|پروگریسو یوتھ الائنس|
کراچی یونیورسٹی میں کل ایک ہولناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک خود کش حملے میں ایک ویگن ڈرائیور سمیت تین چینی باشندے جان کی بازی ہار گئے، جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ دھماکے کے فوری بعد ہی اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ نے قبول کر لی اور ساتھ ہی حملہ آور کی تصویر بمع دیگر تفصیلات اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے نشر کر دیں۔ حملہ آور پہلی خاتون خود کش تھی جو یونیورسٹی گریجویٹ ہونے کے ساتھ ساتھ دو معصوم بچوں کی ماں بھی تھی۔ اس خبر نے سوشل میڈیا پر شدید گرما گرم بحث مباحثے کا آغاز کر دیا اور دونوں طرف سے انتہائی جذباتی رویہ دیکھنے میں آیا۔ ہم نہتے اساتذہ اور طلبہ پر کیے گئے اس حملے کی مذمت کرتے ہیں مگر ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی ریاست اور اس کے پالیسی ساز خود کو اس قسم کی کاروائیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ یہ مسلسل بڑھتا ہوا ریاستی اور قومی جبر ہی ہے جس نے اب ماؤں اور بہنوں کو بھی اس آگ اور خون کی ہولی میں دھکیل دیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا بحران شدت سے سطح پر اپنا اظہار کر رہا ہے۔ جہاں معاشی بحران نے پاکستان کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی زندگی اجیرن کردی ہے، وہیں پاکستانی ریاست کا مظلوم اقوام پر قومی جبر مزید پیچیدہ ہوگیا ہے اور شدت پکڑ رہا ہے۔ حال ہی میں چاغی میں معصوم بلوچوں کا بہیمانہ قتل اس کی دردناک مثال ہے۔ وسائل کی لوٹ مار، جبری گمشدگیاں، فوجی آپریشن اور معاشی استحصال کے خلاف مظلوم اقوام کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ ایک طرف پاکستانی ریاست کی غیر انسانی پالیسیاں ہیں تو دوسری طرف قوم پرست قوتیں بھی عوامی سیاست پر انحصار کرنے کی بجائے قوم پرستی کے بوسیدہ نظریات کے تحت عالمی سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگوں میں ان نوجوانوں کو دھکیل کر آزادی کی راہ کو مزید دشوار کرنے میں لگے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی میں ہونے والا واقعہ بلاشبہ اندوہناک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کسی بھی طرح کی منطق تعلیمی اداروں کے اندر ایسے واقعات کا جواز فراہم نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس وادی ہمیشہ کہتے ہیں کہ مسلح جدوجہد کو ہمیشہ ایک انقلابی سیاسی پروگرام اور پارٹی کے ماتحت ہونا ہوگا۔ گوریلا شورش اس وقت کرہ ارض کی سب سے منظم قوت یعنی سفاک سرمایہ دارانہ ریاست کو مکمل طور پر ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں قومی جبر کے خلاف جدوجہد کو مسلح بنیادوں پر لڑنے کا نتیجہ قومی جبر میں اضافے اور ریاستی جبر کی سفاک حقیقت کے خلاف ملک کی باقی محنت کش عوام سے یکجہتی کی بجائے ریاستی پراپیگنڈے کے موثر فروغ کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک بڑی عوامی تحریک کے بغیر مسلح جدوجہد قومی اور ریاستی جبر کو کم کرنے کے بجائے مزید جبر کی راہ ہموار کرتی ہے۔ خاص طور پر جب ان مسلح حملوں کا نشانہ عام طلبہ اور نہتے شہری ہوں تو اس سے قومی آزادی کی تحریک کی حمایت بڑھنے کے بجائے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، جو کہ حکمران طبقہ چاہتا ہے۔
ہم بلوچستان سمیت ملک بھر میں جاری قومی، مذہبی اور صنفی جبر سمیت جبر کی تمام اقسام کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں جبر کی تمام اقسام کا حقیقی اور مستقل بنیادوں پر خاتمہ محض سرمایہ دارانہ نظام، جو جبر کی تمام اشکال کی بنیاد ہے، کا خاتمہ کر کے ہی ممکن ہے۔ اس انسان دشمن نظام کا خاتمہ صرف سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے، جس کے لیے جدوجہد کرنا ہر ذی شعور انسان کا فرض ہے۔
واضح رہے کہ اگر اس حملے کے بعد عام پرامن بلوچ طلبہ کو نشانہ بنایا گیا، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا، پروفائلنگ کی گئی، سیاسی سرگرمیوں اور سٹڈی سرکلز پر پابندی لگائی گئی، دیگر طلبہ کو بھی خوف و ہراس کر کے فیسوں میں اضافے سمیت دیگر طلبہ دشمن اقدامات کیے گئے، تو اس کے خلاف بھرپور آواز بلند کی جائے گی۔ اسی طرح سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کے بعد کراچی یونیورسٹی میں الیکشن ہونا تھے، اگر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر طلبہ یونین کے الیکشن میں تاخیر کی گئی تو اس کے خلاف بھی مزاحمت کی جائے گی۔