پختونخواہ: دہشت گردی کی نئی لہر اور عوامی مزاحمت

|تحریر: ہلال احمد|

اس وقت پورے پختونخواہ میں دہشت گردی کی نئی لہر کے بڑھنے کے ساتھ عوامی مزاحمت بھی شدت اختیار کر رہی ہے۔ حالیہ دہشت گرد حملوں کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور امن کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جہاں کہیں بھی دہشت مسلط کرنے کی کوشش کی گئی وہاں شرپسندوں کو عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جگہ جگہ ہونے والے ان مظاہروں نے پختونخواہ کی سطح پر ایک عوامی تحریک کو جنم دیا ہے جو نہ صرف پشتون عوام پر گزشتہ چار دہائیوں سے ہونے والے جبر اور بربریت کا قصہ سنا رہی ہے بلکہ اس جنگ سے پیوستہ رجعتی اور قبائلی اقدار کو بھی جھنجھوڑ رہی ہے۔ آپ پوری دُنیا پر نظر دوڑائیں اور اس وقت جہاں کہیں بھی جنگ/دہشت گردی مخالف کوئی تحریک موجود ہے اس کا موازنہ ”پختونخواہ امن تحریک“ سے کریں تو سامنے آجائے گا کہ اس وقت جاری امن کے لئے یہ دنیا کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ہے۔ مگر پاکستانی میڈیا تو درکنار عالمی میڈیا میں بھی اس کی گونج سنائی نہیں دے رہی۔
اس خونی کھیل کی بنیادیں امریکی سامراج نے رکھیں جس میں ریاست پاکستان خصوصاً فوجی اشرافیہ نے اس کے گماشتے کا کردار ادا کیا۔ جب سو ویت یونین موجود تھا تو اس کے اثر و روسوخ کو کم کرنے کیلئے امریکہ پوری دنیا میں سر توڑ کوششوں میں مصروف تھا۔ اسی دوران افغانستان میں 1978ء میں ثور انقلاب برپا ہوا۔ اس انقلاب سے ایک دہائی قبل پاکستان میں بھی ایک عظیم الشان انقلابی تحریک جنم لے چکی تھی۔ لہٰذا پورے خطے میں سوشلزم کے پھیلاؤ کے خوف سے امریکی سامراج نے پاکستانی حکمرانوں کو اپنا گماشتہ بنا کر ان کی مدد سے افغانستان میں ڈالر جہاد شروع کرایا۔
پاکستانی ریاست اپنے آغاز سے ہی مصنوعی اور رجعتی بنیادوں پر قائم ہے جس میں مختلف اقوام موجود تھیں جنہیں زبردستی ایک ”پاکستانی قوم“ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح اس ریاست کی بنیاد ہندوستان دشمنی پر استوار ہوئی۔ حکمران طبقے اور سول و ملٹری افسر شاہی کے اندرونی مفادات و سامراجی عزائم کے تال میل سے پھر مدارس کا نیٹ ورک قائم کیا گیا جن میں طلبہ کی برین واشنگ کر کے جہادی تیار کیے گئے جن کیلئے پیسہ سعودی عرب اور امریکہ سے آتا تھا۔
یہ ہے وہ بھیانک پس منظر جس کی وحشت اور بربریت اب بھی پختونخواہ کے عوام کی اجتماعی یاداشت میں زندہ ہے۔ اب یہاں پر ٹی ٹی پی کی بحث سامنے آتی ہے تو یہ دہشت گرد تنظیم اسی جہاد ی صنعت کی پیداوار ہے کیونکہ امریکی سامراج نے روس کے خلاف مجاہدین کو لڑوایا مگر 9/11 کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر خود اس خونی دلدل میں اترا۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمرانوں اور جرنیلوں پر پھر سے ڈالروں کی بارش ہوئی۔ مگر اس بار انہیں اپنے ہی بنائے گئے دہشت گردوں کو ختم کرنے کیلئے ڈالر مل رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ڈبل گیم کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ جس میں ایک طرف تو دہشت گردی ختم کرنے کیلئے نام نہاد آپریشن کیے گئے تو دوسری جانب طالبان کو پاکستان میں سیف ہاؤسز دیے گئے۔ یہی وہ طالبان تھے جنہیں خیبر پختونخواہ میں جگہ دی گئی تھی جو اب دوبارہ دہشت گردی کی نئی لہر کا آغاز کر رہے ہیں۔ امریکی انخلا کے وقت پاکستانی ریاست یہ کہہ کر امارت اسلامی کو سپورٹ کر رہی تھی کہ یہ لوگ ہمارے مفاد میں ہیں۔ مگر اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان کے طالبان نے پاکستانی ریاست کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا کہا جس پر پاکستان کے سنجیدہ حلقوں میں اعتراضات اٹھے اور بعد میں یہ مذاکرات ناکامی پر منتج ہوئے۔ ٹی ٹی پی بھی امارات اسلامی کی معیت میں شریعت کا نفاذ چاہتی ہے اور ریاست ان سے مذاکرات کرنے کو اور ان کی سہولت کاری کو تیار بھی تھی مگر عوام کو اس کی بھنک پہنچ گئی اور پھر ریاستی پشت پناہی میں دہشت گردوں کی واپسی کیخلاف ایک عوامی جدوجہد کا آغاز ہو گیا۔
دہشت گردی کے خلاف اوراس نام نہاد جنگ کے خلاف پہلے وزیرستان کے قبائلی اور پسماندہ علاقے سے جنگ مخالف آوازیں ابھرنا شروع ہوئیں لیکن اس میں شدت تب دیکھنے کو ملی جب کراچی میں ایک بے گناہ پشتون نوجوان کو دہشت گرد کا ٹیگ لگا کر جعلی مقابلے میں مارا گیا۔ جس کے بعد دہائیوں کے اس خونی کھیل کے خلاف پشتون عوام کے مجتمع شدہ غم وغصے کو پی ٹی ایم کی صورت میں توانا آواز ملی جو پورے پاکستان میں گونج گئی۔ اس حوالے سے ہم کہتے ہیں کہ یہاں پر نہ صرف طبقاتی جبر موجود ہے بلکہ یہ ریاست مظلوم قومیتوں کا جیل خانہ بھی ہے۔
ریاست پاکستان نے خوب بلند و بانگ دعوے کئے تھے کہ ان کے فوجی آپریشنز کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے مگر ان دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا دراصل اس حقیقت کی عکاسی ہے کہ سامراجی گماشتگی اور کالے دھن میں لتھڑی یہ ریاست کبھی بھی دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی ایسا کرنا چاہتی ہے۔ اسی ضمن میں کئی وضاحتیں بھی سامنے آئیں اور دہشت گردوں کی افغانستان واپسی کا اعلان بھی ہوا لیکن بنوں میں دہشت گردوں کے انسداد دہشت گردی کی عمارت پر قبضے کے بعد حکومت امن و امان کی صورتحال بحال کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئی۔ پشاور کے حالیہ دلخراش واقعہ نے مزید اس آگ کو بھڑکایا ہے اور پختونخواہ کے عوام حکمرانوں اور جرنیلوں کی تباہ کن اور رجعتی افغان پالیسی سے جڑی ہر بات کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔مگر دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو قوم پرستانہ بنیادوں پر منظم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر پختون قوم کی ہی بات کی جائے تو جہاں دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ پختون عوام بنے ہیں وہیں بہت سے دہشت گردوں اور ان کے ریاستی پشت پناہوں کا تعلق بھی پختون قومیت سے ہی ہے۔ مزید برآں یہ صرف پختونوں کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی ہر قومیت کم یا زیادہ لیکن اس عفریت کا نشانہ بنی ہے۔اسی طرح دہشت گردی پاکستان کے جرنیلوں اور حکمران اشرافیہ کے لئے ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے اور سامراجی امداد بٹورنے کا جواز بھی، لہٰذا اس کی جڑیں پاکستان کے سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے جڑی کالی معیشت میں پیوست ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ یہاں سرمایہ داری اور اس کی نمائندہ ریاست کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہو ا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ قوم پرستانہ نظریات کے تحت حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کے حکمرانوں اور فوجی اشرافیہ کیلئے اگرچہ اب مزید دہشت گردی کے اس عفریت کو جاری رکھ پانا اتنا آسان نہیں رہا بہرحال اس سے یہ نتیجہ بھی نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ اب دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بلکہ پاکستانی حکمرانوں کی اندرونی لڑائیوں اور افغانستان پر طالبان حکومت کی موجودگی میں دہشت گردی کے خاتمے کا سوچنا بیوقوفی ہوگی بلکہ اس میں مزید شدت آئے گی۔

