کیا مہنگے فروٹ ’بائیکاٹ مہم‘ سے سستے کرائے جا سکتے ہیں؟

|تحریر: عرفان منصور|

اس وقت پاکستان میں مہنگائی کا ایک طوفان جاری ہے جس میں محنت کش عوام تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔دوسری جانب ہر طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ مثلاً عالمی جریدے بلوم برگ کے 15 مارچ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں کساد بازاری کے امکانات 70 فی صد ہوچکے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں کنٹینرز ضروری اشیاء لیے ساحل پر موجود ہیں مگر حکومت کے پاس ڈالرز ہی نہیں ہیں کہ وہ ادائیگی کرسکے۔ فروری 2022 ء کی نسبت فروری 2023ء میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 34.5 فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور مارچ کے مہینے میں تو تاریخ میں کبھی نہ دیکھا گیا اضافہ ہوچکا ہے۔ جہاں ایک طرف محنت کش عوام کیلئے ایک وقت کی روٹی پوری کرنا ناممکن بن چکا ہے وہیں دوسری جانب حکمران اپنے مفادات کیلئے کتوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ وہ یہ ثابت کررہے ہیں کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ مہنگائی کتنی بڑھ جائے، آٹے کی لائن میں بھگدڑ سے کون مرجائے یا کس کی زندگی کا دیا دوائی نہ ملنے کے سبب ہمیشہ کے لیے بجھ جائے۔ وہ سب کے سب محنت کش عوام سے مکمل بیگانہ ہوچکے ہیں۔

آج اس ریاست کے مختلف دھڑوں نے یہ جو سیاسی و آئینی بحران پیدا کررکھا ہے وہ اس بنا پر نہیں کہ ان میں سے کوئی عوام دوستی کی بات کررہا ہے۔ ان کی لڑائی اس بات پر ہے کہ حکمران طبقے کے کونسے دھڑے کو عوام کی لوٹ مار کرنے کا زیادہ حق دیا جائے اور ہر کتا اپنے لیے بڑی بوٹی نوچنے کے لیے بھونکنے کے ساتھ ساتھ کاٹ بھی رہا ہے۔ محنت کش عوام اس سب سے بیگانہ ہیں۔ انکے لیے یہ ملک پاکستان نہیں بلکہ بحرانستان بن چکا ہے۔

سال کا آغاز گندم کے بحران سے ہوتا ہے جس کے بعد ٹماٹر، پیاز سمیت سبزیوں کی قیمتیں آسمان کی سیر کرتی ہیں اس کے بعد کسان کھاد کے بحران کے نتیجے میں ساری جمع پونجی کھاد ڈیلروں کو دے آتے ہیں۔ جون جولائی میں طوفانی بارشیں اور سیلاب کی تباہی سے گزرنے کے بعد چینی کے بحران میں جا اٹکتے ہیں اور پھر سے یہ سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ان سب بحرانوں سے محنت کش عوام کی زندگی تو تباہ ہورہی ہوتی ہے مگر سرمایہ دار و ذخیرہ اندوز گدھوں اور ریاستی اشرافیہ کی چاندی ہوتی ہے جو کھل کر عوام کو لوٹتے ہیں۔

محنت کش طبقہ تو پہلے ہی تعلیم،صحت اور اچھے معیار زندگی سے محروم تھا، لیکن موجودہ مہنگائی اوربحران کے پیش نظراب درمیانے طبقے سے وابستہ لوگوں کا بھی معیار زندگی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ ان کے لیے معیاری تعلیم اورمعیاری صحت وغیرہ کا حصول ناممکن ہوتا جارہاہے۔ان کی تمام جمع پونجی کم ہوتی جارہی ہے۔ درمیانے طبقے کے لوگ بڑی تعدادا میں محنت کش طبقے میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے خلاف درمیانے طبقے میں شدید غم و غصہ موجود ہے، اوراپنے معیارزندگی کے بارے میں ان کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔

