الیکشن2024ء: حکمران بمقابلہ عوام

انتخابات نے اس ملک کی نام نہاد جمہوری قوتوں کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ یہاں کوئی بھی سیاسی پارٹی عوامی مسائل کو حل کرنے کا پروگرام نہیں رکھتی۔ تمام پارٹیاں اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہیں اور پارلیمنٹ میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خطے میں اس وقت حالیہ تاریخ کی بڑی عوامی تحریکیں موجود ہیں جو لمبے عرصے سے ریاستی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں ہر سمت لوگ اپنے بنیادی مطالبات کے گرد منظم ہو کر میدان میں اتر چکے ہیں۔لیکن کو ئی بھی سیاسی پارٹی ان کے مطالبات کی بات نہیں کر رہی الٹا ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہی ہیں۔

اس وقت کشمیر میں بجلی بلوں اور ناجائز ٹیکسوں کے خلاف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے لاکھوں لوگ سراپا احتجاج ہیں اور پچھلے 8 ماہ سے بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار دیا ہے۔ کل 5 فروری، جو کہ حکمرانوں کی جانب سے منافقانہ”یومِ یکجہتی کشمیر“ منایا جاتا ہے، کو نام نہاد آزاد کشمیر میں پہیہ جام و شٹر ڈاؤن ہڑتال میں ہزاروں لوگوں نے شریک ہو کر ”یوم عوامی حقوق“ منایا۔ اسی طرح گلگت بلتستان مین بھی سستے آٹے کی فراہمی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سمیت دیگر مطالبات کے گرد عوامی ایکشن کمیٹی بنا کر لوگ مزاحمت کر رہے ہیں، اور کچھ مطالبات منوانے میں شاندار کامیابی بھی حاصل کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ بلوچ اور پشتون بھی ریاستی جبر، ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بے مثال جدوجہد کر رہے ہیں اور ملک گیر سطح پر ان کے ساتھ محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہمدردی میں اضافہ ہو رہاہے۔چند ماہ پہلے پنجاب میں بھی لاکھوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین نے اگیگا(آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈالائنس) کے پلیٹ فارم سے تقریباًایک ہفتے تک احتجاج کیے اور ہڑتالیں بھی کیں۔ان عوامی تحریکوں نے جہاں قوم پرست پارٹیوں کے عوام دشمن کردار کو بھی واضح کر دیا ہے، تو دوسری طرف موجودہ سیاسی پارٹیوں کے انتہائی دشمنی پر مبنی رویے کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ کسی پارٹی نے بھی ان کے مطالبات اپنے پروگرام میں نہیں رکھے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ عوام اتنی وسیع بنیادوں پر منظم کیونکر ہو رہی ہے اور کسی بھی مروجہ سرمایہ داروں کی پارٹیوں سے تعلق جوڑے بغیر اپنی کمیٹیاں کیوں بنا رہی ہے۔ جس کا جواب آپ کو اس وقت سماج میں سب سے زیادہ سننے کو ملا ہوگا،جس پر شاید آپ اتنی توجہ نہ دیتے ہوں، لیکن اس سے مکمل حمایت ضرور رکھتے ہوں گے کہ یہ سیاسی نظام یا پارلیمان عام عوام کے لیے نہیں ہے۔ ان میں بیٹھے ’نمائندے‘ دراصل چور ڈکیت ہیں، اورجو بھی آئے گا عوام کے لیے ظالم ہی ہو گا وغیرہ۔ یہ تمام جوابات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ سماج میں اس وقت حکمران طبقے اور اس ریاست کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔

جب مروجہ نظام پر ہی عوام کا اعتماد نہیں، جب حکمران طبقے کو وہ اپنا واضح طور پر دشمن سمجھتے ہیں، تو کیونکر ان سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ یا ان کے پالتو کرداروں کی طرف دیکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے تئیں خود منظم ہو رہے ہیں، اپنے طبقاتی شعور کی بنیاد پر اپنے ہی طبقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ان کے بر عکس سیاسی پارٹیوں کی اوقات یہ ہے کہ عوام کے ساتھ کوئی جڑت بنانے کا سوچ بھی نہیں سکیں، کیونکہ ان پارٹیوں کو بھی اپنی اوقات اور طبقاتی کردار کا اندازہ ہے۔اسی لیے تمام پارٹیاں عوام کی بجائے جی ایچ کیو کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ تمام اسٹبلشمنٹ کی پالتو ہیں۔ یہاں کا تمام حکمران طبقہ عوام دشمن ہے۔

آج آپ کوان کے اشتہارات اور پینافلیکس نظر آرہے ہوں گے۔ کروڑوں کی گاڑیاں سڑکوں پر دھواں چھوڑتی نظر آئیں گی اور ایسے جلسے جلوس نظر آئیں گے جن پر کروڑوں خرچ ہو رہے ہوں گے، لیکن اس ساری بے ہنگم شور و غلاظت سے پھر پور سرکس میں اقتدار کی لڑائی اور ذاتی گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ کہیں پر کوئی حقیقی عوامی نمائندہ نظر نہیں آئے گا اور نہ ہی عوام کی بات ہوتی ہوئی سنائی دے گی۔ کوئی سیاسی جماعت مفت تعلیم یا صحت، بے روزگاری کے خاتمے،مہنگائی سے نجات، دہشتگردی کے خاتمے اورمحنت کشوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی بات کرتی ہوئی نہیں ملے گی۔

فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور قتل و غارت گری کے خاتمے کیلئے عملی جدوجہد کرنا تو دور، اس کی مذمت بھی کوئی پارٹی نہیں کر رہی۔ نام نہاد اسلامی ملک میں موجود ’سخت گیر‘ اور ’جذبہ ایمانی‘ سے سرشار مذہبی تنظیموں کی منافقت بھی کھل کر سب کے سامنے آ گئی ہے۔ غرض یہ کہ ان کی تمام تر سیاست کا محور عالمی سامراج کی کاسہ لیسی کرنا، اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ کرنا اور سرمایہ دار طبقہ کی حاکمیت قائم رکھنا ہے۔ جس کو یہاں کے نوجوان اور محنت کش اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن اس تمام تر شعبدہ بازی میں بھی کچھ لبرل یا درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد آپ کو ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیتے ہوئے ووٹ سے آپ کی قسمت بدل کر رکھ دینے کے سراب دیکھتے ہوئے لفظوں سے شعلہ بیانی کرتے ہوئے ملیں گے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بلاشبہ ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں، جس میں ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر خود کو متحد کرتے ہوئے اس سماج کی تمام غلاظتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے یا اسی سماج کی تباہیوں میں بے موت مرنا ہے۔ موجودہ تمام مسائل سے نجات کا واحد ذریعہ اس امیر اور غریب پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کو ہی اکھاڑ کر پھینکنا ہے۔اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام اقتدار اوروسائل ملک کے محنت کشوں کو اپنے کنٹرول میں لینا ہوگا۔ لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام اور مزدورراج کے مقابلے کا فیصلہ مزدوروں کی جیت میں تب ہی ہو گا جب اس کے لیے ہم کمیونزم کے انقلابی نظریات کے گرد انقلابی پارٹی تعمیرکرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

آئیں ہمارے ساتھ مل کر محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی پارٹی کی تعمیر کا حصہ بنیں۔ پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لئے یہاں کلک کریں!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.