تربت: بالاچ بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا ساتویں روز میں داخل!

بالاچ بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف اس کے لواحقین سمیت ہزاروں افراد نے گزشتہ سات دن سے تربت کے معروف چوک (شہید فدا چوک) پر دھرنا جاری رکھا ہوا ہے۔ بالاچ کی فیملی کے مطابق ریاستی اداروں نے بالاچ کو گھر سے تمام خاندان کے افراد کے سامنے اٹھاکر جبری طور پر لاپتہ کیا اور پھر بے دردی کے ساتھ اسے قتل کر کے جعلی مقابلے کا نام دیا گیا۔

بالاچ کی فیملی کے مطابق اسے 29 اکتوبر رات 12 بجے آبسر میں گھر پر چھاپے کے دوران جبری طور پر غائب کیا گیا اور 12 نومبر کو اسے اے ٹی سی تربت کے سامنے پیش کر کے دس روز کا جسمانی ریمانڈ کیا گیا۔ لیکن اس دس روزہ جسمانی ریمانڈ پورا ہونے سے ایک دن پہلے اسے قتل کر دیا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ایک انکاؤنٹر میں اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔

چند روز قبل سی ٹی ڈی (Counter Terrorism Department) بلوچستان نے تربت سول ہسپتال میں چار لاشیں پہنچائیں اور دعویٰ کیا کہ یہ چار لوگ مقابلے میں مارے گئے ہیں اور ان سے بڑی تعداد میں اسلحہ اور بارودی مواد برآمد ہوا ہے۔ ان مارے جانے والوں میں ایک نام بالاچ ولد مولا بخش بھی شامل تھا جسے عدالت میں پیش کیا گیا اور دس روزہ جسمانی ریمانڈ کے لیے بھیج دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق سیشن کورٹ میں بالاچ بلوچ کے کیس کی سماعت ہوئی اور اس کے کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کیا گیا تھا۔ بالاچ کے ساتھ فیک انکاؤنٹر میں مارے جانے والے دیگر تین افراد بھی پہلے سے لاپتہ تھے جن میں شکور بلوچ کو 25 جون کو آبسر روڈ، تربت میں واقع ان کے گھر سے، اور سیف اللہ کو آبسر روڈ، تربت میں واقع ان کی دکان سے فورسز نے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا۔

شہید فدا احمد چوک پر جاری احتجاجی دھرنے کے کیمپ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بالاچ بلوچ کے لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شہد بالاچ کے فیک انکاؤنٹر کے خلاف بیٹھے ہوئے دھرنے کے چھٹے دن پر بالاچ کی تدفین کا اعلان کیا گیا، جبکہ احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم کے مطابق جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے تمام افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، گویا وہ سب مسنگ افراد تھے جن کی جبری گمشدگی کے کیسز تنظیم کو موصول ہوئے ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ کے مطابق 2021ء میں سی ٹی ڈی نے لاپتہ بلوچوں کو فیک انکاؤنٹرز میں قتل کرنے کے سلسلے کو شروع کیا جو تاحال جاری ہے۔ اب تک سی ٹی ڈی نے بلوچستان میں 21 فیک انکاؤنٹرز میں دو سو سے زائد لاپتہ بلوچوں کو قتل کیا ہے۔

25 نومبر کو احتجاجی دھرنے کے دوسرے دن شرکاء نے عدالت کے سامنے دھرنا دیا، جہاں سیشن جج تربت نے بالاچ مولا بخش قتل کیس میں پولیس کو سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دے دیا۔ تربت میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے لاپتہ نوجوان بالاچ بلوچ کے لواحقین نے سی ٹی ڈی کے خلاف مقدمے کی دراخواست پیش کی جسے پولیس نے لینے سے انکار کر دیا۔ جس کے بعد احتجاجی دھرنے کا آغاز ہوا۔

اس احتجاجی دھرنے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بلوچستان سمیت ملک بھر کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ تربت شہر میں جاری احتجاجی دھرنے میں روزانہ کی بنیاد پر شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس احتجاجی دھرنے کی اہم بات خواتین کی بڑی تعداد میں شرکت ہے۔

بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل عام معمول بنتا جا رہا ہے، مگر سیکیورٹی ادارے جعلی مقدمات کی آڑ میں لاپتہ افراد یا جبری گمشدگی کے شکار بلوچ نوجوانوں کو مار کر اُنہیں دہشت گرد گردانتے رہتے ہیں۔

حالانکہ اس واقعے سے پہلے بھی بہت سارے قتل شدہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاجی دھرنے دیے کہ سیکیورٹی اداروں نے جن لوگوں کو دہشت گرد ثابت کیا ہے وہ درحقیقت جعلی مقدمات میں مارے جانے والے لاپتہ یا گرفتار شدہ نوجوان ہیں۔

ایک طرف بلوچستان میں جبری گمشدگی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بدستور برقرار ہے جبکہ دوسری جانب ان لاپتا افراد کی ٹارچر سیلز اور زندانوں میں زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس ضمن میں لاپتا افراد کے لواحقین کی بے چینی مزید بڑھتی جا رہی ہے۔

ہم ان تمام تر لاپتا افراد کی محفوظ بازیابی یا عدالتوں میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم لاپتہ افراد کی ماورائے عدالت جعلی مقدمات میں قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے قتل عام میں ملوث سیکیورٹی اہلکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لاتے ہوئے ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے۔

ہم لاپتہ افراد کی محفوظ بازیابی یا عدالتوں میں پیش کرنے کے حوالے سے بلوچستان سمیت پاکستان بھر کے سیاسی کارکنوں، نوجوانوں، طلبہ اور محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔

مظلوم قومیتوں پر ریاستی جبر نامنظور!

تمام لاپتہ افراد کو فی الفور بازیاب کیا جائے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.