کراچی: ’’سی پیک۔۔۔ترقی یا سراب؟‘‘ لیکچر پروگرام کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسیو یوتھ الائنس، کراچی|

پروگریسیو یوتھ الائنس کے زیراہتمام مورخہ 8اپریل2018ء بروز اتوار کوایک لیکچرپروگرام بعنوان ’’سی پیک، ترقی یا سراب؟‘‘ کا انعقاد ماروی گوٹھ، کراچی میں کیا گیا جس میں علاقے میں رہنے والے مختلف تعلیمی اداروں زیر تعلیم 20 کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔ 

کامریڈ فارس راج نے لیکچر کا آغاز موجودہ عالمی سرمایہ دارانہ بحران سے کیااور واضح کیا کہ 2008ء میں جب یہ بحران شروع ہوا تھا تو اس وقت ابھرتی معیشتوں اور بالخصوص چین سے عالمی معیشت کوبحران سے نکالنے کی امیدیں وابستہ کی جارہی تھیں، مگر آج 10 سال بعد یہ ساری امیدیں دم توڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں حصے داری کی لڑائی زیادہ شدید ہو کر تضادات کو بھڑ کا رہی ہے۔ انہوں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 60 ارب ڈالر کے محصولات عائد کرنے کے اعلان کو بھی انہی تضادات میں شدت آنے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اعلانات عالمی سطح پر تجارتی جنگ شروع ہونے کی غمازی کرتے ہیں مگر دوسری طرف نظام کے نامیاتی بحران کی وجہ ان اعلانات پر عملدرآمد بھی بہت مشکل ہو گا اور صورت حال کو پھر مختلف مذاکراتی دوروں کے بعد پہلے کے معمول پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔مگر دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ بحران مزید بڑھے گا اور مزید شدت سے تضادات ابھر کر سامنے آئیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والا ورلڈ آرڈر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے جس میں بہت سے ادارے جو عالمی سرمایہ داری کے نظم ونسق اور قوتوں کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے قائم کیے گئے تھے وہ منہدم ہو چکے ہیں جبکہ باقی ماندہ ادارے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف،اور یواین او وغیرہ کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوالات ابھر چکے ہیں۔اس صورت حال کی وجہ سے امریکی سامراج کاگزشتہ سات دہائیوں سے اور بالخصوص سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے جاری سامراجی جبر بھی اب دنیا کو پہلے کی طرح کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھوتا چلا جارہا ہے ،جس کی مثالیں افغانستان، عراق، اور مشرق وسطیٰ میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں مگردوسری طرف اس صوت حال میں عالمی اسٹیٹس کو کی بحالی کی چین سے وابستہ امیدیں بھی دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔

گزشتہ دو تین برسوں کے دوران یہ بات کھل کر واضح ہو چکی ہے کہ امریکی سامراج کی زوال پذیری کے باوجود چین میں یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ عالمی سرمایہ داری کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا سکے۔ انہوں لینن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سامراج سرمایہ داری کی آخری منزل ہے،موجودہ صورت حال مارکسزم کی سچائی کی تصدیق کر رہی ہے۔فارس نے لیکچر کے دوران بیسویں صدی میں چین میں ہونے والے انقلابات بالخصوص 1949ء کے انقلاب پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس انقلاب کی وجہ سے ہی چین آج اس قابل ہوا ہے کہ وہ دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ایک فیصلہ کن کرادار ادا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے جس پر ہمارے حکمران اور میڈیا بات بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے تفصیل سے چینی انقلاب کے نتیجے میں چینی سماج میں ہونے والی ترقی پر بات کی،اور ساتھ ہی چینی انقلاب میں موجود خامیوں کو بھی واضح کیا جس میں معیشت کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلانے کے بجائے بیوروکریٹک بنیادوں پر چلایا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ماؤ کی وفات کے بعد چین کا بتدریج سرمایہ داری کی جانب لانگ مارچ ہوا، اور اس وقت چینی ریاست اور چین کا معاشی ڈھانچہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر استوار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے چینی سماج میں بھی سرمایہ دارانہ مسائل ،غربت، بے روزگاری اور دیگر میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بنیاد پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چینی ریاست اور کمپنیوں کی چین سے باہر سرمایہ کاری کا کرادار لوٹ کھسوٹ اور سامراجی پالیسیوں پر مبنی ہوتا ہے اور سی پیک کے پروجیکٹ کو بھی انہی پالیسیوں کے تحت دیکھنے کی ضرورت ہے۔ فارس کا کہنا تھا کہ سی پیک چینی اشرافیہ کی جانب سے شروع کیے گئے پروجیکٹ بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک حصہ ہے جس کی لاگت 900 ارب ڈالر سے زائد ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ سی پیک کے حوالے سے حکمرانوں کے ترقی کے دعوے بے بنیاد ہیں جبکہ اس پروجیکٹ کی وجہ سے پاکستان کی صنعت مزید دباؤ کا شکار ہو رہی ہے اور جس سے بے روزگاری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید کہا کہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے عالمی اور خطے کی دیگر سامراجی قوتیں بھی پاکستان میں اپنی پراکسیز کو جاری رکھیں گی جس کے باعث یہاں انتشار،عدم استحکام اور دہشت گردی میں مزید اضافہ ہو گا اور اس سب کا براہ راست نشانہ پاکستان کے محنت کش بنیں گے۔ اس کے بعد کچھ سوالات آئے اور کامریڈ عدنان اور کامریڈ میزان نے بحث کو مزید آگے بڑھایا۔ آخر میں کامریڈ فارس نے سوالات کی روشنی میں بحث کا اختتام کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.