بلوچستان: نواں کلِی میں ”سرمایہ دارانہ بحران کے خواتین پر اثرات“ کے عنوان سے سٹڈی سرکل کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے خواتین کے عالمی دن کی تیاریوں کے سلسلے میں مسلم نیشن آف انفارمیشن ٹیکنالوجی اکیڈمی،مندوخیل آباد نواں کلی میں اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ایک سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

پی وائی اے کی جانب سے رزاق غورزنگ نے پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف کرایا اور موجودہ عالمی اور ملکی صورتحال میں خواتین کی حالتِ زار پر تفصیلی بات کی۔خواتین کی حالتِ زار کو پاکستانی سماج سے جوڑتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں تعلیمی اداروں کے اندر، کبھی گلی کوچوں میں، کبھی سڑکوں پر، کبھی کام کرنے کی جگہوں پر اور کبھی گھر کی چار دیواری میں چھوٹی بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں دن بہ دن شدت سے اضافہ ہورہا۔ اکثر واقعات میں زیادتی کے بعد قتل یا پھر زندہ درگور کرنا معمول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا بڑھتا ہوا زوال اس کی وحشت اور گندگی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایسے ہولناک واقعات زور پکڑتے جا رہے ہیں جس میں نہ تو نو عمر لڑکیاں محفوظ ہیں اور نہ ہی چھوٹے بچے اور بچیاں۔

رزاق کی تفصیلی گفتگو کے اختتام پر اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کامریڈ زاہدہ ملک نے اپنی بات رکھی اور خواتین کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات، خواتین کے ساتھ ہونے والی بلیک میلنگ، جنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنا اور خواتین کے دیگر مسائل پر گفتگو کی۔ ان واقعات کو سماجی ساخت کے ساتھ جوڑتے ہوئے زاہدہ نے کہا کہ ہراسانی کا مسئلہ اس سماج کی بنتر کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس سماج میں عورت کو غلام رکھنے کی جو سوچ ہے وہ اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

فضیلہ نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات کو گھروں میں قید ہو کر روکا نہیں جا سکتا ہے اور نہ ہی ان مسائل کے حل کیلئے رائج قوانین پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ ان واقعات سے نجات کیلئے لازمی ہے کہ خواتین اس فرسودہ سماج کے خلاف اپنی جنگ خود ہی لڑیں۔

دورانِ بحث شرکاء کے آنے والے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے رزاق کا کہنا تھا کہ معاشرے میں طبقاتی تفریق موجود ہے۔ ان مسائل کا حل تب تک ممکن نہیں جب تک ہمیں ان مسائل کی بنیاد کا ادراک نہیں ہوتا اور جب تک ہم اس بات سے آگاہ نہیں ہو جاتے کہ معاشرے میں دو طبقات موجود ہیں، ایک حکمران طبقہ اور دوسرا محنت کش طبقہ اور اس تعفن زدہ نظام کی غلاظت ہمارے سماج کی جڑوں تک سرائیت کر چکی ہے۔ یہاں صرف وہ انسان محفوظ ہے جس کے پاس اپنی حفاظت کے لیے دولت موجود ہے۔ اس نظام سے اور اس کی تمام ہولناکیوں سے نجات اصلاحات کے ذریعے سے حاصل نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی عورتوں کے حقوق پر بات کرنے والی بڑی بڑی این جی اوز کے پاس ان مسائل کا کوئی حل موجود ہے۔ ان این جی اوز کا مقصد عورتوں کے مسائل کو جواز بنا کر پوری دنیا کے سرمایہ داروں سے چندے اکٹھے کرنا اور اپنی جیبیں بھرنا ہے۔ ان مسائل سے نجات مسلسل جدوجہد اور اس نظام کے خاتمے سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ضرورت ہے کہ ایک ایسا نظام، ایسا سماج قائم کیا جائے جو زیادتی اور ہراسانی جیسی غلاظتوں سے پاک ہو۔

بحث کا اختتام 27فروری کے پروگرام اور 8 مارچ کے حوالے سے اعلانات پر ہوا جس میں تمام خواتین سے شرکت کی اپیل کی گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.