محنت کش عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود منظم ہونا ہو گا اور محلے کی سطح پر ایسی دفاعی اور یکجہتی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جو مختلف جرائم اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسی ہی کمیٹیاں مختلف صنعتی اور عوامی اداروں اور کام کی جگہوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی بنانے کی ضرورت ہے جن کی قیادت ان کمیٹیوں کی جانب سے منتخب کیے گئے نمائندے کریں۔ اگر کوئی نمائندہ درست نمائندگی نہیں کر پاتا تو اس کو واپس بلا کر اس کی جگہ نیا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا جائے۔ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں اور علاقے کے با اثر اور دولت مند افرادپر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے اور محنت کشوں کی اپنی طاقت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کمیٹیوں میں جمہوری اندازمیں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد اور بالخصوص مزدور یونینز کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے فیصلہ کن اہمیت کے حامل ہے۔
دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اس وقت پختونخوا اور پورے پاکستان کے اندر مختلف عوامی و پرائیویٹ اداروں کے محنت کش اپنے حقوق کے لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ان میں ینگ ڈاکٹرز، اساتذہ، پیرامیڈیکس اور محنت کشوں کی دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔ ان سب کو بھی دہشت گردی کے خلاف عوام کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف میدان یا سوات کا نہیں بلکہ پورے پختونخوا اور پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
پہلے بھی سماج کے ہر حصے کے لوگ دہشت گردی سے کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہوئے ہیں جس میں ہسپتالوں میں دھماکے کیے گئے، آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا گیا، باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا گیا، وکلاء اور عدالتوں پر بھی دہشت گردوں نے حملے کیے۔ اس لیے سب کو مل کر دہشت گردوں اور ان کے پشت پناہوں سے لڑنا ہوگا۔ دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا اور ہر قسم کے قومی جبر کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوسکتاہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.