سرکاری سکولوں کی نجکاری اور اساتذہ کی گرفتاریوں پر ایک طالب علم کے تاثرات

|تحریر: حارث ہاشمی|

(پچھلے چند دنوں سے پنجاب بھر کے سرکاری سکولوں کے اساتذہ و طلبہ اور سرکاری ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ اس وقت پورے پنجاب میں سرکاری سکولوں میں مکمل ہڑتال جاری ہے۔ یہ احتجاج سکولوں کی نجکاری، پنشن قوانین میں مزدور دشمن تبدیلیوں اور دیگر مزدور دشمن اقدامات کے خلاف جاری ہے۔ اس احتجاجی تحریک پر شدید ترین ریاستی جبر جاری ہے۔ چند دن پہلے لاہور میں ایک احتجاج کے دوران پولیس نے 250 سے زائد لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ان میں نوجوان، طلبہ اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ان احتجاجی مظاہرین سے یکجہتی کی پاداش میں پروگریسو یوتھ الائنس لاہور کے کارکن ثاقب اسماعیل کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ان گرفتاریوں کے خلاف فیصل آباد میں اساتذہ ایک احتجاج میں شرکت کے بعد حارث ہاشمی نامی طالب علم کے یہ تاثرات ہیں۔)

”صاحب میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ پندرہ سو فیس کر دی ہے سکول کی۔ یہ رقم اوروں کے لیے شاید عام بات ہو لیکن ہمارے لیے یہ تین دن کا فاقہ ہے۔“

اب ظاہر ہے کہ عزت مآب وزیر اعلیٰ صاحب اور پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران کے بچے ان دو ٹکے کے ٹاٹ عرف ”کھوتی“ سکولوں میں پڑھنے سے تو رہے، تو انہوں نے سوچا کہ جو سکول ہمارے بچوں کے کام نہ آ سکے وہ ملک کے کس کام کے؟ انہیں بیچ ہی دو، گھر جاتے جاتے بچوں کے لیے چاکلیٹس تو آ ہی جائیں گی۔

؎چنانچہ الیکشن کروانے آئے ”دو دن“ کے وزیر کی ایما پہ پنجاب بھر کے بیشتر سرکاری سکولوں کو ”مسلم ہینڈز“ نامی این جی او کے زیرِ تسلط دینے کا فیصلہ صادر کر دیا گیا۔ اب حکومت اس نجکاری کے بہت سے فوائد بیان کر رہی ہے لیکن شاید یہ چند فائدے بتانا وہ بھول گئی ہے کہ:

۔ اب بچے اور ان کے والدین دو وقت کی بجائے ایک وقت کھانا کھائیں گے۔ جس سے ان کے موٹاپے میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور ملکی معیشت بھی خوب پروان چڑھے گی۔
۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان سوشل ڈسٹینس میں کمی ہو گی کیونکہ زیادہ تر غریب ان امرا کے چپڑاسی کے طور کام کریں گے۔
۔ آئین میں نئی اور بہترین ترامیم کی جائیں گی، کیونکہ پرانا اور گھسا پٹا آئین اپنے آرٹیکل 25A کے تحت ایسے لفنگوں کو بھی مفت تعلیم کا حق دیتا ہے جن کے پاس پہننے کو کپڑے تک نہیں ہیں۔ ان کی اوقات ہی کہاں ہے سکول آنے کی؟

اور تو اور ابھی گزشتہ دنوں را کے ایجنٹ، طال بانوں کے کز ن، غنڈوں کو لاہور میں گرفتار کر لیا گیا۔ بے شرم سڑک پہ بیٹھ کے اپنے حقوق مانگ رہے تھے۔ ان کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اپنے حقوق مانگنے کے لیے آپ کے پاس ایک پوش علاقے میں کوٹھی کے اندر دفتر ہونا چاہیے جہاں ہر احتجاج سے پہلے شہر کے رئیسوں کو مدعو کیا جائے۔ لیکن خیر ٹھہرے جو اَن پڑھ گنوار، انہیں کیا معلوم تعلیم کیا ہوتی ہے!!!

پنجاب پولیس نے لیکن انہیں تعلیم کی اہمیت کے بارے میں خوب درس دیا ہے۔ وہ تو ان غنڈوں میں اور آگہی پھیلانے والے تھے لیکن کم بخت مجسٹریٹ نے انہیں بری کر دیا۔

لیکن سلام ہے پولیس کو جس نے کسی صورت غنڈہ گردی کی اجازت نہیں دی اور اس دو ٹکے کے سرکاری آرڈر کو پاؤں تلے کچل ڈالا۔

ابھی بھی کچھ نکمے، کم کاج چھٹے لوگ، جگہ جگہ ان دہشت گردوں کی رہائی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ نہ جانے کیوں نفرت ہونے لگی ہے ان سے۔ کوئی انسان اپنے حقوق کے لیے اس قدر کیسے گر سکتا ہے یار؟
حقوق ہی تو ہیں۔

(تصویر میں فیصل آباد کے چند آوارہ غنڈوں اور ان کے ظالمانہ نعروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.