بنگلہ دیش: وحشیانہ ریاستی جبر کے خلاف طلبہ کی ملک گیر احتجاجی تحریک

|تحریر: نعمان بسواس، ترجمہ: خالد مندوخیل|

بنگلہ دیش میں پولیس اور ریاستی حکام نے ایک بار پھر وحشیانہ جبر کا استعمال کیا ہے۔ چھاترا لیگ جیسے ٹھگوں کے ساتھ مل کر انہوں نے سیلہٹ کی شاہ جلال یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SUST) میں احتجاج کرنے والے طلبہ حملہ کیا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

طلبہ ہاسٹلوں میں اپنے معاملات دیکھنے کیلئے ایک نمائندہ ادارے کی تشکیل اور اپنے دیگر بنیادی مطالبات کیلئے احتجاج کر رہے تھے مگر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ان پر پولیس کے ذریعے تشدد کروایا گیا۔ کیمپس کے اندر احتجاجی طلبہ کو مارا پیٹا گیا، ان پر سٹن گرنیڈ(ایک طرح کا بم جو کچھ لمحے کیلئے حواس کو معطل کردیتا ہے)، آنسو گیس شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا۔

اس ریاستی جبر کی ویڈیوز (سوشل میڈیا پر) پورے ملک میں وائرل ہوئیں، جس سے ملک گیر سطح پر طلبہ میں کھلبلی مچ گئی۔ ڈھاکہ کی راجشاہی یونیورسٹی اور دیگر کئی مقامات پر یکجہتی کے لیے مظاہرے ہوئے۔ پورے ملک میں طلبہ نے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور ساتھ میں اپنی یونیورسٹیوں کے ملتے جلتے مسائل کو بھی سامنے لایا۔ ملک بھر کے باقی تعلیمی اداروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے: طلبہ کو فیسوں میں اضافے، ظالم انتظامیہ، ’طلبہ لیڈروں‘ کا بھیس استعمال کرنے والے غنڈوں، اور دیگر جابرانہ اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ طلبہ کو مغلوب کرنے اور کیمپس میں ناقابل برداشت حالات زندگی کو قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اس ظلم و جبر کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو حکام کی جانب سے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال میں سیلہٹ کی شاہ جلال یونیورسٹی میں تحریک بنگلہ دیش کی بوسیدہ حکمران اشرافیہ کے خلاف طلبہ میں موجود نفرت اور غصے کے بڑھتے ہوئے طوفان کی گرج چمک ہے۔ پولیس جبر کے باوجود طلبہ نے نہ صرف پیچھے ہٹنے سے انکار کیا بلکہ اس جبر کے خلاف اگلے روز اس سے بھی بڑی تعداد میں نکل آئے اور وائس چانسلر کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے ملک بھر کے طلبہ سے یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے احتجاجی طلبہ کے ساتھ یکجہتی کے پیغامات بھیجنے اور احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کی اپیل کی تاکہ ملک بھر میں یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ایک مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا جا سکے۔

انہوں پرجوش نعروں کے ساتھ وال چاکنک کرنے اور دیواروں پر تصویریں بنانے کا ایسا احتجاجی طریقہ کار اختیار کیا جس پر پہلے پابندی تھی۔ تازہ ترین اطلاعات کی مطابق طلبہ نے وائس چانسلر کے مستعفی ہونے تک بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا ہے۔

واقعہ

ایس یو ایس ٹی میں طلبہ تحریک 13 جنوری کی شام کو ایک مبینہ واقعے کے بعد شروع ہوئی جس میں بیگم سراج النسا ہال کے ہاسٹل پرووسٹ ظفرین احمد لیزا نے ایک طالب علم کے ساتھ اس وقت ”بدتمیزی“ کی، جب وہ اپنے مسائل کے خلاف شکایت لے کر آیا تھا۔

طلبہ نے پرووسٹ کی برطرفی کے علاوہ موجودہ بد نظم ہال پرووسٹ کمیٹی کو فوری طور پر تحلیل کرتے ہوئے کے ایک طلبہ دوست ہال پرووسٹ کمیٹی کی تشکیل  کا مطالبہ کیا۔

طلبہ نے پرووسٹ کی برطرفی کے علاوہ موجودہ بد نظم ہال پرووسٹ کمیٹی کو فوری طور پر تحلیل کرتے ہوئے کے ایک طلبہ دوست ہال پرووسٹ کمیٹی کی تشکیل  کا مطالبہ کیا۔

احتجاجی طلبہ نے ڈاکٹر ایم اے وازید میا آئی سی ٹی بھابھن (بلڈنگ) تک وائس چانسلر پروفیسر فرید الدین احمد کا تعاقب کیا، جہاں انہوں نے اپنے مطالبات کے لیے مظاہرہ کیا۔ 15 جنوری بروز ہفتہ، آدھی رات کے بعد طلبہ نے اعلان کیا کہ جب تک ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کئے جاتے وہ تمام شعبہ جات کی کلاسوں کا غیر معینہ مدت تک بائیکاٹ کریں گے۔

