ایران: نوجوانوں کی جاری بغاوت اور ہڑتالی لہر کی شروعات

|تحریر: ایسائس یاوری، ترجمہ: یار یوسفزئی|

ایران کے اندر 5 دسمبر کو نوجوانوں کے احتجاجوں کی ایک نئی لہر شروع ہوئی جس میں تعلیمی اداروں سمیت بازاروں میں بھی ہڑتالیں کی گئیں، جو 7 دسمبر تک جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اب تک 83 قصبوں اور شہروں تک پھیلنے والے ان احتجاجوں کی ابتدائی کال انقلابی طلبہ نے دی تھی مگر بعد میں مزدور تنظیموں نے بھی اس کی حمایت کی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیئے یہاں کلک کریں

اس کے ساتھ صنعتی مزدوروں کے بیچ معاشی ہڑتالیں پہلے ہی کئی ہفتوں سے جاری ہیں، بشمول ملک بھر کے ٹرک ڈرائیور، بوشہر اور خوزستان کے مختلف پیٹرو کیمیکل پلانٹس، کرج اور قزوین میں آٹو موبائل فیکٹری کے محنت کش، اصفہان اور بندر عباس کے میٹل ورکرز، اور اس کے علاوہ دیگر کئی شعبے۔

یہ ہڑتالی لہر اب بھی 2018ء سے جاری پچھلی ہڑتالوں کی نسبت چھوٹی ہے، مگر یہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ ابھی سے ہی ٹرک ڈرائیوروں کی ہڑتال بعض کارخانوں کو پیداوار روک دینے پر مجبور کر رہی ہے۔ اگرچہ صنعتی ہڑتالوں کے مطالبات کی نوعیت سیاسی ہونے کی بجائے معاشی ہے، مگر ان کے اوپر واضح طور پر انقلابی نوجوانوں کا اثر ہے۔ ان ہڑتالوں میں سے کئی، بشمول مسجد سلیمان پیٹرو کیمیکل پلانٹ اور اصفہان آئرن ورکس، نوجوانوں کے احتجاجوں کی پچھلی لہر کے دوران شروع ہوئے تھے۔

اس دوران 100 سے زائد یونیورسٹیوں کے طلبہ ہڑتال پر ہیں، حتیٰ کہ سکول کے طلبہ بھی سکولوں کے اندر ریلیوں میں شرکت کر رہے ہیں، جو ”مرگ بر آمر“ اور ”زن، زندگی، آزادی“ کے مقبول نعرے لگا رہے ہیں۔

تہران، مشھد، سنندج اور سقز سمیت دیگر قصبوں اور شہروں کے اندر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ مظاہرین کے چھوٹے گروہوں نے ایران بھر میں ریاستی عمارات کو نذر آتش بھی کیا ہے۔ بہرحال، حالیہ احتجاج مہسا بغاوت کے پچھلے احتجاجوں کی نسبت چھوٹے معلوم ہو رہے ہیں۔

آزادانہ مزدور تنظیمیں، بشمول ہفت تپہ شوگر کین پلانٹیشن کے محنت کش، یونین آف تہران بس کمپنی کے محنت کش، کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی ٹو ہیلپ بِلڈ لیبر آرگنائزیشنز، اور دیگر نے احتجاجوں کی حمایت میں بیانات جاری کیے ہیں۔

ٹیچرز کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی اور کونسل فار آرگنائزنگ پروٹیسٹس آف آئل کنٹریکٹ ورکرز (سی او پی او سی ڈبلیو) دونوں نے آگے کا قدم لیتے ہوئے یومِ طلبہ پر ہڑتالوں کی کال دی، جو شاہ کے خلاف 1953ء کی طلبہ تحریک کی یاد میں منایا جانے والا دن ہے۔

ریاستی جبر کے باوجود، نوجوان اپنی انقلابی تنظیموں کے ذریعے دوبارہ متحرک ہوئے ہیں، اور مسلسل ریاست کے خلاف عام ہڑتال کا پیغام پھیلا رہے ہیں۔ انقلابی طلبہ گروہوں نے احتجاجوں کی ایک مشترکہ کال دی ہے، جو اس حوالے سے ملک بھر میں لیف لیٹ تقسیم کر رہے ہیں، اور دیواروں پر انقلابی نعرے لکھ رہے ہیں۔

