بلوچستان میں آن لائن کلاسز کے مسائل

|تحریر: ثانیہ خان|

کورونا وائرس کے نتیجے میں جنم لینے والے بحران نے پوری دنیا کی معیشت کو بند کر کے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں حکمران طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے اور کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ ایک طرف لوگ وبا سے مر رہے ہیں اور دوسری طرف سرمایہ دار طبقہ ان حالات سے بھی مستفید ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بھی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اور دن بہ دن کورونا سے متاثرہ مریضوں اور اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکمران طبقے کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک ہسپتالوں میں کام کرنے والے ملازمین کو حفاظتی سامان بھی مہیا نہیں کیا گیا۔ ٹیسٹ کی سہولت اکثریت کی پہنچ سے دور ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے جس کا اظہار کچھ دن پہلے لاہور اور کراچی میں ہوا جب لوگ راشن کے لئے سڑکوں پہ نکل آئے۔ ایسی صورتحال میں اگر ریاست طلبہ کے مستقبل کے لیے فکر مند ہونے کا ناٹک کرے گی تو کون یقین کرے گا؟ HEC نے حکم دیا ہے کہ آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جائے تاکہ طلبہ کا وقت ضائع نہ ہو۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کو ”طلبہ کے وقت“ کی فکر ہے یا پھر تعلیمی اداروں کے مالکان کی کمائی کی!

پچھلے 10 دن سے ٹویٹر اور فیس بک پر پورے پاکستان کے طلبہ کی جانب سے مختلف ویڈیو پیغامات کے ذریعے اور ٹوئٹر ٹرینڈز کے ذریعے آن لائن کلاسز کے خلاف ایک بھرپور کیمپین چلائی جارہی ہے، لیکن ایچ ای سی اور بے حس حکمرانوں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ ایچ ای سی اور یونیورسٹی انتظامیہ یہ بات سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان کے اکثر طلباء و طالبات وسائل کی کمی کی وجہ سے آن لائن کلاسز میں شمولیت نہیں کر سکتے۔

بلوچستان میں بھی آن لائن کلاسز کا آغاز ہو چکا ہے جس کی شروعات BUITEMS سے ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ یہ بات بخوبی جانتی ہے کہ یونیورسٹی کے اکثر طلباء و طالبات کا تعلق بلوچستان کے دور دراز غریب علاقوں سے ہے جہاں پر انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ یہ بھی جانتی ہے کہ اکثر طلبہ کے پاس لیپ ٹاپس اور اچھے اسمارٹ فونز بھی موجود نہیں ہیں۔ بلوچستان کے علاقے پنجگور، تربت، گوادر، آواران، قلات اور ہرنائی سمیت کئی دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں میں خراب کنیکشنز کی وجہ سے آن لائن کلاسز کا اجراء طلبہ کے ساتھ ایک مذاق ہے۔

ملک میں جاری لاک ڈاون کی صورت میں ہزاروں افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ جن طلبہ کے پاس یہ تمام وسائل موجود ہیں ان کو یونیورسٹی کی فیسیں دینے کے ساتھ ساتھ مہنگے انٹرنیٹ پیکجز کا خرچہ بھی برداشت کرنا ہوگا جو کہ اس وقت ناممکن ہے۔
ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جب تک تمام طلبہ کو آن لائن کلاسز کے لیے درکار وسائل نہیں دیے جاتے اور اساتذہ کی ٹریننگ نہیں کی جاتی تب تک آن لائن کلاسز کا اجراء روکا جائے اور سیمسٹر بریک دیا جائے۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں کہ سمیسٹر بریک دے کر ریاست سو جائے، بلکہ طلبہ کا مستقبل خطرے میں ہے اور ان کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اس قیمتی وقت کے ضیاع کو بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کی صورت میں فورا طلبہ کو مفت اور معیاری لیپ ٹاپ اور مفت اور تیز انٹرنیٹ مہیا کی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.