نمرتا کا قتل: تعلیمی ادارے یا قتل گاہیں!

|تحریر: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|

چاندکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں زیر تعلیم نمرتا چندانی کے بہیمانہ قتل کے بعد پورے ملک بالخصوص سندھ بھر میں خاص کر یہاں کے تمام تر تعلیمی اداروں کے طلبہ کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور اب نمرتا کی حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ایک بار پھر یہ واقعہ ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ سندھ میں شاید ہی کوئی ایسی یونیورسٹی یا میڈیکل کالج ہو جہاں مرنے کے بعد ہی سہی لیکن نمرتا کو انصاف دلانے اور اس کے سفاک قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے احتجاج نہ کیے گئے ہوں۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی سندھ کے مختلف شہروں اور اسلام آباد اور قائد اعظم یونیورسٹی میں بھی نمرتا کے لیے احتجاج کیے گئے۔ میڈیکل کالج کی انتظامیہ کی جانب سے فوری طور پر اس قتل کو چھپانے کی غرض سے اسے خودکشی قرار دیا گیا لیکن بعد ازاں ہونے والی تفتیش کے نتائج نے اسے قتل قرار دیا ہے۔ اب منظر عام پر آنے والی حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ نمرتا کو زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔

متوسط طبقے کے ہندو گھرانے سے تعلق رکھنے والی نمرتا کے قتل پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پھوٹنے والا غصہ جہاں ایک طرف اقلیتوں کے ساتھ لمبے عرصے سے ہونے مظالم کا اظہار ہے وہیں پر یہ تعلیمی اداروں میں موجود شدید عدم تحفظ کی فضاء کے خلاف ایک اعلان جنگ بھی ہے۔

مملکت خداداد میں ویسے تو اکثریتی آبادی بھی کوئی پر سکون زندگیاں نہیں گزار رہی، مگرسرکاری سرپرستی میں دو قومی نظریے کے تحت یہاں کے حاکموں نے جو ماحول پروان چڑھایا ہے وہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک مستقل وبال جان ہے۔ سندھ میں طاقت میں موجود تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں اور طاقتور اداروں کی مکمل پشت میں گدی نشین اور ملاں حضرات نوجوان ہندو لڑکیوں کی اغواکاری، ریپ اور بعد ازاں جبراً مذہب تبدیل کرکے ان کی شادی کروانے جیسے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں، اور اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مجموعی طور پر ایک ایسی خطرناک فضاء بنائی گئی ہے جہاں اقلیت سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد سے دشمنی کو بآسانی توہین کا معاملہ بنا کر انہیں برباد یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ ویسے تو مشال خان کو بھی، جو کہ نام نہاد اکثریتی مذہب سے تعلق رکھتا تھا، فیسوں میں اضافے اور انتظامیہ کی کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش یہی کہلوا کر بیدردی سے قتل کیا گیا کہ اس نے توہین کی لیکن بہت جلد اصل حقائق سامنے آگئے۔ نمرتا کے قتل پر ابھرنے والے غم و غصّے کے سیاق وسباق یہ حالات بھی ہیں جن کی وجہ سے خاص کر غریب اقلیتوں کے لیے زندگی بسر کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

نمرتا کے قتل میں سب سے اہم پہلو انتظامیہ کا فوری ردعمل ہے جو کہ ان کی بوکھلاہٹ کا اظہار تھا، انہوں نے اسے پہلے خودکشی قرار دے کر معاملہ دبانے کی کوشش کی۔ کالج کی پرنسپل سے جب صحافی نے سوال کیا تو جواب میں تھپڑ مارے گئے اور دھمکیاں دی گئیں۔ اس کے بعد نمرتا کے دو ہم جماعت طلبہ کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش شروع کر دی گئی کہ یہ نمرتا کے قریبی دوست تھے۔ نمرتا کے ایک استاد نے بیان دیا کہ وہ شدید ڈیپریشن کا شکار تھی اسی لیے اس نے خودکشی کی ہو گی۔ لیکن اس کے خاندان اور دوستوں نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے۔ قتل ہونے سے ٹھیک ڈیڑھ گھنٹہ قبل وہ ہاسٹل میں وائیوا اچھا ہونے کی خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کر رہی تھی۔

ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ نمرتا نے خودکشی نہیں کی بلکہ اس کا قتل ہوا ہے۔ کالج انتظامیہ کے بدلتے الزامات، بیانات اور بوکھلاہٹ کئی اہم سوالات کھڑے کر رہی ہے کہ آخر کس طرح ان کے زیر انتظام ادارے میں دن کی روشنی میں ہاسٹل کے کمرے میں ایک سٹوڈنٹ قتل کر دی جاتی ہے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلتا؟
اس حوالے سے سب اہم پہلو کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چاندکا میڈیکل کالج کی انتظامیہ دیگر اداروں کی طرح امتحانات میں نقل کے حوالے سے بھی کافی شہرت رکھتی ہے، امتحانات میں جوابات کی keys کی خریدوفروخت کی جاتی ہے جس میں مافیا کی طرح اوپر سے نیچے تک پیسہ چلتا ہے۔ کالج میں نمرتا کے قریبی دوستوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اس نے اپنے ایک استاد کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے اس سلسلے میں ایکسپوز کرے گی۔ دن دیہاڑے ایک پر ہجوم ہاسٹل میں کسی کا قتل کرنا کسی ایک سٹوڈنٹ کے بس کی بات نہیں لگتی بلکہ اس کے لیے منظم کوشش درکار ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ اسے انتظامیہ کی سرپرستی میں قتل کیا گیا یہ سوچ کر کہ اقلیت سے تعلق ہونے کے سبب معاملات آسانی سے سنبھال لیے جائیں گے۔ نمرتا کے قتل سے ایک دن قبل گھوٹکی میں مبینہ توہین رسالت کو بنیاد بنا کر ہونے والے فسادات، جن میں کئی مندروں کی توڑ پھوڑ کی گئی اور شہر میں موجود ہندو برادری کے گھروں میں پر میاں مٹھو کے غنڈوں نے حملے کیے۔ لیکن اکثریتی مذہب سے تعلق رکھنے والے شہر کے باسیوں نے شاندار انسانی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو برادری کے گھروں اور مندروں کی حفاظت کی جسے پیپلز پارٹی نے کیش کرانے کی بھونڈی سی کوشش کی۔ کیونکہ میاں مٹھو جو کہ اقلیتوں پر ہر طرح کے جبر کے حوالے سے خاص شہرت رکھتا ہے، اسے بنانے والی بھی خود پیپلز پارٹی ہے، آج کل یہ مکروہ شخص اعلیٰ سرکار کا خاص اہلکار ہے، جو کھل کر اپنے جرائم کا اعتراف بھی کرتا ہے۔

گھوٹکی کے واقعے کے اگلے ہی دن نمرتا کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور ہر جگہ اس کے خلاف احتجاج اور دھرنے شروع ہو گئے۔ انتظامیہ اور پیپلز پارٹی کی آشیرباد کے سبب بننے والا طاقت کا جال، نمرتا قتل کے اصل حقائق تو شاید کبھی سامنے نہ آنے دے، لیکن اس قتل نے تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کو لاحق عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کر دیا ہے، جہاں جیتے جی ان کی زندگی کی اذیتیں موت کے مترادف ہیں، جہاں ان کی صلاحیتوں کو ابھار کر نکھارنے کی بجائے ان صلاحیتوں کا قتل کیا جاتا ہے۔ جہاں پہلے ہی نوجوان نسل کی اکثریت تو ان اداروں تک پہنچنے کا خواب بھی نہیں دیکھ پاتی اور جو پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کیلئے مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس میں فیسوں میں اضافے، ہاسٹل کی عدم موجودگی یا پھر ان میں سہولیات کا فقدان، ٹرانسپورٹ، میس، ناکارہ امتحانی نظام، اچھے نمبروں کے لیے اساتذہ کی چاکری، ان سے بلیک میل ہونا اور اس طرح کے سینکڑوں مسائل بھگتنے کے بعد بھی آگے روزگار ملنے کی ضمانت کی عدم موجودگی، یہ معمول طلبہ کے صبر کا پیمانہ لبریز کرتاجارہا ہے جس کے سبب تعلیمی اداروں میں آئے روز احتجاجوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، جو کسی بھی بڑے دھماکے کی طرح پھٹ سکتا ہے۔

اس سلسلے میں نمرتا کے بہیمانہ قتل کے خلاف کراچی میں سندھی شاگرد ستھ کی جانب سے احتجاجی ریلی کی کال دی تھی جس میں کافی طلبہ شریک ہوئے۔ ریلی NED یونیورسٹی کے گیٹ تک نکالی گئی۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے بھی اس میں شرکت کی۔کراچی کے علاوہ جامشورو اور نواب شاہ میں واقع یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں وطن دوست سٹوڈنٹ فیڈریشن نے بھرپور شرکت کی۔ نمرتا کے قتل کے بعد بحریہ یو نیورسٹی اور کامسیٹس اسلام آباد میں بھی دو طلبہ کی انتظامیہ کی غفلت کے باعث افسوس ناک ہلاکت اس بات کا ثبوت ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ منافعوں کی ہوس میں اندھی ہوچکی ہیں اور اپنے ان منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا جاچکا ہے اور محنت کشوں کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کرکے ان کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ اس تمام تر بربادی کا ذمہ دار یہ انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام اور یہاں کی حکمران ہیں جن کی اپنی دولتوں میں رز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ محنت کشوں اور ان کے بچوں کی زندگیاں اندھیر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔اس نظام کے بحران کی تمام تر قیمت محنت کشوں اور عام عوام سے نکلوائی جا رہے ہے۔ ایسے میں طلبہ کے خلاف اپنے ان تعلیمی اداروں کو بچانے کے لیے اس نظام سے بغاوت کے سوا اور کوئی رستہ نہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم اور روزگار کی حقیقی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس کے لازمی ہے کہ طلبہ اپنے تعلیمی اداروں میں منظم ہوں اور اس نظام کی بربادیوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.