لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کی ریاستی پشت پناہی میں غنڈہ گردی، ابھرتی طلبہ تحریک پر ایک اور حملہ!

|منجانب: پروگریسو یوتھ الائنس|

گذشتہ روز پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کی غنڈہ گردی کے نتیجے میں کئی طلبہ زخمی ہوگئے اور یونیورسٹی سارا دن میدان جنگ کا منظر پیش کرتی رہی۔ اس دوران جمعیت کے غنڈے ڈیپارٹمنٹس میں گھس کر پشتون اور بلوچ طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے جبکہ انتظامیہ اور پولیس خاموش تماشائی بنی نظر آئی۔ پروگریسو یوتھ الائنس ریاستی پشت پناہی میں جمعیت کی اس غنڈہ گردی کی شدید مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ انتظامیہ ان بنیاد پرست غنڈوں کی سرپرستی اور پشت پناہی بند کرے اور ان کے خلاف فی الفور کاروائی عمل میں لائی جائے۔

گذشتہ روز اسلامی جمعیت طلبہ، جو کہ ایک بنیاد پرست دہشت گرد تنظیم ہے، کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایک فیسٹیول منعقد کیا جانا تھا۔ اس فیسٹیول کا انعقاد ناصرف یونیورسٹی انتظامیہ کے نوٹس میں تھا بلکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق خود وائس چانسلر نے اس کے لئے اجازت دی تھی۔ یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی منافقت کا کھلا ثبوت ہے کہ ایک طرف تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست اور طلبہ یونینز پر پابندی عائد ہے اور دوسری طرف اسلامی جمعیت طلبہ جیسی بنیاد پرست تنظیمیں عین انتظامیہ کی ناک کے نیچے نہ صرف یونیورسٹیوں میں متحرک ہیں بلکہ اپنی سرگرمیاں بھی انتظامیہ کی پشت پناہی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ درحقیقت یہ پابندی صرف اور صرف ترقی پسند نظریات رکھنے والی طلبہ تنظیموں کے لئے ہے جبکہ یہ ریاست کے پالے ہوئے مذہبی جنونی کھلے عام اپنی غنڈہ گردی جاری رکھے ہوئے ہیں۔اس لئے کل کے واقعات کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔

جمعیت کا موقف ہے کہ پہل پشتون اور بلوچ کونسل کی جانب سے ہوئی اور انہوں نے پچھلے سال کے پشتون کلچر ڈے کے واقعے کا بدلہ لینے کے لئے فیسٹیول کو سبوتاژ کیا۔ جمعیت کے ماضی پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اس موقف کی ’سچائی‘ آشکار ہوجاتی ہے۔ جمعیت اور جماعتِ اسلامی اپنے جنم سے حکمران طبقات اور اس سرمایہ دارانہ ریاست کے دلالوں کے کردار ادا کرتی آئی ہے۔ جمعیت کے ہاتھ کئی معصوم طلبہ کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور ہمیشہ سے یہ تنظیم ریاستی پشت پناہی سے طلبہ تحریک کو کچلنے اور طلبہ پر جبر کے آلے کے طور پر کام کرتی آئی ہے۔ اس فیسٹیول کو جس انداز سے سبوتاژ کیا گیا وہ جمعیت کا کلاسیکی طریقۂ واردات ہے۔ جمعیت کے کئی ’شہدا‘ پشت پر گولیاں لگنے سے ہلاک ہوتے رہے ہیں اور جمعیت ان ’شہیدوں‘ کی لاشوں پر خوب سیاست چمکاتی آئی ہے۔ اسی طرح کل صبح رونما ہونے والے واقعے کے بعد معصوم بننے کی غرض سے خود جمعیت کے غنڈوں نے وائس چانسلر آفس کے باہر دھرنا دے دیا اور ساتھ ہی ساتھ پوری یونیورسٹی میں پشتون اور بلوچ طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔یہاں تک کہ پنجاب پولیس کے ایک ’بہادر‘ ایس پی کی گاڑی پر بھی چڑھ دوڑے مگر چونکہ یہ ’اپنے لوگ‘ ہیں اس لئے سب کچھ برداشت کیا گیا۔جبکہ پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے کے باوجود جمعیت کے غنڈے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران اربوں روپے کی انوسٹمنٹ کے ذریعے جمعیت کو ملک بھر میں ری لانچ کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ بری طرح ناکام ہوئی۔ ماضی میں طلبہ کی انتہائی پسماندہ پرتوں میں جہاں جمعیت کی تھوڑی بہت حمایت موجود تھی تو اب وہ بھی ختم ہوچکی ہے، ایسے میں تشدد کا سہارا لے کر جمعیت کو پھر سے طلبہ پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی، جو کہ کبھی جمعیت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، میں اس دہشت گرد تنظیم کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے لیکن نہتے طلبا کو زدوکوب کرنے اور متشدد کاروائیاں کرنے کے لیے یہ پیشہ ور غنڈے باہر سے منگوائے جاتے ہیں اور طلبہ میں اس کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ حالیہ واقعے کا ایک مقصد یونیورسٹی میں پڑھنے والے ہزاروں طلبہ کو خوفزدہ کرنا ہے تاکہ وہ ہر لحظہ بڑھتے مسائل کے خلاف متحرک نہ ہوسکیں۔

