طلبہ تحریک میں مارکسزم اور فیمینزم کے رجحان

|تحریر:مارکسسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن، برطانیہ|
|ترجمہ:انعم پتافی|

فیمینزم کو روایتی طور پر یونیورسٹیوں میں پذیرائی میسر آتی رہی ہے اورآج کل بھی طلبہ میں یہ نظریات کافی شہرت حاصل کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب مارکسزم کے نظریات بھی طلبہ تحریک میں تیزی سے بنیادیں حاصل کر رہے ہیں،تو اس کیفیت میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ مارکسسٹوں کا فیمینزم کے مختلف نظریات کی جانب کیا رویہ ہونا چاہیے؟ یہ مکاتبِ فکر کس حد تک مماثلت رکھتے ہیں؟ ان کے اندر متضاد نکات کیا ہیں؟ اور خود کو مارکسسٹ-فیمینسٹ کہنے کا کیا مطلب ہے؟

فیمینسٹوں کی طرح ہم مارکسسٹ بھی عورت پر ہونے والے جبر کے خاتمے کی لڑائی لڑتے ہیں، لیکن ہم اس لڑائی کو جبر کی تمام اقسام کے خلاف ہونے والی لڑائی کے حصے طور پر دیکھتے ہیں۔ یوٹوپیائی سوشلسٹ فلورا ٹرسٹن نے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں واضح کیا تھا کہ عورت کی نجات کی لڑائی طبقاتی جدوجہد سے علیحدہ نہیں کی جا سکتی۔مارکس اور اینگلز نے ٹرسٹن کے کچھ نظریات کو کیمونسٹ مینی فیسٹو کا حصہ بنایا اور اینگلز ’’خاندان ،ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ تحریر کرنے کی طرف گیا، جس میں اس نے علم البشر یات(Anthropology) کے مہیا کئے گئے شواہد کی روشنی میں یہ واضح کیا کہ کس طرح عورت پر جبر کا آغاز ہو ااور اس کا خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے۔

جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے بانی آگسٹ بیبل نے اپنی کتاب ’’سوشلزم کے تحت خواتین‘‘ میں اس سوال پر مزید روشنی ڈالی اور لیون ٹراٹسکی نے ’عورت اورخاندان‘ کے عنوان سے تحریر کئے گئے اپنے سلسلہِ مضامین میں اس کو مزید ترویج دی۔ سوشلسٹ تحریک کی اعلیٰ شخصیات جیسا کہ روزا لکسمبرگ، کلارا زٹکن اور الیگزنڈرا کولنتائی نے سوشلسٹ جدوجہد کی طاقت سے جنسی تعصب کے خاتمے کو عملاََ ثابت کیا۔ فروری 1917ء میں پیٹروگراڈ کی محنت کش خواتین کا کردار، 1988ء میں مشرقی لندن میں کھیلوں سے وابستہ لڑکیاں اور 1984-5ء میں کان کنوں کی بیویاں، یہ اُن بے شمار مثالوں میں سے چند ایک ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محنت کش خواتین نے طبقاتی جنگ میں کتنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے اہم 1917ء کے انقلاب کے بعد کے ابتدائی سالوں میں بالشویکوں کی وہ کامیابیاں ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ سوشلزم کے تحت خواتین پر ہونے والے جبر کے خاتمے کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں۔

طبقاتی جدوجہد

عورت پر ہونے والے جبر کے سوال پرمارکسزم کی، یہ اور ایسی کئی دیگر عملی کامیابیوں کی مثالیں موجود ہیں جو مزدور تحریک اور سوشلزم کی جدوجہد کے درمیان موجود اٹوٹ بندھن کو ثابت کرتی ہیں۔ جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے واضح کیا تھا کہ ’’اب تک موجود تمام سماجوں کی تاریخ، در حقیقت طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔‘‘

مظلوم اور ظالم کے مابین جنگ — یہ ایک تعلق جو معاشی عمل میں ہر فرد کے ذاتی کردارسے ظاہر ہوتا ہے– یہ تعلق ہی کسی بھی مخصوص سماج کے نظریے، اداروں اور اس کے تعصبات کی بنیاد ہوتے ہوئے اسے چلایا کرتا ہے۔ اسی لیے ہمیں جنسی تعصب کے ابھار کے سوال کو طبقاتی سماج کی موجودگی کے اندر سمجھنا چاہیے، نہ کہ خود ساختہ طور پر مرد یا عورت کے موروثی خصائل کے اندر۔ اسی لیے مارکسسٹ مظلوموں کی جانب سے طبقاتی جنگ کا حصہ بنتے ہیں تا کہ ہر طر ح کے استحصال کے حالات اور جبر کی سبھی اقسام بشمول جنسی تعصب پر مبنی جبر(جسے طبقاتی سماج خود پروان چڑھاتا ہے) سمیت ہر طرح کے جبر کا مقابلہ کر سکیں۔