ہم سب یہ جانتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں آڑھتی، تاجر و ذخیرہ اندوز اشیاء کی قیمتیں بڑھا کرغیر معمولی منافع خوری کی برکتیں سمیٹتے ہیں۔پہلے سے شدید مہنگائی کو ماہِ رمضان میں مزید پر لگ گئے تو بڑے شہروں کے مڈل کلاس کے لوگوں نے پھلوں کی مہنگائی کے خلاف پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم کا آغاز کیا اور سوشل میڈیا ایسی پوسٹوں اور ویڈیوز سے بھر گیا جس سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اگر پھلوں کا بائیکاٹ کردیا جائے تو اس طرح سے ہم ان ذخیرہ اندوزوں کو مجبور کردیں گے کہ وہ قیمتیں سستی کردیں۔ اسی اثنا میں اشیاء کی مہنگائی کے خلاف آج کل کراچی،راولپنڈی، لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں موجود درمیانے طبقے کی طرف سے مہنگی اشیاء خریدنے سے بائیکاٹ کرنے کی مہم سوشل میڈیا پر شروع کی گئی ہے۔

مگر اس بحث سے پہلے ایک انتہائی اہم پہلو کو نظر میں رکھنا ضروری ہے؛ وہ یہ کہ کیا اس طرح فروٹ سماج کے تمام افراد کیلئے دستیاب ہوں گے؟ محنت کش طبقہ جوکہ سماج کی اکثریت ہے۔ یہ طبقہ پچھلے 75 سالوں سے دن میں پندرہ پندرہ گھنٹے محنت کر کے خون پسینہ بہانے کے باوجود بھی تعلیم، علاج، روزگار، معیاری رہائش، لباس اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات سے محروم ہے۔ اس پر تو آج تک کوئی بائیکاٹ نہیں کیا گیا۔ منافع خوری پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے صبح سے شام تک ہاتھ میں شناختی کارڈ لیے لائنوں میں گھنٹوں کھڑے رہ کر اور بھگدڑ میں جانیں گنوا رہے ہیں۔ ان کیلئے کیوں کوئی بائیکاٹ نہیں کیا گیا۔

اب اگر اس بائیکاٹ پر بات کی جائے تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ مہنگائی سے تو تمام اشیاء ہی مہنگی ہو چکی ہیں، تو کیا سب کا بائیکاٹ کر لینا چاہئیے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ آج سب سے زیادہ ضرورت اس حقیقت کو سمجھنے کی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا، پرائس لسٹ فالو کروانا اور ذخیرہ اندوزی کو قابو میں کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اور اگر وہ نہیں کررہی ہے تو ہمیں اس پر سوال اٹھانا ہوگا کہ یہ ریاست اگر اشرافیہ کو ہر سال ہزاروں ارب روپے کی مراعات دے سکتی ہے، انکو ٹیکس رعایتیں دے سکتی ہے تو عوام کو کیوں سستی خوراک،ادویات اور روزگار مہیا نہیں کرسکتی ہے۔جبکہ یہ محنت کش عوام ہی ہیں جو سب سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں؟ جب ہم اس نظر سے دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ ریاست درحقیقت بنائی ہوئی ہی انہیں سرمایہ داروں اور ذخیرہ اندوزوں کی ہے۔

اس وقت بحران بحران کا شور و غوغا جاری ہے، مگر کیا اس بحران میں ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، سیاست دانوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی دولت اور عیاشیوں میں کوئی کمی آئی ہے؟ بالکل بھی نہیں! ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نا صرف اتنی دولت موجود ہے کہ 25 کروڑ لوگوں کو خوارک مہیا کی جا سکتی ہے بلکہ اتنی پیداواری صلاحیت بھی موجود ہے کہ نئی صنعتیں لگا کر سب لوگوں کو روزگار بھی مہیا کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ سب موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ اس کیلئے ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت (سوشلزم) قائم کرنی پڑے گی۔

جس میں پیداوار کا مقصد منافع نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ضروریات زندگی کی فراہمی ہو گا۔ جس میں اس قدر فراوانی ہو گی کہ ذخیرہ اندوزی کی مادی بنیادیں ہی ختم ہوجائیں گی۔ اس کے لیے اس بائیکاٹ کی طرز پر موجود تمام سطحی، فرسودہ طریقہ کار کی بجائے محنت کشوں کے درست اور سائنسی طبقاتی کشمکش کے نظریات کو، سوشلسٹ انقلاب کے نظریات کو اپنانا ہوگا اور ان کو عوام تک لے کر جانا ہوگا۔ یہی کام پروگریسو یوتھ الائنس کررہا ہے۔ اگر آپ ہم سے اتفاق کرتے ہیں تو آئیں مل کران انقلابی نظریات کی ترویج کو اور تیز کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.