پشاور یونیورسٹی میں جاری بحران پر پروگریسو یوتھ الائنس کا اعلامیہ

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،پشاور|

پشاور یونیورسٹی میں ایک لمبے عرصے سے جاری بحران اس وقت اپنی انتہا پر پہنچ چکا ہے۔ تعلیمی سلسلہ پچھلے دو ہفتوں سے یونیورسٹی کے ملازمین اور اساتذہ کی جاری احتجاجی تحریک اور ہڑتال کے سبب تعطل کا شکار ہے۔ یونیورسٹی کے ملازمین اور اساتذہ کی جانب سے اپنی نمائندہ تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم”پشاور یونیورسٹی ایمپلائز ایکشن کمیٹی“ کے بینر تلے پچھلے دو ہفتوں سے اپنے مطالبات کو لے کر کلاسز اور دفاتر کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ ایکشن کمیٹی کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ احتجاجی ملازمین کے مطالبات تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہورہی تھی۔ جس کے نتیجے میں ملازمین نے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا تھا جو کہ مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ ابھی تک جاری ہے۔ طلبہ میں اس تمام تر صورتحال کی وجہ سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات کے اسی ڈگر پر چلنے کے نتیجے میں طلبہ کی طرف سے بھی ایک احتجاجی تحریک کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ غرض کہ اس وقت پشاور یونیورسٹی طلبہ، ملازمین اور انتظامیہ کے بیچ ایک میدان جنگ کا منظر پیش کررہی ہے۔ اس تمام تر صورتحال کو سمجھنے اور طلبہ و ملازمین کے مفاد کے پیش نظر ایک بہتر حل پیش کرنے کیلئے ہمیں ایک بار پھر اس بحران کے آغاز سے لیکر آج تک کے تمام مراحل پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ بحران کی بنیادی وجوہات اور حکمران طبقے کی تعلیم کی طرف ان تعلیم دشمن ترجیحات اور پالیسیوں کو سجھ سکیں۔ اور اسکے خلاف طلبہ اور ملازمین کی پچھلے عرصے میں کی گئی جدوجہد سے اسباق حاصل کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل واضح کر سکیں۔

پسِ منظر

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پشاور یونیورسٹی سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے تمام سرکاری جامعات پر پچھلے سال کے آغاز میں حکومت کی طرف سے ایک معاشی حملہ اس وقت کیا گیا جب صوبائی حکومت کے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے جنوری 2021 میں صوبے بھر کے تمام جامعات کو ایک لیٹر جاری کیا تھا جس میں مزکورہ بالا نیم سرکاری جامعات میں شعبہ تعلیم کی مکمل پرائیویٹائزیشن سے جڑے اقدامات کرنے کے احکامات صادر کئے گئے تھے۔ یہ لیٹر موجودہ حکومت کی ملک بھر میں شعبہ تعلیم کے حوالے سے عمومی پالیسی کا حصہ تھا جس میں صوبے کی یونیورسٹیوں پر واضح کیا گیا تھا کہ جامعات آئندہ حکومت سے فنڈ حاصل کرنے کی بجائے اپنے اخراجات خود پوراکریں گی۔ اس پالیسی پر عمل درامد کیلئے حکم دیا گیا تھا کہ یونیورسٹیوں سے جڑے سکولوں پر فیس لاگو کی جائے جو کہ ملازمین کے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے کے مترادف تھا، ملازمین کے تنخواہوں میں ہاؤس ریکویزیشن الاونس، میڈیکل الاونس، مینٹینینس الاؤنس وغیرہ کے مد میں کٹوتیاں کی جائیں، کنٹریکٹ ملازمین کو برطرف کیا جائے، یونیورسٹیوں میں پیسہ بچانے کیلئے سٹاف کو کم کیا جائے، فیسوں میں اضافہ کیا جائے اور اس طرح کے مختلف ملازمین دشمن اور طلبہ دشمن اقدامات کی فہرست تھی جس میں وہ تمام چیزیں شامل تھی جو آج ملازمین کے احتجاجی بینر پر مطالبات کی شکل میں موجود ہیں۔

یہ اقدامات دراصل تعلیم کی مکمل نجکاری کی پالیسی کے تحت اٹھائے گئے تھے جوکہ اس وقت ریاست پاکستان کا عوامی اخراجات کو کم کرکے پیسے بچانے کی پالیسی کا حصہ ہے تاکہ عوام سے صحت، تعلیم، روزگار اور بنیادی ضروریات چھین کر عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے سود کی رقم واپس کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی حکمران اپنی تجوریاں بھر سکیں۔ ان سامراجی اداروں سے پچھلے 70 سالوں میں عوام کے نام پر لئے گئے اربوں ڈالر اپنی تجوریوں میں ڈال کر ملکی معیشیت کو تباہ و برباد کرنے کے بعد اسی سود کو واپس کرنے کیلئے ملک کے عوامی اداروں کو بیچا جارہا ہے۔ اور اسکے پیچھے حکمران ہر جگہ خسارے کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں شعبہ تعلیم کو بھی پیسہ کمانے کی فیکٹری بنایا جا چکا ہے۔