تو آخر کس طرح طبقاتی معاشرے کی جدید قسم، یعنی سرمایہ دارانہ نظام، جنسی تعصب اور عورت پر جبر کو مسلسل جاری و ساری رکھتا ہے۔ سرمایہ دارارانہ نظام، بنیادی معاشی یونٹ کے طور پر خاندان کے ادارے پر انحصار کرتا ہے اور اسی لیے سماج میں عورت پر ہونے والے استحصال پر بھی انحصارکرتا ہے، جس سے گھر کو مفت کی محنت میسر ہو جاتی ہے۔ یہ کم تنخواہوں والی خواتین کو بھی استعمال کرتا ہے تاکہ تمام محنت کش طبقے کے حالاتِ زندگی اور اجرتوں کو مزید گرایا جا سکے۔

اس لیے مارکسسٹ سوشلزم کی دلیل دیتے ہیں، جس سے گھریلو محنت کو سماجی ذمہ داری میں تبدیل کرتے ہوئے، اجرتی محنت کے ذریعے ہونے والے استحصال کا خاتمہ کر دیا جائے گا جیسا کہ 1917ء کے بعد روس میں درست ثابت ہوا تھا۔ دوسرے لفظوں میں سوشلزم کی جدوجہد، عورت پر ہونے والے جبر کی مادی بنیادیں ختم کر دیتی ہے۔ یہ جدوجہد، پیداواری عمل میں ان کے خاص کردارہونے کی وجہ سے، اجتماعی طور پر صرف محنت کش طبقے کے ذریعے ہی آگے بڑھائی جا سکتی ہے، اسی لیے مارکسسٹ طبقاتی جدوجہد کا خصوصی طور پر سرگرم حصہ بنتے ہوئے تحریکوں، مزدوروں اور نوجوانوں کی عوامی تنظیموں میں مداخلت کرتے ہیں تاکہ محنت کش طبقے کے استحصال اور عورت پر جبر کا خاتمہ کیا جا سکے۔

مثبت امتیاز(Positive Discrimination)

کچھ فیمینسٹ ٹریڈ یونینوں، سیاسی پارٹیوں، طلبہ تنظیموں اور محنت کش طبقے کے لیے جدوجہد کرنے والی دیگر تنظیموں کی طرف معاندانہ رویہ اپناتے ہیں۔ مثال کے طور پر اناکوٹی اور بیٹرکس کیمبل نے اپنی کتاب ’’سویٹ فریڈم: دی سٹرگل فار ویمنز لبریشن‘‘ میں ٹریڈ یونینز کو ’پدرشاہی نظام‘ کا حصہ اور ہڑتال کو ’’مسئلہ حل کرنے کا‘‘ ایک متروک شدہ طریقہ کہا ہے۔ اناکوٹی اور بیٹرکس کیمبل، یہ مطالبہ کرنے کی بجائے کہ سماجی دولت میں سے مجموعی طورپر محنت کش طبقے کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے، وہ محض عورت مرد کے مابین برابر تنخواہ کا مطالبہ کرتی ہیں۔ بجائے، خود یونین بیوروکریسی کو چیلنج کرنے کے، جوکہ زائد تنخواہوں کے حصول میں محنت کش طبقے کے راستے کی رکاوٹ ہے، یہ مزید خواتین کوبیوروکریٹس بنانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

ان تنظیموں کا زیادہ تر اوپری ڈھانچہ مردوں پر مشتمل ہے جو کہ مجموعی طور پر معاشرے میں موجود عورت پر ہونے والے جبر کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی لئے کئی فیمینسٹ جنسی برابری کو پروان چڑھانے کی خاطر ایسے اداروں کے بالائی ڈھانچوں میں مردوں اور عورتوں کی برابر نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس پالیسی کو برطانوی لیبر پارٹی کی ڈپٹی لیڈر ہریٹ ہرمن کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ اس سلسلے کو چلانے کا مقصدیونینز اور پارٹیوں میں مثبت امتیاز(Positive Discrimination) کی پالیسی کو پروان چڑھانا ہے جس میں خواتین کے لیے کم از کم کچھ منتخب نشستیں اور اجلاسوں کے دوران خاتون مقررین کے لیے مخصوص وقت مختص کیا گیا ہے۔

اس قسم کے حربے اصل مسئلے کو سر کے بل کھڑا کر دیتے ہیں۔ عورت کا استحصال طلبہ تنظیموں، ٹریڈیونینز، سیاسی جماعتوں اور دیگر عوامی تنظیموں میں موجود مردانہ اجارہ داری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس مردانہ اجارہ داری کی وجہ طبقاتی سماج کے ساتھ جڑا جنسی تعصب ہے۔ مزدوروں کو جوڑتے ہوئے یہی یونینز ہی اس طبقاتی معاشرے کا خاتمہ کر سکتی ہیں، اور اسی ذریعے سے ہی عورت کے استحصال کا بھی خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک ایسی مثالی یونین کی تشکیل جو کہ ’’خالص ہو‘‘ اور کسی بھی طرح کے تعصب سے پاک ہو، خود اپنے اند ر یہ کوئی حل نہیں ہے، بلکہ در حقیقت ایسی مثالی یونین تب تک وجود میں آ ہی نہیں سکتی جب تک پورے معاشرے کو اس کی بنیادوں تک تبدیل نہ کر دیا جائے۔