کرد اکثریتی علاقوں کے اندر، وہاں پر جاری وحشیانہ جبر کے باوجود، نوجوانوں کی انقلابی کمیٹیاں پھیلتی ہوئی نظر آئی ہیں۔ یہ تنظیمیں 1979ء کے ایرانی انقلاب کے دوران قائم ہونے والی انقلابی کونسلوں یا ’شوریٰ‘ کی طرز پر بنائی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ نوجوانوں نے 1979ء کا نعرہ بھی بلند کیا ہے: ”روٹی، کام، آزادی؛ شوریٰ زندہ باد“، اور ایک نیا نعرہ بھی لگایا گیا ہے: ”نہ ملّاوں کی نہ ہی بادشاہ کی، شوریٰ حکومت قائم کرو“۔

نوجوانو: محنت کشوں کے ساتھ اتحاد قائم کرو!

ایران کی انقلابی تحریک پر اب تک نوجوانوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس کے باعث احتجاجوں اور جبر کی پے درپے لہریں دیکھنے میں آئی ہیں، اور جبر نے اکثر احتجاجوں کی نئی لہروں کو ابھارا ہے۔ اس پوری جدوجہد کے دوران، نوجوان بہتر طور پر منظم ہوئے ہیں، جنہوں نے انقلابی تنظیمیں تشکیل دی ہیں، جیسا اوپر ذکر کیا گیا۔ ان تنظیموں نے بڑھتے ہوئے جبر کے سامنے تحریک کی بقا کو یقینی بنایا ہے۔ مگر تحریک محنت کش طبقے تک نہیں پھیلی ہے، جس کی بھاری قیمت نوجوانوں کو خون اور آزادی کھونے کی صورت چکانی پڑی ہے۔ یہ سلسلہ ہمیشہ اسی طرح نہیں چل سکتا، اور نوجوانوں کے تنہا رہ جانے سے تحریک کے زائل ہونے کا خطرہ ہے۔ ابھی سے ہی، موجودہ احتجاجوں کے دوران، تھکاوٹ کے واضح آثار نظر آ رہے ہیں۔

نوجوانوں کے بیچ بغاوت کے جذبات پروان چڑھے ہیں، جو ریاستی عمارات پر حملے کر رہے ہیں، رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں، اور اپنے محلّوں سے سیکورٹی فورسز کو بھگا رہے ہیں۔ مگر ان کے انقلابی جوش و جذبے کے باوجود، پچھلے مہینوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ تنہا رہتے ہوئے ریاست کا تختہ نہیں الٹ سکتے بلکہ محض عارضی طور پر سیکورٹی فورسز پر حاوی ہو سکتے ہیں، جو پھر انتقامی کارروائی کے لیے واپس آ جاتے ہیں۔ احتجاجوں کے بعض عناصر کے بیچ بے چینی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔

پچھلے کچھ دنوں میں اخلاقی پولیس (کرد لڑکی مہسا امینی کی موت میں ملوث ادارہ جس نے نوجوانوں کی حالیہ بغاوت کو اشتعال دیا) کو تحریک کے دباؤ کے باعث تحلیل کیے جانے کی خبریں موصول ہوئی ہیں، خصوصاً مغربی میڈیا کی جانب سے۔ اس کی وجہ ایرانی اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری کا ایک اچانک بیان تھا، جس نے 3 دسمبر کو ایک کانفرنس میں کہا کہ ایران کی ’اخلاقی پولیس‘ کا ”عدلیہ سے کچھ لینا دینا نہیں“ اور اسے ”انہوں نے تحلیل کر دیا ہے جنہوں نے اسے بنایا تھا“۔ اس خبر کو ریاستی خبر رساں ایجنسی ایسنا نے رپورٹ کیا۔

البتہ، 5 دسمبر کو ریاستی ٹی وی چینل العالم نے وضاحت کی کہ منتظری کا بیان سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا جا رہا ہے، اور ایران کی عدلیہ ”لوگوں کے رویوں کی نگرانی جاری“ رکھے گی۔ اس کے بعد مقامی میڈیا میں کہا گیا کہ ”عدلیہ (اخلاقی پولیس) تحلیل کرنے کا نہ کوئی منصوبہ رکھتی ہے، اور نہ ہی وہ اس جانب کوئی قدم لے گی۔“

