لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں حالیہ تصادم پر پی وائی اے کا اعلامیہ!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور |

26 مئی 2022ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایک غنڈہ گرد تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ اور پشتون ایجو کیشن ڈیویلپمنٹ موومنٹ کے درمیان لڑائی ہوئی۔ جمعیت اور کونسلوں کی جانب سے اس لڑائی کی الگ الگ وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ آزادانہ اطلاعات کے مطابق لڑائی کی وجہ کوئی ذاتی مسئلہ تھا۔ بہر حال جو بھی وجہ ہو اس لڑائی کے نتیجے میں کیمپس میں سخت سیکورٹی کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ اس لڑائی میں غنڈہ گرد تنظیم جمعیت کی جانب سے اسلحے کا بھی استعمال کیا گیا۔ یونیورسٹی کسی تعلیمی ادارے کے نہیں بلکہ میدانِ جنگ کے مناظر پیش کر رہی تھی۔ اس لڑائی میں دونوں حریفوں کے متعدد کارکنان زخمی ہوئے۔ جمعیت کے غنڈوں نے پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی میں یونیورسٹی کے طلبہ کو زدوکوب کیا، سرعام اسلحہ کی نمائش کرتے رہے، اور فائرنگ بھی کی۔ یونیورسٹی میں سارا دن خوف و ہراس چھایا رہا،کینٹینیں اور کھانے کے ڈھابے بند کر دیئے گئے۔ جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ ایک تماشائی کی طرح ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔

لڑائی ختم ہونے کے بعد انتظامیہ کی سرپرستی میں پولیس نے کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ہاسٹلوں، لائبریریوں اور کینٹینوں سے عام طلبہ کی گرفتار یوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جمعیت کے غنڈوں پر انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کوئی کاروائی نہیں کی گئی مگر کونسلوں کے درجنوں کارکنان کے ساتھ ساتھ کئی عام طلبہ کو بھی گرفتار کیا گیا۔ جنہیں بعد ازاں رہا کر دیا گیا۔ یہ در حقیقت نسلی پروفائلنگ کے جاری سلسلے کا ہی تسلسل ہے جو کراچی یونیورسٹی والے واقعے کے بعد سے ہی جاری ہے، جس میں تقریباً ایک ماہ پہلے پنجاب یونیورسٹی سے بیبگر بلوچ نامی طالب علم کو ریاستی اداروں نے اغواء کیا اور طلبہ مزاحمت کے نتیجے میں اسے بازیاب کیا گیا۔ اس کا مقصد بھی کیمپس میں خوف کا ماحول قائم رکھنا ہی ہے۔ اس طرح طلبہ کی حفاظت کے نام پر اس کے بعد کیمپس کی سیکورٹی شدید کر دی گئی۔ اگر واقعتا کیمپس میں طلبہ کی سیکورٹی کیلئے ہی یہ سخت اقدامات لیے گئے ہیں تو پھر انتظامیہ ہمیں یہ جواب دے کہ کیمپس کے اندر جمعیت کو اسلحہ رکھنے کی اجازت کس نے دی؟ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی کھلی طلبہ دشمنی اور منافقت کا اظہار ہے۔

پی وائی اے کیمپس کے اندر اسلحے کے استعمال اور ذاتی بنیادوں پر لڑائیوں کے ساتھ ساتھ طلبہ کی گرفتاریوں کی بھی شدید مذمت کرتاہے۔ اگر اسلحے کے استعمال کی بنیاد پر گرفتاریاں کی گئی ہیں تو پھر جنہوں نے اس کا استعمال کیا یعنی جمعیت، کے کارکنان کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ بہر حال ان لڑائیوں سے طلبہ سیاست کو بدنام کیا جاتا ہے۔ ایسی لڑائیوں کو یونیورسٹی انتظامیہ بھی اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے، اور عموماً خود ہی کرواتی ہے۔ مثلاً چند روز پہلے وفاقی حکومت کی جانب سے ایچ ای سی کے بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کی تجویز سامنے آئی ہے، جو چند روز بعد پیش ہونے والے بجٹ میں عمل میں لائی جائے گی۔ پہلے ہی شعبہ تعلیم کا بجٹ انتہائی کم ہے جس کی وجہ سے پچھلے چند سالوں سے فیسوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کٹوتی کے بعد یونیورسٹیوں کی فیسوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا، جس کے خلاف طلبہ کے احتجاجوں کا خطرہ موجود ہے۔ ایسے میں یونیورسٹی کے اندر اس لڑائی کو جواز بنا کر خوف کا ماحول قائم کردیا گیا ہے۔ ایک ماہ پہلے کراچی یونیورسٹی میں بھی انتظامیہ کی جانب سے ایسا ہی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور پروفیسروں کی کرپشن اور ہراسمنٹ کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے۔اسی طرح انتظامیہ کے پالتو غنڈوں یعنی جمعیت، اور کونسلوں کے وہ عہدیدار جو براہ راست انتظامیہ کے ایک دھڑے سے مستفید ہوتے ہیں، بھی ہراسمنٹ جیسے گھناؤنے عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی حتی الامکان یہ کوشش ہوتی ہے تاکہ کیمپس کے اندر خوف کا ماحول قائم رہے تاکہ ان کے، اور ان کے آقاؤں کے خلاف کوئی طلبہ مزاحمت نہ جنم لے سکے۔