در حقیقت اس قسم کے طریقہ کا ر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ یونینز اور سیاسی جماعتیں عورت کے استحصال اوردیگر تعصبات کے خلاف اس وقت تک کارگر ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک یہ مخلص اور متحرک مزدور نمائندوں کے ذریعے نہیں چلائی جاتیں اورجب تک یہ جرأت مند سوشلسٹ پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہوپاتیں۔۔۔یہ خصلتیں مرد یا عورت کے حوالے سے مخصوص نہیں ہیں۔

اس کو حاصل کرنے کے لیے قائدین کا انتخاب ان کی سیاست کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ ان کی جنس کی بنیاد پر، اندرونی بحثوں کا تعین مقررین کے سیاسی مواد اور نکات کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ ان کی جنس بنیاد پر۔ مارگریٹ تھیچر کی سیاست کا اظہار اس کی جنس کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے طبقاتی کردار کی بنا پر ہوتا تھا۔ یہی بات جرمن چانسلر اینجلا مرکل اور آئی ایم ایف کی ہیڈ کرسٹین لیگارڈ کے حوالے سے بھی سچ ہے۔ ایسے لوگوں کے خیالات مزدورں اور خاص کر عورتوں کے لیے سوائے تکلیفوں کے اور کچھ نہیں دیتے اور محنت کش طبقے کو اس بات کا رتی بھر بھی فرق نہیں پڑتا کہ ان کا استحصال مرد کی بجائے عورت کر رہی ہے۔

ہر متحرک سیاسی کارکن یہ جانتا ہے، جیسا کہ تاریخ نے بھی ثابت کیا ہے کہ محنت کشوں کی عوامی تنظیموں، خواہ وہ یونین ہو یا پارٹی، کے اندر انقلابی نظریات کی سیاسی لڑائی کو جیتنا آسان نہیں ہوتا۔ لوگوں کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کردہ واضح سیاسی پوزیشنز سمجھانے کے لیے مستقل مزاجی اور صبر آزما طریقے سے کام کرنا پڑتا ہے۔ محنت کش طبقے کی عوامی تنظیموں میں انقلابی سوشلسٹ نظریات کی جانب ہر قدم بیش قیمتی ہوتا ہے۔

وہ لوگ جو مثبت امتیاز کی پالیسیوں کا راگ الاپتے ہیں، وہ اس جدوجہد کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ سوشلسٹ مقاصداور ان کے حصول کے لیے اپنائے جانے والے طریقہ کار کی بجائے یہ لوگ قانونی راستے اختیار کرتے ہیں اور رسمی بنیادوں پر جنسی برابری کے حصول کی کوشش کرتے ہیں، جو اپنی فطرت میں ہی سیاسی وضاحت اور نظریاتی بنیاد سے عاری ہیں۔ یہی فرق ہے، ان نظریات کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے میں، جو محنت کش طبقے کو اجتماعی طور پرآزاد کر وا سکتے ہیں اور اس جدوجہد کے مابین جس سے یونینز اور سیاسی پارٹیوں میں بیوروکریسی کو دوبارہ منظم کیا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک میں معاشرے کی بنیادوں کو بدلنے کی انقلابی صلاحیت موجود ہے جبکہ دوسرامحض مٹھی بھر بیورکریٹس کے لیے بہتر مستقبل کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکتا۔ یہ لڑائیاں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے مددگار ثابت ہوتی ہیں، بلکہ دوسری لڑائی پہلی کو محض کمزور کر سکتی ہے۔

مارکسسٹ ہونے کی بنیاد پر ہم اپنی توجہ یونین بیوروکریسی کے ڈھانچوں پر نہیں مبذول کر سکتے۔ ہمیں عام طلبہ اور مزدوروں کو سوشلزم کے نظریات کی جانب جیتنے میں دلچسپی ہے۔ در حقیقت، بیوروکریسی عام محنت کشوں کے مقابلے میں متضاد چیزہوتی ہے۔ یہ محنت کشوں کے بدلتے ہوئے شعور اور ضروریات کے ساتھ تبدیل ہونے کی بجائے مزدور تنظیموں کو آلۂ کند بنا دیتی ہے، یونین عہدیداران کو عام محنت کشوں کے حالات سے بیگانہ کر دیتی ہے اور یوں تحریک میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔

آج اس عمل کوہوتا دیکھنے کے لیے، ہمیں صرف ٹریڈ یونینز اور خاص کر لیبر پارٹی کو دیکھنا ہی کافی رہے گا۔ یونین بیوروکریسی ایسا کردار اس وجہ سے ادا نہیں کرتی کہ اس میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے اورنہ ہی ان میں مزید خاتون بیوروکریٹس شامل کرنے سے یہ تحریک میں رکاوٹ ڈالنے والا اپنا کردار ختم کر دے گی۔’’اچھی بیوروکریسی‘‘ کے حصول کی مہم میں اپنی توانائیاں خرچ کرنا، سوشلزم کے انقلابی نظریات کے لئے ہماری لڑائی کو کمزور کرے گا جو کہ خواتین سمیت تمام محنت کشوں کی نجات کی ضمانت دیتے ہیں۔

شعور اجاگر کرو!

