کوئٹہ: زرعی کالج کوئٹہ میں ”طلبہ سیاست کی اہمیت“ کے موضوع پر سٹڈی سرکل کا انعقاد

|رپورٹ: زرعی کالج یونٹ، پروگریسو یوتھ الائنس|

مورخہ 3 جولائی 2019 ء کو زرعی کالج میں پروگریسو یوتھ الائنس زرعی کالج یونٹ کے زیراہتمام ”طلبہ سیاست کی اہمیت“ کے موضوع پر سٹڈی سرکل منعقد ہوا۔ سٹڈی سرکل میں کئی طلباء نے شرکت کی۔

موضوع پر بحث کا آغاز کریم پرھر نے کیا جنہوں نے کہا کہ کسی بھی سماج میں نوجوانوں کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس بات کو ماضی میں مختلف ممالک کی ترقی اور مختلف ممالک کے اندر برپا ہونے والے انقلابات میں نوجوانوں کے کردار کے پیش منظر میں دیکھا جائے تو ہم آج پاکستان میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کے سماجی ترقی میں کردار کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں۔ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں نوجوانوں نے بھی بہت اہم کردار اد ا کیا تھا اور جدوجہدِ آزادی کی ہر تحریک میں ہمیں نوجوان پیش پیش نظر آتے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد میں ہمیں بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اور اشفاق احمد کا نام بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ مگر آج ہمیں سیاست کے حوالے سے نوجوانوں کی حوصلہ شکنی کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر زندگی کے ہر شعبے تک ہمیں نوجوانوں پر بے جا تنقید نظر آتی ہے اور نوجوانوں کو نااہل اور کام چور ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں اور انہیں مسلسل یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ خود کو درپیش مسائل کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ جبکہ دوسری طرف نوجوانوں پر بیجا الزامات عائد کیے جاتے ہیں جنکا مقصد اصل ذمہ داروں سے توجہ ہٹوانا ہوتا ہے تاکہ نوجوان اس ریاست اور اس کے نظام کے متعلق سوالات نہ اٹھا سکیں بلکہ خود کو ہی مسائل کی وجہ سمجھتے رہیں۔ بے روزگاری، ہتک آمیز رویے اور اس طرح کے دیگر مسائل نوجوانوں کو انتہا پسند رویوں کی طرف دھکیلتے ہیں اور نوجوانوں میں جرائم، منشیات کے استعمال اور خودکشیوں کے رجحان میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

اُنہوں نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے آج کے عہد میں نوجوانوں کی سیاست میں شمولیت کی اہمیت پر بات کی، جس میں انہوں سوڈان، ہانگ کانگ، الجیریا اور پاکستان میں نوجوانوں کی سیاست میں مداخلت اور کردار پر تفصیل سے طلبہ کو آگاہ کیا۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی 1960، 70 اور 80 کی دہائی میں نہ صرف طلبہ تحریکیں موجود تھیں بلکہ ملک کے کونے کونے میں طلبہ سیاست زور و شور سے جاری تھی۔ 1960 کی دہائی میں اسی طلبہ تحریک نے ایوب خان کی آمریت کا تختہ الٹ ڈالا تھا۔ مگر یہاں کے حکمران طبقے کی جانب سے اس خطرے کو فورا بھانپ لیا گیا اور ضیاء الباطل کی آمریت میں طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کی وجہ سے پاکستان میں طلبہ سیاست کا زوال ہمیں نظر آیا۔ مگر آج عہد بدل چکا ہے۔ آج نوجون طلبہ کو اپنے اس جمہوری حق (طلبہ یونین) کیلئے جدوجہد کر کے اسے دوبارہ بحال کرانا ہوگا۔ اس ادارے کی بحالی کیساتھ دوبارہ حقیقی طلبہ سیاست کا بھی جنم ہوگا۔

آخر میں طلبہ نے سوالات کیے اور آئندہ کے سٹڈی سرکل کے حوالے سے مختلف تجاویز پیش کیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.