اس خوف کے ماحول اور فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کو تمام تر تفریقوں سے بالاتر ہو کر طلبہ اتحاد کی بنیاد پر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ ”جمعیت بمقابلہ کونسلیں“ درحقیقت انتظامیہ کی ہی پالیسی ہے جس کا مقصد طلبہ کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ لڑائیاں کروا کر یالڑائیوں کے نتیجے میں کیمپس کے اندر خوف کا ماحول قائم کرنا اور طلبہ سیاست کو بدنام کرنا ہے۔

ابھی دودن پہلے ہی تعلیمی بجٹ میں حکومت کی طرف سے 50 فیصد کٹوتی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ جوکہ افراط زر ملا کر 80 فیصد بنتی ہے۔ جس رفتار سے شعبہ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، عین ممکن ہے یہ شعبہ ہی ختم ہو جائے۔ گزشتہ روز ایچ ای سی نے نوٹس جاری کیا ہے کہ بجٹ کٹوتی کی صورت میں متعدد تعلیمی ادارے بند ہوں گے اور فیکلٹی سے بھی کئی لوگوں کو نوکریوں سے نکالنا پڑے گا۔ یہ اس ملک کے غریبوں پر حکمرانوں کی طرف سے بہت بڑا حملہ ہے۔ یونیورسٹیاں آج نوجوانوں کو مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے تعلیم دینے نہیں بلکہ تعلیم سے دور کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی۔ طلبہ کو جبراً غیر سیاسی کیا گیا۔ ڈسپلن کے نام پر پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس دوران فیسوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور تعلیم مزدور طبقے کی پہنچ سے بالکل دور کر دی گئی۔ ہاسٹلوں کے مسائل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ بنیاد پرست رجعتی تنظیموں کے ذریعے اسلحہ و ڈنڈا کلچر پروموٹ کر کے خوف اور دہشت کی فضا بنائی گئی۔ پھر اسے جواز بنا کر یونیورسٹیوں کی سیکورٹی کے نام پر طلبہ کو ہراساں کیا گیا۔

در اصل آج صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ پوری سرمایہ دارانہ ریاست ہی ایک طلبہ تحریک سے خوفزدہ ہے۔ سرمایہ دار طبقے اور ان کے نمائندے مین سٹریم سیاسی جماعتوں و ریاستی اداروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں عوام خاص کر نوجوانوں کی سیاست کا موضوع ان کے بنیادی مسائل ہی نہ بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام میں ابھرتے غم و غصے کو دبانے کے لیے کسی بھی واقعے کو بنیاد بنا کر جبر کے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ اسی لیے تعلیمی اداروں میں ایک طرف مختلف جواز بنا کر سیکورٹی سخت کی جا رہی ہے تو دوسری طرف اپنے پالتو غنڈوں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے تا کہ لڑائی جھگڑوں کے ذریعے حقیقی مسائل پر پردہ ڈالا جا سکے۔

ساتھیو! حکمران آج ہمیں یہ کہہ رہے ہیں معیشت بہت بحران کا شکار ہے لہٰذا عوام کو مہنگائی، فیسوں میں اضافہ، تعلیمی بجٹ میں کٹوتی اور دیگر تکلیفیں برداشت کرنا ہوں گی۔ ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ اس بحران میں تمہارے پاس سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکج کے نام پر دینے کیلئے 2700 ارب روپے کہاں سے آ گئے؟ یہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ تھا، جو خاموشی سے سرمایہ داروں کی جیبوں میں ڈال دیا گیا۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ دفاع کے بجٹ میں کمی کر کے تعلیم کا بجٹ کیوں نہیں بڑھایا جا سکتا؟ مگر محض یہ سوال کرنے سے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ یہ اس معاملے پر صرف تب غور کریں گے جب طلبہ ملک گیر سطح پر متحد ہو کر جدوجہد کا آغاز کریں گے۔ آج طلبہ کو حقیقی مسائل کو بنیاد بناتے ہوئے ہر ادارے میں اپنی کمیٹیاں تشکیل دینا ہونگی۔ ان کمیٹیوں کا ملک کے د وسرے اداروں کی کمیٹیوں سے اتحاد بنا کر ملک گیر تحریک چلانی ہوگی۔ ایک تعلیمی ادارے کے مسائل کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے مسائل کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ ایک بار جب ملک گیر سطح پر طلبہ تحریک کا آغاز ہوگیا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کیسے تعلیم کیلئے خزانے سے پیسے نکلتے ہیں۔ اور اگر طلبہ منظم نہیں ہوتے تو پھر آئے روز فیسوں میں اضافہ ہی ہوتا جائیگا۔

حق مانگنا توہین ہے، حق چھین لیا جائے!
طلبہ اتحاد، زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.