کئی فیمینسٹ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جنسی برابری کے لیے صرف مثبت امتیاز کا طریقہ کار ہی کافی ہے۔ درحقیقت، کئی فیمینسٹ، بشمول کالم نگار لوری پینی، اس بات پر متفق ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے معاشرے میں طبقاتی بنیادوں پر مبنی بنیادی نوعیت کی تبدیلی درکار ہے۔ بہرحال، پینی اور دیگر یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ مسئلے کی وجوہات پر بات کئے بغیر بھی اس کی علامات پر حملے کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اس سے عورت پر جبر کے متعلق، عوامی شعور میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایوری ڈے سیکس ازم (Everyday Sexism) پروجیکٹ اور ’’اینٹی بلرّڈ لائنز‘‘ (anti-Blurred Lines ) مہم اور ’’نو مور پیج تھری‘‘ (No More Page 3) مہم کے پیچھے یہی دلیل دی جاتی ہے، اس قسم کی مہم کا مقصد، استحصال کے مسئلے کو حل کرنا یا معاشرے میں عورت کو تجسیم کرنے (Objectification) کے عمل کا خاتمہ کرنا نہیں ہے بلکہ معاشرے کو اس کے متعلق شعور دینا اور ان مخصوص لڑائیوں میں خواتین کی ایک محدود تعداد کو چھوٹی چھوٹی کامیابیاں دلوانا ہے۔

لیکن ان چھوٹی مہمات کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے اُن طریقوں اور نظریات کے متعلق خوش فہمیاں پیدا ہونا شروع جاتی ہیں جو کہ مسئلے کا حل ہی نہیں ہیں۔ لوگوں کو صرف یہ بتانے سے کہ خواتین استحصال کا شکار ہیں، ان کا استحصال ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔ محض آگاہی دینا بھی صرف اس وقت ثمر آور ہو سکتا ہے کہ جب وہ بڑی عوامی مہم کا حصہ ہوکہ جس نے واقعتا مسئلے کا کچھ نہ کچھ حل کرنا ہو۔ ایک طرف ایسے فیمینسٹ پروفیسروں اور صحافیوں کی کوئی کمی نہیں جو خواتین کے مسائل کے حوالے سے شعور کو اجاگر کرتے ہیں اور عورتوں پر جبرکے خاتمے کے لیے طرح طرح کے حل پیش کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف ایسی عوامی مہمات بہت کم ہیں جو ان مسائل کو جڑ سے اکھاڑنے کی بات کرتی ہوں۔ مثال کے طور پر جو مہمات وجود رکھتی ہیں وہ میڈیا میں جنسی تعصب کی ایک مثال تک محدود ہیں یا پھر موسیقی کی صنعت تک، جن کے پاس مجموعی طور پر جبر کے خاتمے کے لیے کوئی حل موجود نہیں ہے۔

اس قسم کے چھوٹے مطالبات، مہمات میں انتہائی رجعتی رحجانا ت کو پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’نو مور پیج تھری‘‘ (No More Page 3) کی بانی، اخبا ر ’دی سن‘ (The Sun ) کوایک ایسا اخبار سمجھتی ہے کہ جس پر اسے ’’ناز‘‘ ہے اور اس میں پیج تھری نکال کر اسے مزید بہتر کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود کہ اس کے باقی سبھی صفحات نسلی و جنسی تعصبات، ہم جنس پرستوں کے خلاف نفرت اور مزدور دشمن مواد سے بھر ے ہوتے ہیں۔ مسائل کے حل کی خاطر ان مہمات سے خوش فہمیاں وابستہ کر لینے سے اچھے متحرک کارکنوں کی توجہ معاشرے کی انقلابی تبدیلی کے کام سے ہٹ سکتی ہے۔

انقلاب کا انتظار کریں؟

توکیا مارکسسٹ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جنسی تعصب کے خاتمے کے لیے عورتوں کو سوشلسٹ انقلاب کا انتظار کرنا چاہیے؟ بالکل نہیں! جنس، نسل اور ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر محنت کش طبقے کے اتحاد اور مشترکہ سوشلسٹ مقاصد کے لئے جدوجہد سے ہی اس تعصب کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ سوشلزم کی جدوجہد مزدوروں کی طاقت پر انحصار کرتی ہے، مرد یا خواتین مزدوروں کی طاقت پر نہیں بلکہ سبھی مزدوروں پر۔ اگر ایسی جدوجہد شروع ہوتی ہے تو اس میں سبھی مزدور فیصلہ کن کردارادا کریں گے، مرد مزدوروں کی فتح، خواتین مزدور وں کی جانب سے جدوجہد میں بھرپور حصہ ڈالے بغیر نا ممکن ہے۔ سوشلسٹ معاشی نظام، خواتین پر جبر کی مادی بنیادیں ختم کر دے گا اور اس معاشی نظام کو استوار کرنے کی جدوجہد کے دوران جنسی تعصب کا خاتمہ کر دیا جائے گا جس سے عملاََ مرد اور عورت کی برابری ثابت ہوگی۔

