ڈیرہ غازی خان: ”انقلاب فرانس“ کے عنوان پر ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پی وائی اے، ڈی جی خان |

مورخہ 11 جولائی 2019ء بروز جمعرات، ڈیرہ غازی خان میں پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول ایک سیشن پر منعقد تھا جس کا موضوع انقلابِ فرانس تھا۔ سیشن کو چئیر کامریڈ فرحان نے کیا اور کامریڈ آصف لاشاری نے لیڈ آف دی۔

کامریڈ آصف نے اپنی لیڈ آف کا آغاز انسانی سماج میں انقلابات کے کردار اور اہمیت سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی سماج کی ترقی و بڑھوتری میں انقلابات نے بہت اہم کردار ادا کیا اور انقلابات کے بغیر انسانی تاریخ کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ انسانی سماج کا تجزیہ ہمیں دکھاتا ہے کہ جب بھی کوئی سماج ذرائع پیداوار اور سماج کو ترقی دینے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تب اس نظام کو اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب مظلوم عوام پرانے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے تاریخ کے میدان میں داخل ہوتے ہیں اور تاریخی عمل میں عوام کی یہی تاریخی شمولیت انقلاب کہلاتی ہے۔ انقلابِ فرانس بھی تاریخ کی اسی ناگزیر ضرورت کا اظہار تھا۔

جاگیردارانہ نظام سماج کو مزید ترقی دینے کا اہل نہیں رہا تھا اور سماج کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ سماج اور ذرائع پیداوار کی مزید ترقی کے لیے پرانے پیداواری رشتوں اور پرانے معاشی ڈھانچے کا خاتمہ ناگزیر تھا اور اس تاریخی ضرورت کا اظہار یورپ میں ہونے والے مختلف بورژوا انقلابات کے ذریعے ہوا۔ اس کے بعد کامریڈ نے قبل از انقلاب فرانس کے معاشی، سماجی اور سیاسی حالات پر بات رکھی۔ کامریڈ کا انقلاب سے قبل فرانسیسی روشن خیالی کے جنم اور عوامی شعور پر اس کے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روشن خیالی کے نظریات کا جنم عہد کی تبدیلی کا ہی نتیجہ تھا اور ان نظریات ہی کی بدولت سماج کو از سرِ نو تبدیل کرنے کا فریضہ سر انجام دیا گیا۔ کامریڈ نے انقلابِ فرانس کے مختلف مراحل، تحریک کے عروج و زوال، عوام اور انقلاب کے کردار پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انقلاب کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کامریڈ کا کہنا تھا کہ انقلابِ فرانس ایک بورژوا انقلاب تھا اور اس انقلاب کے بعد اقتدار سرمایہ دار طبقے کو منتقل ہوا اور سرمایہ داری کا جنم بھی اسی انقلاب کی بدولت ہوا۔ اگرچہ انقلاب کے اندر عام عوام مزدوروں اور کسانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں مگر تاریخی جبر کی بدولت مزدور اور کسان اقتدار سرمایہ دار طبقے کو منتقل کرنے پر مجبور تھے۔ کامریڈ نے بونا پارٹ ازم کے مظہر پر بھی روشنی ڈالی۔ آصف کا کہنا تھا کہ انقلابِ فرانس نے پرانے پیداواری رشتوں کا مکمل خاتمہ کیا، عالمی سطح پر جاگیرداری اور بادشاہت کے خاتمے کا کاآغاز کیا، کلیسا کے جبر و اجارہ داری کا مکمل خاتمہ کیا اور انسانی فکر و ٹیکنالوجی میں انقلاب کے لیے راہیں ہموار کر دیں۔ آصف کا مزید بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آج ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں یہ نظام بھی ہمیشہ سے موجود نہیں تھا بلکہ یہ نظام خود ایک انقلاب یعنی انقلابِ فرانس کا نتیجہ ہے اور یہ نظام دنیا کو جتنی ترقی دے سکتا تھا، دے چکا ہے اور اب یہ سماج اور ذرائع پیداورا کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے اور اب اس نظام کو انقلاب کے ذریعے اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

کامریڈ آصف کی لیڈ آف کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شبیر احمد بزدار نے بحث میں حصہ لیا اور آج کے عہد میں انقلاب کی ناگزیریت پر گفتگو کی۔ کامریڈ شبیر کا کہنا تھا کہ اس ملک کے محنت کش عوام اس نظام اور اس کو چلانے والوں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور سماج کو مکمل طور پر بدلنے کی خواہش دن بدن بڑھ رہی ہے۔ کامریڈ شبیر کے بعد کامریڈ امانت نے بحث میں حصہ لیا اور ان کا کہنا تھا کہ انقلابِ فرانس کا تاریخی واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہ محنت کش عوام ہی ہوتے ہیں جو نظام کو چلا رہے ہوتے ہیں اور اس کو تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ آخر میں کامریڈ فضیل اصغر نے سوالات کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھایا۔ کامریڈ فضیل نے انقلاب میں شامل مختلف طبقات کے طبقاتی کردار، ان کی تعداد اور انقلاب میں ان کے کردار پر تفصیل سے گفتگو کی۔ کامریڈ فضیل کا کہنا تھا انقلاب میں شامل مزدور اور کسان بادشاہت کا مکمل خاتمہ چاہتے تھے لیکن انقلاب میں موجود بورژوازی بار بار مفاہمت کا راستہ نکالنے کی غلط فہمی میں مبتلا تھی اور اپنے مفادات کی تکمیل چاہتی تھی۔ اسی وجہ سے ردِ انقلاب کو کئی بار انقلاب پر حملہ کرنے کا موقع بھی ملا۔ فرانس کے انقلاب کا کردار بورژوا تھا اور اس کی قیادت محنت کشوں کی بجائے سرمایہ دار طبقہ کر رہا تھا (البتہ اس انقلاب کے حقیقی محرک عوام ہی تھے)۔ آج کے عہد میں انقلاب کا کردار بورژوا نہیں بلکہ سوشلسٹ ہوگا اور اس کی قیادت محنت کش طبقہ یا پرولتاریہ کرے گا۔ جاگیرداری
نظام کے خاتمے کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے پرولتاریہ کی قیادت میں ایک منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس منظم جدوجہد کے لیے سائنسی انقلابی نظریات کی حامل، سخت ڈسپلن رکھنے والی منظم جماعت کی ضرورت ہے۔ عالمی حالات انقلاب کے لیے پک کر تیار ہو چکے ہیں، ضرورت محنت کش طبقے کی قیادت میں انقلاب برپا کرنے والی انقلابی پارٹی کی ہے۔ اگر ہم پرولتاریہ کو ایک انقلابی قیادت مہیا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ صدی سرمایہ داری کی آخری صدی ہو گی اور سوشلزم کا سورج انسانیت کے لیے سرخ سویرے کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.