کشمیر: کشمیر ادبی فورم کے زیرِ اہتمام ”جنسی ہراسگی اور طلبہ کے مسائل“ کے موضوع پر سیمینار میں پی وائی اے کی شرکت

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|

مورخہ 17 اکتوبر کو عباس پور میں کشمیر ادبی فورم نے ”جنسی ہراسگی اور طلبہ کے مسائل“ کے موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ جس میں سکول اور کالجوں کے طلبہ کے علاوہ مختلف سیاسی تنظیموں کے کارکنان اور اہل محلہ نے شرکت کی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کی ایک کارکن نے بھی اس سرگرمی میں شرکت کی۔

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے کامریڈ آمنہ نے بات کرتے ہوے کہا کہ اس وقت تقریباً ہر سکول، کالج، یونیورسٹی، دفتر، فیکٹری وغیرہ میں جسمانی اوذ زہنی ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں ایسے واقعات میں شدید اضافہ ہو رہا مگر پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں تو یہ صورتِ حال اور بھی زیادہ بھیانک ہو چکی ہے۔ آئے روز سوشل میڈیا پر ہراسگی، تشدد اور زیادتی کے نئے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں اور ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو مختلف وجوہات کی وجہ سے منظر عام پر آ ہی نہیں پاتے۔ مگر عموماً ان تمام تر واقعات کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا کسی ایک خاندان پر ڈال کر اصل مسئلے اور اصل وجوہات سے عوام کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی درخت کو ختم کرنے کے لیے اس کو جڑوں سے کاٹنے کی بجائے آپ لگاتار اس کی شاخیں کاٹتے رہیں اور توقع کریں کہ شاخیں کاٹنے سے درخت خود بخود ختم ہو جائے گا۔ بالکل اسی طرح جب تک ان تمام مسائل کی حقیقی جڑوں کو ختم نہیں کیا جاتا، یہ مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اور کبھی بھی ختم نہیں ہو سکیں گے۔

کامریڈ آمنہ کا مزید کہنا تھا کہ لبرلز اور NGOs ہمیشہ یہی درس دیتے ہیں کہ اخلاقی تربیت سے، ہراسمنٹ کے موضوع پہ بڑے بڑے لیکچر دینے سے ان مسائل کو روکا جا سکتا ہے جبکہ ان مسائل کے پیدا ہونے کی مادی وجوہات کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے تاکہ ان کی مادی بنیاد یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کی لڑائی کو روکا جا سکے ور اس نظام کو طوالت بخشی جائے جس کے ساتھ ان کے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ اس لیے ہمیں ایسی ہر ایک کوشش کو ناکام بناتے ہوئے درست بنیادوں پر جدوجہد کو استوار کرتے ہوئے ہر محلے، گلی، سکول اور کالج میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانی ہوں گی جن کے ذریعے ہراسمنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر طلبہ مسائل کے حل کے لیے بھی جدوجہد کی جا سکے اور اس کے ساتھ ہی موجودہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑتے ہوئے اس کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کو تیز تر کیا جا سکے۔ ایک سوشلسٹ نظام جس کے اندر قومی، مذہبی و صنفی جبر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.