیا، نے ٹائرز کو آگ لگا کر یونیورسٹی کے دروازے کے سامنے رکھ دیا۔ اس کی وجہ سے یونیورسٹی کے اثاثوں کو نقصان ہوا۔

اس کے بعد یونیورسٹی کے اندر سے پولیس کے اہلکار نکلے اورلاٹھیوں کے ساتھ طلبہ کے طرف لپکے اور طلبہ پر بُری طرح لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں طلبہ منتشر ہو گئے اور 40 کے قریب طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ تقریباً 94 نامزد طلبہ پر اور 500 کے قریب نامعلوم افراد پر ایف آئی آر درج کی گئی جس میں مختلف دفعات بھی شامل ہیں۔ اس پورے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کا کردار عوام کی حفاظت نہیں بلکہ امیروں کی نجی ملکیت کی رکھوالی کرنا ہے۔ گرفتار طلبہ کو اگلے دن شام 4 بجے ماڈل ٹاؤن کچہری میں پیش کیا گیا اور تین دن کے جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا گیا ہے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق یونیورٹی کی طرف سے 25 سے زیادہ طلبہ کو معطل بھی کیا جا چکا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے آن لائن امتحانات کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ پر کیے جانے والے بہیمانہ تشدد، لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور طلبہ کی معطلی کی پُرزور مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ گرفتار کیے جانے والے طلبہ کو فی الفور رہا کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ہمیشہ کی طرح طلبہ کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ اپنے طلبہ دشمن مقاصد اور طلبہ سے انتقامی کاروائی پوری کرنے کی غرض سے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، اس لیے طلبہ کو مضبوط بنیادوں پر منظم ہوتے ہوئے ملک بھر کے طلبہ کو اس تحریک میں شامل کر کے طلبہ یونین کی بحالی اور تمام نجی اداروں کو قومیانے کے مطالبے کی طرف بڑھنا ہو گا۔ تاکہ بھرپور انداز میں طلبہ مزاحمت کو برقرار رکھا جا سکے۔

طلبہ اتحاد زندہ باد!
طلبہ یونین بحال کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.