مثلاً، برطانیہ میں کان کنوں کی ہڑتال کے دوران، کان کنوں کی بیویوں کی دھواں دار تقریریں سننے، مارگریٹ تھیچر کی وحشت کے سامنے ان کو جراتمندی سے ڈٹے رہتا دیکھ کر اور ان کی چندہ اکٹھا کرنے کی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے، مردانہ حاکمیت پر مبنی کان کنوں کی تنظیموں نے خواتین کے خلاف اپنے لٹریچر میں موجود جنسی تعصب کے لہجے پر مبنی مواد کو خارج کرنے کے لیے ووٹ دئیے۔مزدوروں کی جانب سے خواتین کو اپنے متحرک اور قابل اعتماد ساتھیوں کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا، جو کہ قابل عزت اور برابری کے رویے کی مستحق تھیں۔ خواتین کی یہ قوت محض اس کے بارے میں بات کرنے کی وجہ سے نہیں بنی تھی بلکہ یہ اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی محنت کشوں کی تنظیم بنانے سے ممکن ہوئی جس میں مرد اور خواتین دونوں شامل تھیں ۔

مارکسسٹوں کو ایسا کوئی مغالطہ نہیں کہ انقلاب کے فوری بعد ہم ایک جبر سے پاک معاشرے میں رہنا شروع کر دیں گے۔ ماضی کی روایتیں جدید معاشرے کے کاندھوں پر پہاڑ جیسا بوجھ ہوتی ہیں۔ طبقاتی سماج اور عورت کا استحصال پچھلے دس ہزار سالوں سے چلا آ رہا ہے اور پلک جھپکتے ہی ان روایتوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی لائی جائے، یعنی کناروں کی مرمت کرنے کی بجائے سارے نظام کو اتھل پتھل کیا جائے۔ معاشرے کو اس کی جڑوں تک ہلائے بغیر ان فرسودہ روایتوں کے ا رتکاز کے خاتمے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ایک مسلسل عمل جس سے ہم پرانے تعصبات سے پاک ایک دنیا تعمیر کریں گے، سوشلسٹ انقلاب کے مختصراً یہی معنی ہیں۔
وہ سبھی افراد جو عورت پرجبر کا خاتمہ چاہتے ہیں، ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ طلبہ اور مزدور تحریکوں میں سوشلسٹ پالیسیوں اور عوامی مہمات کے لیے جدوجہد کریں۔ محنت کشوں کی نجات اور صنفی برابری، دونوں ہی محنت کش طبقے کی یکجہتی اور سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

انٹر سیکشنلیٹی (Intersectionality)

انٹر سیکشنلیٹی، فیمینزم سے اخذکردہ نقطہ نظر ہے، جو بتاتا ہے کہ جبر کی سبھی اقسام آپس میں جڑی ہوئی ہیں اس لیے سبھی لوگوں کو مختلف کیفیات میں مختلف اقسام کے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ باقی افراد سے کس طرح منسلک ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سیاہ فام عورت کو ایک ہم جنس پرست گورے مرد کے مقابلے میں مختلف قسم کے جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو جبر ایک معذور انسان کو سہنا پڑتا ہے وہ ان دونوں سے بھی مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہ تجزیہ واضح طور پر درست ہے۔

یہ نظریات کافی عرصے سے موجود تھے، لیکن انہیں کمبرلے کرنشا نے 1990ء کے اوائل میں اور ماہرِ سماجیات پیٹریشیا ہلز کولن نے واضح طور ترویج دی۔ جبر سے متعلق اس نقطہ نظر سے منسلک یہ اور کئی دیگر افراد اسی وجہ سے تحریک کے اندر مخصوص گروہوں کی صنف، نسل اور جنس کی بنیاد پر ہونے والی تفریق کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کو سمجھنے کے لیے ایک اہم اوزار کے طور پر طبقات کے نقطہ نظر کو بھی متعارف کرواتے ہیں۔ اس لیے دیگر فیمینسٹوں کی نسبت یہ مارکسزم سے زیادہ قریب نظر آتے ہیں، بلکہ کولن تو خود کو ’’مارکسسٹ-فیمینسٹ‘‘ کہتی ہے۔

بہرحال، انٹرسیکشنلیٹی، جبر کو انفرادی سطح پر لاتے ہوئے ذاتی تجربے تک محدود کر دیتی ہے، ایسا جبر جو صرف وہی شخص ہی محسوس کر سکتا ہے جو اس کا شکار بن رہا ہو۔ وہ اس لیے کیونکہ ہر انسان کو بالکل منفرد جبر کا تجربہ ہوتا ہے اس لیے صرف وہی انسان ہی سمجھ سکتا ہے کہ اس سے لڑنے کا بہترین طریقہ کیا ہو گا۔ اس قسم کی انفرادیت عوامی تحریکوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے کہ جس میں سب اپنے اپنے منفرد جبر کے خلاف برسرِپیکار ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ ان کے ساتھ غیر متحرک انداز میں محض یکجہتی ہی کرسکتے ہیں۔ اس لیے طلبہ تحریک میں موجود انٹر سیکشنلیٹی، محض تجزیے کے طریقہ کارسے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک مکتبۂ فکر کے طور پر یہ عملی تبدیلی کی خاطر بڑی عوامی تحریک کی تیاری میں تھوڑا بہت ہی مددگار ثابت ہوتا ہے۔

