ملتان: ”ریاست اور انقلاب“ کے عنوان پر مارکسی سکول کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

نیشنل مارکسی سکول سرمہ (2019) کی تیاری کے سلسلے میں ملتان میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ایریا مارکسی سکول منعقد کیا گیا۔ سکول ایک سیشن پر محیط تھا، جس کا عنوان ”ریاست اور انقلاب“ تھا۔ سکول کو چیئر فضیل اصغر نے کیا اور اس عنوان پر تفصیلی بات راول اسد نے کی۔

راول نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کا سوال مارکس وادیوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ریاست کے آغاز، مختلف عہدوں میں اس کی ساکھ، طبقاتی کشمکش و انقلابات میں اس کا کردار اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے، یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کو سائنسی انداز میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مگر اس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں عہد حاضر میں ریاست کے متعلق گردش کرتے ہوئے نظریات کا جائزہ لینا ہوگا جس میں ہمیں مختلف نظریات نظر آتے ہیں جو ریاست کو ایک مقدس اور ازلی و ابدی چیز بنا کر پیش کرتے ہیں۔

جبکہ اگر ریاست کو تاریخی مادیت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کا وجود ہمیشہ سے نہیں تھا بلکہ یہ انسانی سماج کے ارتقاء میں ایک مخصوص وقت پر ابھر کر سامنے آئی جب سماج میں ذرائع پیداوار میں بڑھوتری کی بدولت ذائد پیداوار کا جنم ہوا اور اسکے ساتھ طبقات کا جنم ہوا۔ ان طبقات کے مفادات آپس میں ٹکرانا شروع ہو گئے۔ ریاست کا وجود اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے، لہٰذا ایک ایسی طاقت کا وجود ناگزیر ہوگیا جس کی بدولت ایک طبقہ (حکمران طبقہ)، دوسرے طبقے (محنت کش طبقے) کو دبا سکے۔ یہاں سے ریاست کا وجود جنم لیتا ہے۔ ہر نظام میں ریاست کا کردار اپنی بنیاد میں یہی رہا کہ وہ ایک طبقہ کے دوسرے طبقہ پر جبر کا آلہ رہی، بہر حال اسکی شکلیں ہر نظام میں مختلف ضرور تھیں۔

انسانی سماج کے ارتقاء کے ساتھ ذرائع پیداوار میں اضافہ ہوا اور سرمایہ داری کے جنم کے ساتھ پرولتاریہ کا جنم ہوا جو نہ صرف سرمایہ داری کا گورکن ہے بلکہ طبقاتی سماج کا بھی گورکن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ذرائع پیداوار میں ہونے والی تیز ترین ترقی ہمیں پوری انسانی تاریخ میں دیکھنے کو نہیں ملتی، ان جدید ذرائع پیداوار پر محنت کش طبقے کا عملی کنٹرول ہی اسے سماج کا واحد ترقی پسند اور انقلابی طبقہ بنا دیتا ہے۔ مگر محنت کش طبقے کو انقلاب میں کامیابی، نئے نظام سوشلزم کی تعمیر اور کمیونزم کی طرف سفر کے لیے سائنسی نظریات سے لیس انقلابی پارٹی کی قیادت درکار ہوتی ہے۔ ایک ایسی پارٹی کی ضرورت جس کے پاس حکمران طبقے سے لڑنے کا پروگرام موجود ہو۔ اسی لیے انقلاب کے دوران ریاست کا سوال نظریاتی سوال سے بڑھ کر عملی اور مادی سوال بن کر سامنے آتا ہے جیسا کہ 1917 کے روسی انقلاب میں ہمیں نظر آیا۔ انقلاب کے دوران سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ اور مزدور ریاست یا پرولتاریہ کی آمریت کا قیام ہی انقلاب کی فتح کی ضمانت ہے۔ محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کر کے ذرائع پیداوار کو مزدور ریاست کے قبضے میں لے کر ریاست کے تاریخی کردار کو اپنے الٹ میں تبدیل کر دے گا۔ مزدور ریاست مٹھی بھر اقلیت کے دفاع کے بطور اپنی مکمل حیثیت کھو دے گی اور محنت کش طبقہ جو سماج کی اکثریت ہے انکی نمائندگی کرے گی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اکثریت کی اقلیت کو دبانے کا ایک آلہ۔ اس کے لیے مزدور ریاست کو پرانی ریاستی مشینری کو تباہ کرنا بہت ضروری ہے وگرنہ سابقہ حکمران طبقہ اس (پرانی) ریاستی مشینری کی بدولت دوبارہ طاقت حاصل کر لے گا۔

مزدور ریاست کا قیام سماج میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ کر دے گا کیونکہ پرولتاریہ کی آمریت نجی ملکیت اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے سرمایہ دار طبقہ کا خاتمہ کر تے ہوئے بطور ایک طبقہ اپنے آپ کو بھی ختم کرے گا۔ اس کے بعد راول نے سرمایہ داری سے کمیونزم کی طرف سفر میں عبوری دور یعنی سوشلزم میں مزدور ریاست کے آہستہ آہستہ منہدم ہو جانے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی اور اس عمل میں موجود پیچیدگیوں پر بات کی۔

اس کے بعد سوالات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ سوالات کی روشنی میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے فرحان رشید نے ریاست کے وجود اور کردار کے بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریاتی ابہام جنہیں حکمران طبقہ شعوری طور پر سماج میں پھیلاتا ہے، پیٹی بورژوا نظریات کے حامل روسی انقلابیوں کے اس سوال پر موقف، جرمن سوشل ڈیموکریسی اور اسکے لیڈر کارل کاوتسکی کے ریاست کے متعلق غلط نظریات پر بات اور آج کے دور میں لبرلز کا موقف واضح کیا۔

اس کے بعد فضیل اصغر نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے انقلاب میں انقلابی پارٹی کے فیصلہ کن کردار پر زور دیا۔ اسکے ساتھ ساتھ سادہ الفاظ میں ریاست کیا ہوتی ہے، اس کا مقصد کیا ہوتا ہے اور اسکے مکمل خاتمے کے عمل پر بات کی۔ آخر میں سرمایہ داری کے موجودہ بحران کے نتیجے میں مختلف سرمایہ دارانہ ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ اور بالخصوص پاکستانی ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور ریاست کے سوال پر محنت کش طبقے کے شعور میں رونما ہونے والے اہم نتائج پر بات کی۔

آخر میں ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے راول نے سوالات کا جواب دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.