لاہور: انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں شام غزل کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

عظیم انقلابی شاعر فیض احمد فیض 13 فروری 1911کو پیدا ہوئے اور اس سال ان کے جنم دن کو 110 سال مکمل ہوئے۔ اس دن کی یاد میں ان کوخراج تحسین پیش کرنے کیلئے پراگریسو یوتھ الائنس (پی وائی اے) نے بروز ہفتہ27 فروری کو کسان ہال لاہور میں ایک شام غزل منقعد کروائی۔ پروگرام کا مقصد طلبہ، مزدوروں اور نوجوانوں کو فیض احمد فیض کی شاعری، جدوجہد اور پی وائے اے سے متعارف کروانا تھا۔محفل میں لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں بالخصوص پنجاب یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی، لیڈ ز یونیورسٹی، ورچوئل یونیورسٹی، یو ایم ٹی، یو سی پی، ایجوکیشن یونیورسٹی اور این سی اے سے طلبہ اور پنجاب لیکچررز اینڈ پروفیسرز ایسوسی ایشن (پپلا)، واپڈا سے مزدور نمائندوں نے شرکت کی۔

پی وائی اے کے نوجوانوں نے موقع کی مناسبت کیلئے ہال کی سجاوٹ کا انتظام کیا۔ ہال میں گلاب کی پھولوں سے سجاوٹ کی گئی اور ہال کے عین وسط میں پھولوں سے ہی ہتھوڑا اور درانتی مزدورانقلابی تحریک کا روائتی نشان بنایا۔ اس کے متوازی دیوں سے ایک گزرگاہ بنائی اور دیوں کے آ س پاس شرکا ء کی نشست سازی کیلئے سرخ رنگ (مزدور تحریک کا روایتی رنگ) کے قالین بچھائے گئے۔

پی وائی اے کے کارکن اوراین سی اے کے طالب علم سالار مری نے فیض کی جدوجہد اور شاعری سے مطابقت رکھتی ہوئی آرٹسٹک سجاوٹ کیلئے خصوصی کردار ادا کیا۔

شام غزل کا آغازشرکا ء کی طرف سے شاعری اور موسیقی سے کیا گیا۔ورچوئل یونیورسٹی کی طالبہ وریشہ خان، پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم رائے اسد، لیڈز کے طالب علم ثناء اللہ جلبانی اور دوسرے تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طلبہ اور واپڈا سے مزدور مقصود ہمدانی نے فیض اور دیگر ترقی پسند شعرا ء کا کلام پڑھ کے سنایا جس کو شرکاء نے بہت پسند کیا۔

اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم سہیل راتھوڑ نے سندھ کے انقلابی شاعر شیخ ایازکا انقلابی کلام گا کر سنایا۔ پی وائی اے کے ممبر رائے ندیم اعظم نے بھی اپنی مدھر آواز میں غزل سنائی۔

اس کے بعد پی وائی کے کارکن رائے اسد نے شرکاء کو پی وائی اے کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ پاکستان میں طلبہ اور نوجوانوں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم ہے جو ان کے حقوق جیسا کہ سب کو معیاری مفت تعلیم اورروزگار کی فراہمی، طلبہ یونین کی بحالی،ہراسمنٹ کا خاتمہ وغیرہ کیلئے کوشاں ہے اس کے کارکنان ملک بھر کے تعلیمی اداروں، فیکٹریوں، علاقوں اور ٹریڈ یونینز میں طلبہ، نوجوانوں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں سرگرداں ہے۔ رائے اسد نے سب شرکاء کو پی وائی اے کا حصہ بننے کیلئے بھی مدعو کیا۔

اس کے بعد شمع محفل استاد ناصر خان کو سٹیج سونپ دیا گیا۔ انہوں نے اپنی سریلی آواز میں فیض کا کلام جن میں ان کی مشہور غزلیں گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہا چلے، دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے اور شرکاء سے خوب داد سمیٹی۔

محفل کے جوبن پر استاد ناصر نے پاکستان کے ترقی پسندوں کیلئے انقلابی ترانہ کا درجہ رکھنے والی فیض کی نظم لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ہال میں موجود سب شرکاء کے ساتھ مل کے گائی۔ جس کے دوران ہال واشگاف انقلابی نعروں مزدور انقلاب زندہ باد سامراج مردہ باد سے گونج اٹھا۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.