احتجاجی تحریک اور مطالبات

گزشتہ سال کے آغاز میں ہی ملازمین نے مزکورہ بالا پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو ان اقدامات سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مگر روز روشن کی طرح واضح تھا کہ مزکورہ بالا پالیسی کسی ایک شخص، انتظامیہ یا حکومت کے اہلکاروں کی مرضی یا خواہش کی بجائے ایک وسیع تر ریاستی پالیسی کا سلسلہ اور ملک میں رواں معاشی بحران اور عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ کا عکاس تھا۔ اس لئے حکومت و انتظامیہ ان اقدامات کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ان کے اندر اس تمام تر دباؤ میں ملازمین کے مسائل کو حل کرنے کی کوئی صلاحیت موجود تھی۔ اس لئے ملازمین اور طلبہ پر یہ حملے جاری رہے جس کے نتیجے میں پچھلے سال مارچ سے احتجاجی تحریک اور دھرنوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ یہ تحریک جدوجہد کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔ ابتدا میں ملازمین نے اگرچہ پچھلے سال لاک ڈاؤن سے پہلے بہت بڑے دھرنے اور احتجاج منعقد کئے جس میں وقتاً فوقتاً حکومتی جبر کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ مگر اس تحریک کا حالیہ مرحلہ جو کہ پچھلے دو ماہ سے جاری ہے اس لحاظ سے منفرد اور اہم ہے کہ اس بار ملازمین نے ایک قدم آگے بڑھ کر پچھلے 14 مارچ سے تمام کلاسوں اور دفاتر کا بائیکاٹ کر کے اپنی اصل طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس ہڑتال کو شروع ہوئے دو ہفتے مکمل ہو چکے ہیں۔

احتجاج کے طریقہ کار پر بات کو آگے بڑھانے سے پہلے تحریک کے مطالبات پر کچھ بات کرنا ضروری ہے۔ملازمین نے 16 نقاطی چارٹر آف ڈیمانڈ بنایا ہے جن میں ملازمین کی تنخواہوں میں الاونسس کی کٹوتیوں کا خاتمہ، کلاس تھری و کلاس فور ملازمین کی پروموشن، غیر قانونی ورک لوڈ کے خاتمے کیلئے کریڈٹ آرز کو کم کرنا، نئی بھرتیوں کے ذریعے ہر قسم کی سٹاف کی کمی کو دور کرنا، عارضی تعیناتیوں کا تدارک اور انتظامیہ کی طرف سے ملازمین کیساتھ تضحیک امیز رویے کا خاتمہ شامل ہیں۔

ان مطالبات کو لے کر ملازمین تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم ”پشاور یونیورسٹی ایمپلائز ایکشن کمیٹی“ نے یونیورسٹی وائس چانسلر کو ملازمین کیساتھ بیٹھ کر مزاکرات کرنے کیلئے الٹی میٹم دیا مگر انکے ایکشن کمیٹی کے سربراہ کے مطابق جب وائس چانسلر ان سے مزاکرات کرنے کیلئے راضی نہ ہوا تو ایکشن کمیٹی نے 23 مارچ کو وائس چانسلر کو برطرف کرنے کیلئے ایمپلائز تنظیموں کی جنرل باڈی سے قراداد منظور کروائی۔ اسکے ساتھ ہی وائس چانسلر کی برطرفی تحریک کا بنیادی مطالبہ بن چکا ہے۔ ابھی تک ملازمین کی یہ تحریک اپنے مطالبات کو لے کر ایک تسلسل کیساتھ آگے بڑھ رہی ہے مگر بحیثیت ایک طلبہ تنظیم کے اس تحریک کے مطالبات اور طریقہ کار پر مزید بات کرنے کیلئے ہم طلبہ کے مسائل کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہمیں واضح کرنا پڑے گا کہ یونیورسٹی کے محنت کشوں کی اس تحریک میں انکے نامیاتی اتحادی طلبہ کہاں کھڑے ہیں اور انکا اس تحریک کے حوالے سے کیا کردار بنتا ہے۔

