کشمیر: عالمی سیاسی و معاشی بحران پر راولاکوٹ میں نوجوانوں کے ساتھ ایک نشست

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|

پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام 21 جولائی کی شام غازی ملت ہاسٹل، راولاکوٹ میں عالمی سیاسی و معاشی بحران پر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس میٹنگ میں 40 سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔ بحث کے معیار اور طلبہ کی بحث میں شرکت کے حوالے سے یہ انتہائی شاندار نشست تھی۔ اس میٹنگ سے قبل ہاسٹل میں مقیم طلبہ کے ساتھ فرداً فرداً ملاقاتیں کی گئیں جس میں پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف اور طلبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی۔ اس ڈور ٹو ڈور کیمپین کے دوران طلبہ نے پی وائے اے کو خوش آمدید کہا اور کئی طلبہ نے اس کا حصہ بننے پر آمادگی بھی ظاہر کی۔

موضوع پر گفتگو کا آغاز پروگریسو یوتھ الائنس سے عمر ریاض نے کیا اور عالمی سیاسی اور معاشی منظر نامے پر روشنی ڈالی اور عالمی معاشی بحران کے پاکستانی سماج پر اثرات کو بھی تفصیل سے بیان کیا۔ عمر نے کہا کہ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد دنیا یکسر تبدیل ہوچکی ہے اور موجودہ نظام اس قابل نہیں رہا کہ وہ نسل انسانی کو ایک بہتر مستقبل کی ضمانت دے سکے۔ آج عالمی صورتحال میں تیزترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جس کی مثال پوری سرمایہ دارانہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ٹرمپ کا امریکہ کا صدر بننا تجزیہ نگاروں کے لئے حیران کن تھا مگر ٹرمپ کیخلاف ہونے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کے مظاہرے اس سے بھی زیادہ حیران کن تھے۔ چند سال قبل امریکہ جیسے ملک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھا۔ اسی طرح برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ اور لیبر پارٹی کی حالیہ انتخابات میں کامیابی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ آج ہم ایک بدلے ہوئے سماج میں زندہ ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے زیر اثر پوری دنیا میں عوام کی اکثریت مسائل سے دوچار ہے۔ عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے جواب میں پوری دنیا میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں ہندوستانی محنت کشوں نے مودی کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عا م ہڑتال کی۔ اس کے ساتھ ساتھ JNUکے طلبہ کی تحریک نے بھی ہندوستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اسی طرح ساؤتھ افریقہ میں فیسوں کے خلاف طلبہ تحریک موجود ہے۔ 

This slideshow requires JavaScript.

اس خطے کی بات کریں تو سب سے اہم تحریک اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے جس کے اندر نوجوانوں، محنت کشوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی بھرپور شرکت ہے، جس نے نا صرف ہندوستانی حکمران طبقے بلکہ پاکستانی حکمران طبقے کی بھی نیندیں حرام کردی ہیں۔ بھارتی ریاست تمام تر فوجی جبر کے باوجود تحریک ختم نہیں کرسکی اور بالکل ناکام نظر آتی ہے۔ اس تحریک کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس نے ماضی کی تمام پارٹیوں اور قیادتوں کو مسترد کردیا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ اگرایل او سی کے اُس پار ظلم و زیادتی جاری ہے تو اِس پار بھی جبر کچھ کم نہیں ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، انفراسٹرکچر کے انہدام، لوڈ شیڈنگ، بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی نے عام لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ تعلیم کے کاروبار نے نوجوانوں پر تعلیم کے دروازے بند کردئیے ہیں۔ بیروزگاری اپنی انتہاؤں پر ہے۔ 2005ء کے زلزلے میں تباہ ہونے والے 90فیصد تعلیمی ادارے اور ہسپتال آج بارہ سال گزرنے کے باوجودبھی دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکے۔ مگر ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ آزادی بہت قربانیوں کے بعد حاصل کی گئی ہے مگر اس نام نہاد آزادی سے عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ تمام سیاسی جماعتیں کسی اور عہد کی سیاست کررہی ہیں۔ کوئی بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ نوجوانوں کے پاس اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں۔ ماضی کی تمام تنظیمیں مفاد پرستی اور موقع پرستی کی دلدل میں دھنس چکی ہیں۔ اسی حوالے سے کشمیر میں پی وائے اے کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے تاکہ درست نظریات اور پروگرام کی بنیاد پر طلبہ حقوق کی لڑائی کو نہ صرف آگے بڑھایا جاسکے بلکہ حتمی فتح ایک سوشلسٹ انقلاب کی جانب پیش قدمی جا سکے۔

عمر ریاض کی مفصل گفتگو کے بعد شریک طلبہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کئی سوالات بھی اٹھائے۔ بیشتر طلبہ نے ان کو تعلیمی اداروں میں درپیش مسائل کے حوالے سے بات رکھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ طلبہ کی لڑائی طلبہ خود ہی لڑسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.