انٹرسیکشنلیٹی محنت کش طبقے(جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں) کے تجربے اور ساری خواتین کے تجربے کے درمیان موجود معیاری فرق کو سراہنے میں ناکام ہوئی ہے۔ محنت کش محض جبر کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ایک طبقے کے طور پر ان کا استحصال ہوتا ہے جس سے بورژوازی کو معاشی فائدہ ملتا ہے۔ ساری خواتین کا ایک طبقے کے طور پر معاشی استحصال نہیں ہوتا کیونکہ ساری خواتین ایک طبقے سے تعلق نہیں رکھتیں۔ پورے محنت کش طبقے پر ہونے والے بڑے استحصال کو جاری رکھنے کے لیے سر مایہ داری نظام عورت پر جبر کرتا ہے۔

اس لیے مارکسسٹ کہتے ہیں کہ انٹرسیکشنلیٹی کے ماننے والے معاشرے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے طبقے اور جنس کو قابلِ موازنہ سمجھ کر غلطی کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام منافع کے حصول کے لیے محنت کشوں کا استحصال کرتے ہوئے چلتا ہے اس لیے سرمایہ داری کے تحت چلنے والے معاشرے کا مدار طبقاتی جدوجہد کے گرد گھومتا ہے۔ خواتین پر ہونے والا جبر، اسی استحصال کی پیداوار ہے اور اس کا خاتمہ بھی محنت کش طبقے کی نجات کی لڑائی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نٹرسیکشنلیٹی الگ تھلگ انفرادیت جبکہ مارکسزم محنت کش طبقے کی جڑت کا حل پیش کرتاہے۔

فیمینزم اور جمہوری مطالبات

فیمینزم کے ابتدائی نظریات میری وولسٹون کرافٹ جیسی شخصیا ت اور جمہوری حقوق کے مطالبات کے گرد ابھرے تھے جس میں ووٹ، اسقاطِ حمل، کام کرنے اور برابر اجرت جیسے حقوق شامل تھے۔ بہت سے ممالک میں ان حقوق کا حصول ابھی باقی ہے لیکن برطانیہ میں یہ حاصل کئے جا چکے ہیں اور یہاں ایسا کو ئی قانون نہیں جو خواتین سے امتیازی سلوک کو روا رکھتا ہو۔ قانونی برابری بڑی حد تک حاصل کی جا چکی ہے۔

یہ حقوق حاصل کرنے کے باوجود بھی خواتین کو معاشرے میں جبر اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ہیریٹ ہرمن سے لے کر لوری پینی جیسی ماڈرن فیمینسٹ، رسمی طور میسر قانونی برابری سے آگے کے مطالبات کر رہی ہیں، جیسا کہ مثبت امتیاز، یا پھر ایسے اقدامات جو کہ حقوق کے حصول کے لیے تو نہیں لیکن ان حقوق سے آگاہی حاصل کرنے لیے ہوں، جو خواتین کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔

اس قسم کی پالیسیوں کی مخصوص حدود کی تنگی سے متعلق پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے۔ مارکسزم وضاحت کرتا ہے کہ فیمینزم اور اس کی دیگر شکلوں کے یہ مطالبات جمہوری نوعیت کے ہیں۔۔۔اور اس پر بھی بورژوا جمہوری نوعیت کے۔ مثال کے طور پر دنیا کے متعلق ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس میں مرد اور عورت، دونوں پر جبر کیا جاتا ہے اور سرمایہ داری کے تحت دونوں کا ہی استحصال کیا جاتا ہے۔

سرمایہ داری کے تحت یہ صنفی برابری نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ایک یوٹپیائی نظریے کے طور پر بھی متاثر کن نہیں ہے۔ آزاد خیال فیمینسٹ کمپنیوں کے بورڈ رومز میں زیادہ خواتین کی نمائندگی چاہتے ہیں جبکہ مارکسسٹ خود بورڈ رومز کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی طرح کچھ فیمینسٹ چاہتے ہیں کہ گھریلو کام کاج کو مردعورت میں برابر تقسیم ہونا چاہیے جبکہ مارکسسٹ گھریلو کام کو پورے معاشرے کی ذمہ داری میں تبدیل کرنا چاہتے اور اس غیر ادا شدہ اجرت والی محنت کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔

دیگر سبھی جمہوری مطالبات کی طرح ، مارکسسٹ، فیمینسٹ مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ہمیں ان مطالبات کے گرد ہونے والی لڑائی کو سوشلسٹ انقلاب کے سوال سے نہ جوڑنے کی حدود کی نشاندہی بھی کرنی چاہیے۔ ہمیں ایسی مخصوص بحثوں کو، پورے معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی کی زیادہ اہمیت کی حامل بحث پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے۔

