کراچی: پروگریسیو یوتھ الائنس کی جانب سے مووی سیشن کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس کراچی|
پروگریسیو یوتھ الائنس کراچی کی طرف سے 29 ستمبر کو ایک مووی سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام میں گلزار صاحب کی 2014 میں انڈیا پاکستان کی تقسیم اور جنگ کے موضوع پر بنائی گئی شاہکار فلم ’کیا دلی، کیا لاہور‘ دکھائی گئی۔ پروگرام میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ علی برکت نے ادا کئے۔ کامریڈ نے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے موضوع کا تعارف اور آج کی نشست کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ تبدیلی کی جھانسے پر بنائی گئی موجودہ حکومت ملک کی معاشی صورتحال کے پیش نظر عام عوام کو کچھ ڈیلیور کرنا تو درکنار بلکہ بھیانک حملوں کا آغاز کر چکی ہے۔ جس کی وجہ سے دو ماہ میں ہی بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، لیکن معیشت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ ابھی محض آغاز کا بھی آغاز ہے۔ اپنے جھوٹے دعووں کی عریاں ہونے اور عوامی غم و غصّے سے بچنے کے لیے ایک بار پھر سرحد کے آرپار جنگ کا ڈھنڈھورا پیٹا جا رہا ہے تاکہ دونوں طرف کی عوام، محنت کش اور نوجوانوں کی انکے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ یہ فلم برصغیر کی دردناک تقسیم، اثرات اور فوج کے طبقاتی کردار پر بڑی مہارت سے روشنی ڈالتی ہے۔
فلم کے اختتام پر فلور کو مباحثے کے لیے کھولا گیا۔

انعم خان بات کرتے ہوئے۔

جس میں کامریڈ انعم خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرحد کے آرپار اتنا زہر اگلنے اور نفرتوں کے بیج بونے کے باوجود بھی یہ نفرت اپنی مضبوط بنیاد نہیں بنا سکی۔ آج بھی برصغیر کے دونوں حصوں کے عوام کی مشترک چیزیں، مختلف چیزوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال ثقافت ہے جو کہ آج بھی سانجھی ہے جس میں شادی و مرگ کی رسومات سب سے بڑی مثال ہیں۔ اسی طرح بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی، غربت، حکمرانوں کے عام عوام پر حملے وغیرہ یہ سب دونوں طرف سانجھا ہے۔ آج کے پروگرام اور بحث کا مقصد یہی ہے کہ یہ حقائق،حکمرانوں کی جانب سے دشمنی اور جنگ کے ڈھونگ کو نوجوانوں اور مزدوروں کے سامنے عیاں کیا جائے، جس کی آڑ میں ہم پر معاشی حملے کیے جا رہے ہیں۔

نغمہ شیخ بات کرتے ہوئے۔

اس کے بعد کامریڈ نغمہ شیخ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مارکسسٹ کسی بھی جنگ کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ تمام جنگیں کسی نا کسی شکل میں حکمران طبقات کے مفادات کے لیے کی جاتی ہیں۔ اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس جنگ کے ڈھکوسلے کے خلاف سیاسی جدوجہد کے لیے خود کو تیار کریں۔ 

پروگرام کے آخری مقرر کامریڈ پارس جان نے آرٹ اور سماج کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں انفرادیت کو پروان چڑھا کر لوگوں کو اپنے مسائل سے تنہا جوجنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلموں کے ذریعے ہیروازم کی ترویج کی جاتی ہے۔ ذیادہ تر فلموں کا ہیرو ایک ایسا کردار ہوتا ہے جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔جو دس دس لوگوں کو مار گراتا ہے اور پھر بیچ سڑک پر کھڑے ہو کر ناچتا بھی ہے۔ کامریڈ کا کہنا تھا کہ اس فلم کو اگر ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو دراصل اس فلم میں گلزار صاحب نے دو قومی نظرئیے کا جنازہ نکالا ہے۔ کامریڈ کا کہنا تھا کہ حکمران طبقات جنگ سے زیادہ “خطرہ جنگ” سے کام لیتے ہیں تاکہ دونوں طرف کی عوام کو جھانسا دے کر ان پر شدید معاشی حملے کئے جا سکیں۔ جنگی صنعت ایک بہت منافع بخش کاروبار ہے، جس کی لیے جنگوں کا ہوتے رہنا بنیادی شرط ہے۔ جنگی صنعت کی صورت میں سرمایہ داری انسانی جانوں کی قیمت پر منافع کماتی ہے۔ اس نظام کا خاتمہ ہی جنگ سمیت تمام درندگی کے خاتمے کا واحد حل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.