بعض کا ماننا ہے کہ منتظری نے جان بوجھ کر غلط بیانی کی تاکہ جھوٹی خبر پھیلا کر نوجوانوں کو الجھن کا شکار اور گمراہ کرے۔ البتہ، یہ واضح ہے کہ ریاست کے بعض دھڑے کچھ رعایتیں دے کر تحریک کو ختم کرنے کے خیال پر غور و فکر کر رہے ہیں، اگرچہ وہ زیادہ رعایتیں دینے کے بارے میں محتاط رہیں گے، کیونکہ ٹھوس فتوحات حاصل کرنے کا احساس احتجاجوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتا ہے۔

شروع سے، نوجوانوں کی تحریک ایک سیاسی عام ہڑتال کا پیغام پھیلا رہی ہے اور بیانات اور نعروں کے ذریعے اس نے مزدوروں کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔ یہ مکمل طور پر درست عمل ہے، کیونکہ محنت کش طبقہ ہی ریاست کے خلاف تمام غریب اور مظلوم پرتوں کو متحد کر سکتا ہے۔ مزید برآں، پیداوار میں اپنے کردار کے باعث، مزدور معیشت کو مکمل منجمد کرتے ہوئے ریاست پر غلبہ پانے کی اہلیت رکھتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے 1979ء کے انقلاب میں کیا۔

مگر اس قسم کی تحریک حکم دے کر تخلیق نہیں کی جا سکتی۔ اس کی بجائے، اس کے لیے ایک ایسا پروگرام پیش کرنا درکار ہے جو محنت کش طبقے اور غریبوں کو عمل میں متحد کرے۔ نوجوانوں اور مزدوروں کے اتحاد کے خطرے سے ریاست بخوبی واقف ہے، اور اسی لیے وہ انقلابی محنت کشوں اور سیاسی ہڑتالوں کے ساتھ سختی سے پیش آئی ہے، اور اس نے نوجوانوں کو محنت کش طبقے سے الگ رکھنے کے لیے حتیٰ المقدور کوششیں کی ہیں۔ مغربی سامراجیوں اور ان کے نفرت انگیز پہلوی (ملک بدر شاہی خاندان کے نمائندے) کٹھ پتلیوں کی خود غرضانہ ’یکجہتی‘ نے ریاست کو بڑا فائدہ پہنچایا ہے، جس کے باعث انہیں پوری تحریک کو مغربی مداخلت کا رنگ دینے کا موقع ملا ہے۔

ریاست ماہرانہ انداز میں اس قسم کی سامراجی مداخلتوں کے خوف کا استعمال کرتی ہے، جو موجودہ تحریک کا موازنہ شامی انقلاب سے کر رہی ہے، اور تنبیہہ کر رہی ہے کہ مغربی مداخلت خانہ جنگی کو جنم دے سکتی ہے۔ اگرچہ محنت کش بطورِ مجموعی ریاستی پراپیگنڈے پر یقین نہیں کر رہے، مگر تحریک کے اندر واضح متبادل پیش کرنے کی اہل ملکی سطح کی قیادت کے فقدان کی وجہ سے محنت کش اس حوالے سے پریشان ضرور ہیں کہ اس بغاوت کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ انقلابی نوجوانوں کی محنت کشوں سے علیحدگی اس معاملے میں ریاست کے لیے مددگار ثابت ہوئی ہے۔

انقلابی پروگرام اپنانے کی طرف بڑھو: روٹی، کام، آزادی!

جیسا کہ وضاحت کی گئی، نوجوانوں کی سب سے ترقی پسند پرتوں، خصوصاً کردستان کے اندر، نے ریاست کے متبادل کے طور پر شوریٰ کو پیش کیا ہے۔

اگرچہ یہ آگے کی جانب ایک بڑا قدم ہے، بہر حال موجودہ انقلابی کمیٹیاں فی الحال ایسی بڑے پیمانے کی عوامی تنظیمیں نہیں ہیں جن میں محنت کش طبقے کی با اثر حمایت موجود ہو۔ وہ نوجوانوں تک محدود ہیں اور ان کی اکثریت چھوٹی انقلابی خلیوں کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا 1979ء کے ایرانی انقلاب کی شوریٰ سے براہِ راست موازنہ نہیں کیا جا سکتا، جو لاکھوں پر مشتمل انقلابی عوامی تحریک کے دوران ہونے والی عام ہڑتال میں خود رو طور پر منظم ہونے کے ذریعے قائم کی گئی تھیں۔