مثال کے طور پر، اپنی یادداشتوں میں، جرمنی کی کمیونسٹ اور خواتین کے عالمی دن کی بانی، کلارا زیٹکن، 1920ء میں لینن سے خواتین کے سوال پر ہونے والی اپنی طویل ملاقات کو یاد کرتی ہیں۔ لینن نے عورت کی نجات کے سوال پر، جرمنی کے کمیونسٹوں کی تربیت کرنے پر کلارہ کو مبارکباد دی۔ لیکن لینن نے یہ بھی واضح کیا کہ روس میں ایک انقلاب برپاہوچکا ہے، جس سے ایک ایسے معاشرے کی بنیادیں ڈالی جا سکتی ہیں جو عملی طور پر خواتین کی نجات کو ممکن کر سکتا ہے۔ لینن نے وضاحت کی کہ ایسے وقت میں فرائیڈ اور جنسی مسائل جیسی بحثوں پر بہت زیادہ وقت لگانا درست نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کا پہلا پرولتاری ا نقلا ب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے تو ان حالات میں جنسیات اور ماضی میں موجود شادی کی اقسام پرہونے والی بحثوں میں کیونکر وقت صرف کیا جا رہاہے؟

یہ فیمینزم اور اس کے مطالبات کی مارکسی سمجھ بوجھ پر مبنی ایک مثال ہے۔ سرمایہ داری کے تحت خواتین پر ہونے والے جبر اور اس کے خاتمے کے لیے سوشلزم کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے، محنت کش خواتین کو جن مسائل کاسامنا ہے، ان کے ذریعے پورے محنت کش طبقے کے شعور میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ لیکن ہم عورت کی آزادی کو ایک ایسی الگ تحریک کے طور پرپنپنے نہیں دے سکتے جو محنت کش طبقے کو تقسیم کردے۔ مارکسسٹ، محنت کش طبقے کی یکجہتی اور سوشلزم کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے مقصد کو اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔

برطانیہ جیسا ملک کہ جہاں فیمینزم کے بورژوا جمہوری مطالبات اپنی حدوں کو چُھو رہے ہیں، وہاں موجود طلبہ اور مزدور تحریکوں کے تنظیمی ڈھانچوں میں یہ بحثیں عام پائی جا رہی ہیں کہ کس طرح سے صنفی سوال کو سیاسی سوالوں پر ہونے والی بحثوں سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

1860ء کے بعد، معیار زندگی پر ہونے والے سب سے بڑے حملوں کا شکار ہونے کے بعد، طلبہ اور محنت کشوں کو مظاہروں، احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے اپنے معیار زندگی کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ابھی بھی، طلبہ یونینز یا متحرک کارکنوں کے اجلاسوں میں شریک ہونے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایسے اجلاسوں میں، ’’محفوظ ماحول‘‘، دوسروں کو مخاطب کرتے ہوئے ’کی‘ یا ’کا‘ درست استعمال، منتخب ڈھانچوں میں درست صنفی تعداد کی موجودگی یا اس بات پر مباحثے کہ کون سے گیتوں میں خواتین سے نفرت انگیز جذبات موجود ہیں اور ان پر پابندی ہونی چاہیے، جیسے نکات پر مباحث میں بہت زیادہ وقت صرف کیا جاتا ہے۔

ان مباحث کی بجائے اگر یہ تنظیمیں اور تحریکیں، لوگوں کو سوشلزم کے نظریات کے گرد اور کٹوتیوں (جس سے خواتین شدید متاثر ہوتی ہیں) کے خلاف جوڑنے کے لیے مباحث کرتیں، تو اس سے یہ صنف ، نسل، جنس اور دیگر تمام تعصبات سے مبرا، طلبہ اور مزدوروں کو ایک لڑائی میں سمونے میں کامیاب ہو جاتیں۔ اس قسم کی جدوجہد میں ہر فرد اہم کردار ادا کرتا ہے اور سوشلزم کے لیے لڑائی میں کسی قسم کی جسمانی خصوصیات اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں۔ طبقاتی جدوجہد کی حدت سے ہی تمام تر تعصبات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

’’مارکسسٹ-فیمینسٹ‘‘

بہت سارے نوجوان، کچھ تنظیموں کے (بشمول کچھ بائیں بازو ) جنسی تعصب پر مبنی رویوں کے ردعمل کے طور پر خود کو بیک وقت، عورت کی آزادی کے علمبردار اور محنت کش طبقے کے نجات دہندہ کے طور پر خود کو مارکسسٹ-فیمینسٹ سمجھتے ہیں۔ یہ رحجان خاص طور پر امریکہ میں 1960ء کی دہائی کے اواخر میں، ’ریڈیکل ویمن آرگنائزیشن‘ کی گلوریا مارٹن اور سوزن سٹرن کی قیادت میں پروان چڑھا۔

تاہم، حقیقی مارکسسٹوں کے لیے، لفظ ’فیمینسٹ‘ کے اضافے سے ہمارے نظریات پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جیسا کہ اوپر بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خواتین اورجبر کے شکار سبھی گروہوں کے لیے جدوجہد کئے بغیر کوئی مارکسسٹ نہیں ہو سکتا۔ یوں توکوئی شخص سوشلزم کی جدوجہد کے اور خواتین کے حقو ق کی لڑائی کے ہمراہ نسل پرستی کے خلاف لڑنے کے لیے خود کو ’’مارکسسٹ-فیمینسٹ-اینٹی ریسسٹ‘‘ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ بائیں بازو کے ان مخصوص افراد کے لیے باعثِ شرمندگی ہے کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان سب مقاصد کا امتزاج مارکسی نظریات کا بنیادی اصول ہے۔