طلبہ کا کردار

پروگریسیو یوتھ الائنس روز اول سے بلا ہچکچاہٹ ملازمین کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان کیساتھ اس جدوجہد میں شرکت کرتا رہا ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ملازمین اور طلبہ کے مسائل مشترک ہیں، انکے بنیادی مطالبات ایک دوسرے کے حق میں جاتے ہیں۔ طلبہ اور ملازمین یونیورسٹی کے واحد حقیقی سٹیک ہولڈرز ہیں جن کے بل بوتے پر یونیورسٹی کا پورا نظام چل رہا ہے اس لیے ان کی جدوجہد بھی مشترک ہے۔ جس پالیسی کے تحت ملازمین کے بچوں سے مفت تعلیم کا حق چھینا جا رہا ہے، انکی تنخواہیں کاٹی جارہی ہیں، ان کا روزگار چھینا جا رہا ہے، اسی پالیسی کے تحت طلبہ کی فیسوں میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔ پچھلے دو سال میں تعلیمی فیسوں میں دو گنا سے زیادہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔ دور دراز سے آئے طلبہ کیلئے ہاسٹل کی سہولت کم ہوتی جا رہی ہے، ہاسٹلوں میں سہولیات کا فقدان ہے، پوری یونیورسٹی میں طلبہ انتہائی غیر معیاری خوراک کھانے پر مجبور ہیں، طالبات کو قدم قدم پر جنسی ہراسانی کا سامنا ہے، طلبہ کی تعداد کے تناسب سے کلاس رومز کی کمی ہے، صرف فیسیں بٹورنے کی خاطر ایک ایک کلاس میں سو سو طلبہ کو بٹھایا جاتا ہے، ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت موجود نہیں، کسی چھوٹے مسئلے کیلئے ایک طالب علم کو ہفتوں تک انتظامیہ کے دفتروں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اساتذہ اور ملازمین کی تنظیموں کی طرح طلبہ کی نمائندہ تنظیم طلبہ یونین پر ہنوز پابندی عاید ہے۔ اسی طرح بے شمار مسائل ہے جن کا طلبہ کو ہر قدم پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس صورتحال میں ملازمین کی احتجاجی تحریک جن مسائل کے خلاف چل رہی ہے وہ مسائل طلبہ کو بھی متاثر کرہے ہیں۔ اس طلبہ کو ملازمین کے خلاف ہر قسم کے پروپیگینڈے کو مسترد کرتے ہوئے ان کے مطالبات کی حمایت کرنی چا ہیے مگر یہ یقینی کروانا لازمی ہے کہ ان کی جدوجہد میں طلبہ کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔ پروگریسو یوتھ الائنس بحیثیت طلبہ تنظیم ملازمین کی اس تحریک کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ ہڑتال میں طلبہ کا وقت ضائع ہورہا ہے مگر اسکی تمام تر ذمہ داری حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جو طلبہ دشمن اور ملازم دشمن پالیسیاں مسلط کرکے پورے تعلیمی نظام کو بحران میں دھکیل چکے ہیں۔ مگر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جس طرح اوپر ہم نے ذکر کیا ہے کہ انتظامیہ اور حکومت کی طرف سے مسلط کردہ تعلیم دشمن اور طلبہ دشمن پالیسی، جس کے تحت تعلیم کو مکمل طور پر کاروبار بنایا جا چکا ہے، کسی ایک فرد یا کچھ افراد کی ذاتی خواہش نہیں بلکہ یہ ایک ریاستی اور حکومتی پالیسی ہے۔ تعلیم کی طرف حکمرانوں کا یہ رویہ پاکستان میں موجودہ سرمایہ داری نظام کے معاشی و سیاسی بحران کا نتیجہ ہے، اس لیے وہ تعلیم کو بھی ایک کاروبار بناکر معاشی خسارے پورے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نام نہاد خودمختاری جیسے خوشنما لفاظیوں کے ذریعے جامعات کی نیم سرکاری حیثیت کو بھی ختم کرکے مکمل پرائیویٹائز کیا جارہا جس کے بعد فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جارہا ہے، نتیجتاً غریب طلبہ کی کثیر تعداد تعلیم درمیان میں چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

اس لیے ہماری لڑائی بھی کسی ایک فرد سے نہیں بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی تعلیم دشمن، طلبہ دشمن اور مزدور دشمن پالیسیوں سے ہے۔ اور اگر ایک وزیر اعظم، ایک صدر، ایک منسٹر، ایک افسر، ایک گورنر یا ایک وائس چانسلر کو تبدیل کرکے اسکی جگہ کوئی دوسرا آجائے اور وہی پالیسیاں جاری رہیں تو طلبہ اور مزدوروں کو اسکے خلاف بھی اپنی لڑائی جاری رکھنا ہوگی۔ پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے حقوق کی جدوجہد کرتے ہوئے طلبہ کے حقیقی اتحادی ملازمین کے اس احتجاجی تحریک میں شانہ بشانہ کھڑا رہنے کا عزم کرتا ہے اور انتظامیہ اور حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جلد از جلد احتجاجی ملازمین کے مطالبات حل کرواتے ہوئے تمام تر طلبہ دشمن، تعلیم دشمن اور ملازم دشمن پالیسیوں کو ختم کیا جائے، فیسوں میں حالیہ اضافہ فی الفور واپس لیا جائے، طلبہ کی تعداد کے تناسب سے نئے ہاسٹلز اور کلاس رومز فراہم کئے جائیں، ہاسٹلوں اور کینٹینوں میں خوراک کا معیار بہتر کیا جائے، طلبہ کو مفت ٹرانسپورٹ فراہم کہ جائے، وزٹنگ ٹیچرز کی تعیناتیاں بند کرکے مستقل سٹاف کو برتی کیا جائے اور تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی، اسلحہ کلچر اور منشیات کا خاتمہ کیا جائے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ان مطالبات کے ساتھ ملازمین کی موجودہ تحریک کی حمایت کرتا ہے اور ان مطالبات پر طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و منظم کرنے کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.