انقلابی کمیٹیاں انقلابی تحریکوں کا خصوصی عنصر ہوتا ہے، جیسا کہ روسی انقلاب کے دوران سوویتیں قائم کی گئی تھیں۔ یہ ڈھانچے، جس میں محنت کش اور غریب عوام شامل ہوتے ہیں، جنم لینے کی تگ و دو کرنے والے مستقبل کے سماج کا جنین ہوتا ہے، اور ان کی تخلیق دوہری قوت کے حالات پیدا کرتے ہیں جب وہ سرمایہ دارانہ ریاست کی قوت سے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ آج ایران میں اس قسم کے حالات موجود نہیں ہیں۔ تحریک نوجوانوں کی بغاوت تک محدود ہے۔ چنانچہ، بنیادی فریضہ محنت کش طبقے کو اپنی جانب مائل کرنا ہے۔

محنت کش طبقہ محض اس وجہ سے تحریک میں شامل نہیں ہوگا کہ نوجوان شوریٰ حکومت قائم کرنے کے نعرے بلند کر رہے ہیں، نہ ہی عام ہڑتال کی پُر جوش اپیلوں کے سبب۔ اس کی بجائے، انقلابیوں کو لازماً محنت کشوں کے مطالبات سے آغاز کرتے ہوئے ان مطالبات کو انقلابی تحریک سے جوڑنا ہوگا۔ انقلابیوں اور عوام کے بیچ خلیج کو ایک واضح پروگرام اور انقلابی قیادت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، جو معاشی مطالبات کو جمہوری مطالبات اور اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کی اپیل کے ساتھ منسلک کرے گی۔

اس قسم کے عبوری پروگرام میں عوام اپنے طور پر مزید بہتری لائیں گے، مگر ان میں یہ نکات شامل ہونے چاہئیں: تمام عوام دشمن اقدامات کی واپسی؛ ضروریات پورا کرنے والی پنشن اور اجرتیں؛ تحریر و تقریر اور اکٹھ کی آزادی، بالخصوص ٹریڈ یونینز کے لیے؛ اور محلّوں کی سطح پر بنائی گئی کمیٹیوں اور مزدور کونسلوں کی بنیاد پر آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کا خاتمہ۔ اس قسم کے پروگرام کی بنیاد پر، عام ہڑتال اور اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کی تیاری کی جا سکتی ہے۔

”نہ ملّاوں کی نہ ہی بادشاہ کی، شوریٰ حکومت قائم کرو“

عوام کے معاشی اور سیاسی دونوں قسم کے مطالبات پورے کرنے کے لیے، مستقبل کا ایرانی انقلاب محض اسلامی جمہوریہ کے خاتمے پر اکتفا نہیں کر سکتا، بلکہ اسے مکمل طور پر سرمایہ داری کا خاتمہ بھی کرنا ہوگا۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو پوری طرح بند گلی میں پھنس چکا ہے، اور سماج کو حقیقی معنوں میں ترقی دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ سماج کو آگے لے جانے کے اہل لوگ محض ایران کے محنت کش، غریب اور نوجوان ہیں، جن کو لازماً اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔

یہ عمل محض ایک انقلابی مارکسی قیادت کے ہوتے ہوئے ممکن ہے، جو ایک بیباک انقلابی پروگرام کے ذریعے مظلوم عوام کی وسیع تر پرتوں کو جدوجہد کی جانب مائل کرے گی۔ ایسی قیادت کی غیر موجودگی تمام انقلابی عمل کو طوالت دینے کا باعث بن رہی ہے۔

ایران کے اندر ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ایرانی عوام کے لیے ایک باوقار زندگی اور آزادی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ سارے ایرانی کمیونسٹوں کا فریضہ ایسی قیادت کی فوری تعمیر ہے، کیونکہ موجودہ تحریک کے راستے کا تعین یہی سوال کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.