جنوبی پنجاب: ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، جنوبی پنجاب|

مورخہ 8 جنوری، بروز جمعہ جنوبی پنجاب میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر ِاہتمام آن لائن ریجنل مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول دو سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن جس کا موضوع ”عالمی اور پاکستان تناظر“ تھا، کو چیئر راول اسد نے کیا اور اس پر منصور ارحم نے تفصیلی بات رکھی۔

منصور ارحم نے پوری دنیا کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے جس کے اثرات ہمیں دنیا کے ہر ملک پر نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ جو کہ پوری دنیا کا تھانیدار بنا ہوا تھا اپنی پرانی ساکھ کھو رہا ہے اور حالیہ الیکشن میں جو بائیڈن کے جیتنے کے بعد یہ امید لگائی جا رہی ہے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے مگر یہ سوائے خام خیالی کے کچھ نہیں۔

اسی طرح کم و بیش دنیا کے تمام ممالک کی صورتِ حال مختلف نہیں، برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو چکا ہے جو خود برطانیہ کے تضادات میں اضافہ کرے گا اور آمدہ عرصے میں صورتِ حال اور گمبھیرتا اختیار کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ امریکی سامراجی کی کمزوری کے ساتھ ساتھ علاقائی سامراجی قوتیں اُبھر رہی ہیں جیسے کے چائنہ، مگر موجودہ عہد میں چائنہ کسی صورت امریکہ جیسا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ منصور کا مزید کہنا تھا کہ کرونا وبا میں سرمایہ دارانہ نظام کی نا اہلی کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ محنت کش طبقے کو مرنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا، عوام کی زندگیوں پر امیروں کی معیشت کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور یہ ناگزیر ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ بحران شدت اختیار کرے گا۔

منصور کی تفصیلی گفتگو کے اختتام پر سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد سوالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آصف لاشاری نے بتایا کہ بائیڈن کے آنے سے محنت کش عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ٹرمپ نے جو مسائل چھوڑے ہیں وہ حل ہونے کی بجائے بڑھنے کی طرف جائیں گے۔ بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرحان رشید کا کہنا تھا کہ منافعے کا یہ نظام لوگوں کی جانوں پر چند ایک بڑی دوا ساز کمپنیوں کے منافعوں کو تحفظ دے رہا ہے، نیز یہ نظام آج زائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے اور اس سے نکلنے کی ہر راہ نئے اور زیادہ سنگین بحران کا راستہ ہموار کرتی جائے گی۔ اس معاشی بحران نے عالمی طاقتوں کے توازن کو بدلا ہے جس کے نتیجے میں ہمیشہ سے سامراجی ٹکڑوں پہ پلنے والی پاکستانی ریاست آج خود یتیمی کی حالت میں ہے جو چین اور امریکہ میں سے کسی ایک کے چناؤ میں شش و پنج کا شکار ہے۔ اس کے بعد منصور ارحم نے پہلے سیشن کی ساری بحث کو سمیٹا اور کہا کہ آج کا عہد تحریکوں کا عہد ہے مگر تمام تر بحران قیادت کے بحران کی صورت میں سمٹ چکا ہے۔

اس کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع کتاب ”بالشویزم، راہِ انقلاب“ تھی۔ اس سیشن کو چیئر کرنے کے فرائض آصف لاشاری نے سرانجام دیئے۔ اس موضوع پر تفصیلی بات کرتے ہوئے فرحان رشید نے روس میں کامیاب انقلاب کرنے والی بالشویک پارٹی کی تعمیر کا سفر اور انقلاب سے پہلے روس کی صورتِ حال پر بات کی۔ فرحان کا کہنا تھا آج پاکستان میں انقلاب پر ہمیں جن سوالات کا سامنا ہوتا ہے بالشویک پارٹی کی تاریخ سے ہم کو ان سب کے جواب میسر ہوتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات 1917 سے پہلے کے روس کے حالات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں حتیٰ کہ وہ روس کئی حوالوں سے پاکستان سے زیادہ پسماندہ تھا۔ زار شاہی میں ریاستی جبر اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا کہ 1900 سے قبل تک کسی مارکسی گروپ کی اوسطاً عمر 4 ماہ سے زیادہ نہ تھی، سیاسی پارٹیاں نہ تھیں حتیٰ کہ احتجاجوں پر پابندیاں تھیں۔

ایسی سنگین صورتِ حال میں پلیخانوف نے انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں مختصر اور جلاوطنی کے معمول میں روس میں مارکسزم کا علم تھاما جس کو آخری دھائی میں قدرے پذیرائی ملی، جس کا سبب روس میں بیرونی سرمایہ کاری کے باعث ہونے والی صنعتی ترقی تھی۔ اس عہد میں کئی مارکسی گروپ بنے جن میں اصلاح پسندی اور لبرل ازم کے نظریات حاوی رہے مگر یہیں سے بالشویک پارٹی اور انقلابِ روس کے بیج بوئے گئے۔ 1898 میں RSDLP کی پہلی کانگریس اور اس کے فوراً بعد پوری قیادت کا خاتمہ پھر 4 سال بعد دوسری کانگریس اور تنظیمی سوالات پر فوراً سپلِٹ، 1905 کا انقلاب اور ردِ انقلاب، پہلی عالمی جنگ اور دوسری انٹرنیشنل کی غداریاں، تمام قیادت کی جلاوطنیاں اور حتیٰ کہ فروری انقلاب تک یہ وہ تمام عرصہ تھا جس کی بھٹی میں بالشویک پارٹی کا کنندن تیار ہوا۔

ایک ایسی پارٹی جو مارکسی نظریات پہ نہایت غیرلچکدار جب کہ عمل کے میدان میں شدید لچکدار نوعیت رکھتی تھی، کہ فروری انقلاب کے بعد روٹی، زمین اور امن کے ساتھ ساتھ ”تمام طاقت سویتوں کو دو“ کے نعرے پہ ڈٹی رہی حالانکہ سویتوں کی قیادتیں اصلاح پسندی کی طرف راغب تھیں۔ مگر بالشویک پارٹی کے درست طریقہ کار اور محنت کش طبقے کی واحد انقلابی قوت کے طور پر اعتماد ہی وہ طاقت ثابت ہوا جس کے باعث بالآخر 20 سال سے بھی کم عرصے کے سفر میں بالشویک پارٹی نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب کیا۔

فرحان کی لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا، اس کے بعد پہلی کنٹریبیوشن کے لئے راول کو بلایا گیا۔ راول نے بات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے کتاب کی اہمیت پر بات کی اور کہا کہ آج ہم سرمایہ دارانہ نظام کے جس عہد میں جی رہے ہیں اس میں ہم انقلابیوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم تاریخ میں جتنے بھی انقلابات گزر چکے ہیں ان کو سمجھیں۔ جس میں روس کا انقلاب جس کی آج ہم مثال دیتے ہیں اور اس کی بات کرتے ہیں کہ کس طرح تاریخ میں پہلی بار مزدور ریاست کا قیام کیا گیا۔ اس کے بعد یاسر ارشاد نے پاکستان کے موجودہ حالات اور پاکستان میں انقلابی پارٹی کی اہمیت کے اوپر تفصیلی بات رکھی۔ آخر میں فرحان رشید نے دوسرے سیشن کے اختتامی کلمات کہے، فرحان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں موجودہ عہد کے واحد سچ مارکسزم کے نظریات پر کاربند ہوتے ہوئے پروفیشنل انقلابیوں کی ضرورت ہے، جس کے بغیر پاکستان کا انقلاب کسی صورت ممکن نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.