اسی جہ سے ’فیمینسٹ‘ کا اضافہ غیر ضروری اور غیر سائنسی ہے۔ درحقیقت یہ الٹا مضر بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اس قسم کے فیمینسٹوں کے چند نظریات مثلاً ’مثبت امتیاز‘ محنت کش طبقے کی یکجہتی اور سوشلزم کی جدوجہد کو توڑنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے متضاد نظریات کی مارکسزم میں آمیزش صرف ابہام اور بے راہروی کا باعث ہی بن سکتی ہے۔ جبکہ بلاشبہ ایسے مارکسسٹ ضرور ہوتے ہیں جو خواتین کے مسائل میں خاص توجہ رکھتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے کچھ مارکسسٹ قومی سوال یا ماحولیات وغیرہ میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں، پھر بھی ان نظریات کو مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھا چڑھا کر مارکسی نظریات سے زیادہ اہم بنا کر پیش کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔

زبان کا درست استعمال اپنی بات کو سمجھانے کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زبان کے استعمال میں واضح نہیں ہوں گے توہمارے نظریات درست شکل میں لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ تاہم یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ لفظوں اور اصطلاحات پر غیر ضروری زور نہ دیا جائے۔ لوگ اپنے نظریات کو جیسے چاہے بیان کر سکتے ہیں لیکن یہ ان کے الفاظ نہیں بلکہ اعمال ہی ہوتے ہیں جو ان کے سیاسی نکتۂ نظر کا درست تعارف بنتے ہیں۔ یہ مارکسسٹوں کا نکتۂ نظر ہے جو سمجھتے ہیں کہ محنت کش دنیا کو مجرد نظریات سے نہیں بلکہ ٹھوس اعمال کی روشنی میں جانتے ہیں۔

یہ جیوڈتھ بٹلر جیسے ان فیمینسٹ دھاروں کی سوچوں کے برعکس ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ’مردانہ غلبے‘ کی حامل زبان عورتوں کے استحصال کی ایک وجہ ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی غیر متعین شخص (جو مرد یا عورت کچھ بھی ہو سکتا ہے )کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھاری وہ (He)کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ نسوانیت پرستوں کے خیال میں اس سے خواتین کا استحصال ہوتا ہے اور ان کے نزدیک ایسے مواقع پر غیر متعین شخص کے لیے زنانہ صیغہ (She)استعمال کرنے سے کسی حد تک خواتین کے استحصال کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

پھر یہ مسئلے کو سر کے بل کھڑا کرنے کی غلطی کے مترادف ہے۔ نام نہاد (مردانہ)زبان کا ستعمال سماج میں عورتوں کے استحصال کی وجہ سے ہے۔ اس عکس کا خاتمہ اصل وجہ کے خاتمے کے بغیر بے سود ہو گا۔ اس قسم کی کوشش کا نتیجہ اپنے بولنے کے انداز میں تبدیلی کی ضرورت کی آگاہی پر مبنی مضامین، کتب اور لیکچروں کی صورت میں برآمد ہوتا ہے جن کو ہم خیال ’ماہرین‘ کے علاوہ اور کوئی نہیں پڑھتا اور عوامی شعور پر اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہی رہتے ہیں۔ بولنے کے طریقوں پر تقاریر کرنے کی بجائے مارکسسٹ سماج میں سے استحصال کی جڑوں کو کاٹ پھینکنے کے لیے عملی جدوجہد میں برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ اکیڈمک فیمینزم اور انقلابی سوشلزم میں یہی فرق ہے۔

خواتین پر جبر کے خلاف جدوجہد! سوشلزم کے لیے جدوجہد!

نوجوان، خاص طور پر یونیورسٹیوں کے طلبہ ان نظریات اور خیالات میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں جن سے ان کو پہلی مرتبہ پالا پڑتا ہے۔ موجودہ بحران کا مطلب یہ ہے کہ اب مزید نوجوان ایسے نظریات کی تلاش میں ہیں جو جمود کو چیلنج کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان دنوں میں طلبہ میں مارکسی نظریات کی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ لیکن یہی بات چند نوجوانوں میں فیمینزم کی طرف بڑھتی ہوئی کشش کی وضاحت بھی کرتی ہے۔

مارکسسٹ ہر اس رجحان کی حمایت کرتے ہیں جو بہتر دنیا کے لیے لڑنا چاہتا ہے، خاص طور پر ان کی جو نظریات اور عملی سیاست کے میدان میں قدرے نئے ہوں۔ لیکن مارکسسٹ، اکیڈمک فیمینسٹوں کے بورژوا جمہوری مطالبات کی طرف اپنے رویے میں ہمیشہ سخت گیر ہوتے ہیں۔ ہمارا نکتۂ نظر طبقاتی ہے جس کی ان کے خیالات سے کوئی مطابقت نہیں جو محض سرمایہ داری کے تحت ’’مساوی جبر‘‘ کے علمبردار ہیں۔ ہم محنت کش طبقے کے مکمل اتحاد اور اور سوشلزم کے لیے جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے تعصبات کو ختم کیا جا سکتا ہے اور ایک حقیقی غیر طبقاتی اور مساوی معاشرے کی مادی بنیادیں استوار کی جا سکتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.