اسی ہفتے کی شام کو طلبہ پر جبر کا آغاز کیا گیا جب احتجاجی طلبہ پر بنگلہ دیش چھاترا لیگ (BCL) کے رہنماؤں اور کارکنوں نے حملہ کیا۔ بی سی ایل حکمران سیاسی جماعت عوامی لیگ (اے ایل) سٹوڈنٹ ونگ ہے۔

16 جنوری کو احتجاج پر پولیس نے حملہ کیا۔ احتجاج کو منتشر کرنے تک آنسو گیس، صوتی بم، ربڑ کی گولیاں اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا جاتا رہا۔

طلبہ پر تشدد کے باوجود، پیر 17 جنوری کی رات، پولیس نے اُلٹا SUST کے طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ احتجاجی طلبہ پر توڑ پھوڑ اور قتل کی کوشش کے الزامات عائد کر دیے گئے۔ تاہم، مظاہروں کی فوٹیج سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ پولیس نے طلبہ کے اوپر وحشیانہ حملے کی ابتداء کی تھی۔

پیر 17 جنوری کو احتجاجی طلبہ نے وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر دھرنہ دے دیا جوکہ 19 جنوری کو بھوک ہڑتال میں بدل گیا۔

بڑھتے ہوئے تناؤ سے گھبرا کر، عوامی لیگ کے مقامی رہنماؤں نے حکمت عملی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا: منگل 18 جنوری کو، وہ طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے باہر آئے، جبکہ احتجاج کو ختم کروانے کی کوشش میں طلبہ سے درخواست کی کہ وہ SUST انتظامیہ کو مطالبات کو پورا کرنے کے لیے وقت دیں۔

طلبہ کو اپنے احتجاج سے باز نہیں آنا چاہیے۔ عوامی لیگ کے رہنما اور ان کا رجعتی طلبہ ونگ (بی سی ایل) اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں، جو طلبہ کی بدحالی کے ذمہ دار ہیں۔ پولیس عوامی لیگ کی حکومت سے احکامات لیتی ہے، اور بی سی ایل آخر الذکر کے ٹھگوں سے کچھ زیادہ ہی ہیں۔ وہ استثنیٰ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ریاستی سیکورٹی اپریٹس کے معاون کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

یکجہتی کے کھوکھلے پیغامات صرف عوامی لیگ کی منافقت کو چھپانے اور حکومت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اسباق

یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ ہم نے طلبہ کے اندر انقلابی صلاحیت کو دیکھا۔ ہم 2018ء میں روڈ سیفٹی کے لیے ہونے والے احتجاج کو یاد کر سکتے ہیں۔ کچھ ’لبرل‘ بنگلہ دیشی طلبہ کے غیر سیاسی ہونے کی بات کرتے ہیں لیکن جیسا کہ حالیہ مظاہروں اور اس سے بیشتر سڑکوں کی حفاظت کے لیے ہونے والے مظاہروں سے واضح ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کے طلبہ ایک بے حد ترقی پسند سیاسی قوت ہو سکتے ہیں اور بنگلہ دیش میں انقلابی کردار ادا کرنے کی ان کی ایک طویل تاریخ ہے۔

مگر طلبہ عوامی لیگ کی بوسیدہ حکومت کا تختہ اکیلے نہیں اُلٹ سکتے۔ بنگلہ دیش کے محنت کش طلبہ کے فطری حلیف ہیں۔ وہ بھی پولیس کے 2009ء اور 2010ء جیسے وحشیانہ حملوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ٹیکسٹائل کارکنوں کے احتجاج کو بی سی ایل، پولیس، اور حکومت کے اشاروں پر چلتی نیم قانونی، نیم فوجی بدنام زمانہ ریاستی سیکورٹی فورس، ریپڈ ایکشن بٹالین (RAB) نے نشانہ بنایا ہے۔

بنگلہ دیش کے طلبہ ایک بے حد ترقی پسند سیاسی قوت ہو سکتے ہیں اور بنگلہ دیش میں انقلابی کردار ادا کرنے کی ان کی ایک طویل تاریخ ہے

اور جس طرح سرمایہ داروں کے ہاتھوں محنت کشوں کا بے رحمانہ استحصال ہوتا ہے، اسی طرح طلبہ بھی ایک لاپرواہ انتظامیہ کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے ہیں جو طلبہ اور عملے کی حفاظت سے زیادہ نظام کو چلانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

طلبہ ہالوں کے اندر برباد حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کورونا کے کیسز میں تیزتر بڑھوتری کے باوجود انہیں امتحان میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اساتذہ غیر محفوظ حالات میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔

اس لیے طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف محنت کشوں سے مل کر متحدہ محاذ بنانے اور اپنی جدوجہد کو وسیع تر مزدور تحریک سے جوڑنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔

طلبہ کو وزراء، بدعنوان سیاست دانوں اور دیگر نام نہاد ’بااثر‘ شخصیات اور گروہوں کی طرف دیکھنے کے بجائے، فیکٹری مزدوروں، رکشہ چلانے والوں، صفائی کرنے والے محنت کشوں اور پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے محنت کشوں میں سے تعاون حاصل کرنا چاہئیے۔

یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ بھوک ہڑتالوں نے طلبہ کی جدوجہد کو کمزور کیا ہے۔ اس کے بجائے محنت کش طبقے کے علاقوں میں عوامی تحریک کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کے ساتھ ایک مشترکہ جدوجہد میں جڑیں تاکہ ان دونوں پر جبر کرنے والی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے۔

لیکن کیا ان احتجاجی تحریکوں کے مقاصد کے حصول کے لیے عوامی لیگ سے چھٹکارا حاصل کرنا کافی ہے؟ جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) برسراقتدار تھی تو تب بھی حالات ایسے ہی تھے جیسے کہ وہ اب عوامی لیگ کے دور میں ہیں۔

بالآخر، معاشی نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظام ہی قصوروار ہے۔ تعلیمی نظام کو طلبہ اور مزدوروں کے مفاد کی بجائے منافع کے لیے چلایا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع کرنے والا آلہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔

آخری تجزیے میں، سرمایہ دارانہ ریاست کو مسلح اداروں تک محدود کیا جا سکتا ہے جو اُن محنت کشوں اور طلبہ کے خلاف سرمایہ داروں کی املاک کا دفاع کرتے ہیں، جو معاشرے کو سب کے فائدے کے لیے بدلنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ماضی قریب اور حال ہی میں طلبہ اور محنت کشوں کے مظاہروں سے ظاہر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی لیگ، بی سی ایل، اور پولیس، سبھی بنگلہ دیش کے محنت کشوں اور طلبہ پر جبر کرنے کیلئے متحد ہیں۔ سرمایہ دار طبقے اور ان کی جابرانہ حکمرانی کو مسلط کرنے والی مسلح قوت کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئیے۔

”سامراجیت؛ بینک سرمائے کا دور، بہت بڑی سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کا دور، اجارہ دارانہ سرمایہ داری کے ریاستی اجارہ دارانہ سرمایہ داری میں تبدیلی کا دور۔۔۔پرولتاریہ کے خلاف جابرانہ اقدامات بروئے کار لانے کیلئے اس کی افسر شاہی اور فوجی ساز و سامان میں واضح طور پر غیر معمولی ترقی ہوئی ہے۔ ان تمام ممالک میں جہاں بھلے ہی بادشاہت ہو یا پھر جمہوریت“ (لینن؛ ریاست اور انقلاب)

بنگلہ دیشی طلبہ اور محنت کشوں کی لڑائی ایسے معاشرے کے لیے ہونی چاہیے جس پر محنت کش طبقے کا کنٹرول ہو، جن کے بغیر معاشرہ نہیں چل سکتا۔ محنت کشوں اور طلبہ کے ذریعے چلنے والا معاشرہ چند جونکوں کے مفادات کو بہت سے لوگوں کی ضروریات پر ترجیح نہیں دے گا۔ بنگلہ دیشی طلبہ اور محنت کشوں کی لڑائی ایک سوشلسٹ معاشرے کیلئے ہونی چاہئیے۔ ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد ”ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق، ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق“ کے اصول پر کھڑی ہو۔

طلبہ تحریک کیلئے آگے کونسا راستہ ہے؟

بنگلہ دیشی طلبہ تحریک، اور اسی طرح، بنگلہ دیشی محنت کشوں کی تحریک، کو نظریاتی طور پر مسلح ہونے کی ضرورت ہے۔ صرف حقیقی مارکسزم کے نظریات؛ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات، بنگلہ دیش میں سرمایہ دارانہ نظام کے کامیاب خاتمے کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ لیکن سوشلسٹ انقلاب کی راہ میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے طلبہ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں سب سے پہلے خود کو انقلابی مارکسزم کے نظریات سے مسلح کرنا چاہئیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مارکسزم کے نظریات کی بنیاد پر ملک بھر میں طبقاتی شعور رکھنے والے طلبہ کی ہر اول پرت سے تیار ہونے والی ایک منظم طلبہ تحریک کو تعمیر کیا جائے۔ موجودہ تمام تنظیمیں اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہیں اور طلبہ کو ان کے حوالے سے اپنے توہمات کو ختم کرنا چاہئیے۔

”ایک انقلابی نظریے کے بغیر کوئی انقلابی تحریک ممکن نہیں۔ اس بات پر ایک ایسے وقت میں زیادہ زور دینا بہت ضروری ہو جاتا ہے جب فیشن بن چکی موقع پرستی کی تبلیغ عملی سرگرمی کی محدود ترین شکلوں کے وقتی اور بچگانہ جذبات کے ساتھ ساتھ چلتی ہے“۔ (لینن؛ کیا کیا جائے؟)

بنگلہ دیشی طالب علم ساتھیو! اپنے حقوق کے لیے ملک گیر جدوجہد کے لیے آگے بڑھو!
شاہ جلال یونیورسٹی کے احتجاجی طلبہ سے اظہار یکجہتی!
محنت کشوں اور طلبہ کے اتحاد کے لیے آگے بڑو!
پولیس کی بربریت اور ریاستی جبر کا خاتمہ کرو!
سرمایہ داری مردہ باد! سوشلزم زندہ باد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.