یہ واقعہ پاکستان میں ابھرتی طلبہ تحریک پر تازہ ترین ریاستی حملہ ہے اور اس کے طلبہ تحریک پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ پچھلا سال پاکستان میں طلبہ تحریک کے حوالے سے انتہائی اہم سال ثابت ہوا۔ مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں قتل کے خلاف اٹھنے والی تحریک سے لے کر قائد اعظم یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کے خلاف جاری رہنے والی اٹھارہ روزہ ہڑتال نے ریاستی ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں اور حکمران طبقات اس تحریک کو کچلنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ زرعی انسٹیٹیوٹ پشاور یونیورسٹی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں8 بلوچ طلبہ پر تشدد کرکے طلبہ کو نسلی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ پشاور یونیورسٹی میں بنیاد پرست اور نام نہاد ترقی پسند طلبہ تنظیموں کا اتحاد بنوا کر طلبہ تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی جس میں حکمرانوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیکیورٹی اور ڈسپلن کے نام پر جبر اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ساتھ ہی سکولوں اور کالجوں کی نجکاری کی جارہی ہے تو یونیورسٹیوں کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا گیا جس نے طلبہ اور ان کے والدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ درمیانے طبقے کے لئے بھی اعلیٰ تعلیم کا حصول انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی فنڈنگ بند کرکے یونیورسٹیوں کے اخراجات کا سارا بوجھ طلبہ پرمنتقل کردیا گیا ہے۔ ایک طرف جہاں تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے تواس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کا فزیکل انفراسٹرکچر بھی انہدام کو پہنچ رہا ہے۔ ان مسائل کے خلاف شدید نفرت موجود ہے جس کا اظہار پچھلے سال کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے احتجاج کی صورت میں سامنے بھی آیا۔

اس واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے یونیورسٹیوں میں طلبہ پر جبر کی مزید انتہا کردی جائے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی سے ’’غنڈہ گرد‘‘ عناصر کے قلع قمع کے لئے آپریشن کا آغاز کیا جارہا ہے جبکہ اصل غنڈے یونیورسٹی کا باہر کیمپس پل پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ اس نام نہاد آپریشن کے نتیجے میں عام طلبہ کو زدوکوب کیا جائے گا اور خوف کی فضا مسلط کی جائے گی۔ سرمایہ دارانہ میڈیا طلبہ سیاست کے خلاف زوروشور سے زہر اگل رہا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اس جبر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیسوں میں مزید اضافہ اور مسائل کے خلاف آواز بلند کرنے والے طلبہ کو کچلنے کی طرف جائے گی۔ دوسری جانب طلبہ تحریک کو قومی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی یہ نئی کوشش ہے۔ اس سے قبل پچھلے سال پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے پر حملہ کروایا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی اس دہشت گردی کو قوم پرست اپنی سیاست چمکانے کے لئے خوب استعمال کریں گے اور یہی وہی قوم پرست ہیں جو حکمران طبقے کے رجعتی نمائندے نواز شریف کو جمہوریت کا داعی اور اس کا ساتھ نہ دینے والے پشتونوں کو بے غیرت گردانتے ہیں۔ یہ وہی قوم پرست ہیں جو ن لیگ کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے ہیں۔ مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو حکمران طبقے کی نمائندہ ان قوم پرستوں کی سیاست کا حصہ بننے کی بجائے عام طلبہ کے ساتھ جڑت بنانی ہوگی۔ زبان اور قوم کی بنیاد پر بنائی جانے والی طلبہ تنظیموں میں تنگ نظری اور تعصب پروان چڑھتا ہے جو دیگر ہزاروں طلبہ سے ان کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے جس کے بعد ریاست اور ان کے پروردہ جنونیوں کے لیے ان کو حدف بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان تمام واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے فوری طور پر ماضی کے طریقہ کار کو ترک کرنے اور مستقبل میں طلبہ حقوق کی ایک منظم جنگ لڑنے کے لیے تیاری کا آغاز کرنا ہوگا۔پنجاب یونیورسٹی کے پشتون اور بلوچ طلبہ کے اصل حمایتی قوم پرست لیڈران نہیں بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے والے عام طلبہ ہیں جن کی زندگی بھاری بھر کم فیسوں، سماجی دباؤ اور بیروزگاری کے خوف نے اجیرن کر رکھی ہے۔

طلبہ سیاست اور یونینز پر پابندی کا سب سے بڑا جواز ہی غنڈہ گردی کو بنایا جاتا ہے مگر اسلامی جمعیت طلبہ جیسی ریاست کی اپنی گماشتہ تنظیمیں اس غنڈہ گردی کی ذمہ دار ہیں۔ طلبہ کو اس تما م تر غنڈہ گردی کو رد کرتے ہوئے فیسوں میں اضافے، بیروزگاری اور دیگر بے تحاشا مسائل کے خلاف جرأت اور بہادری کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوگی۔ آنے والے دنوں میں جیسے جیسے معاشی اور ریاستی بحران شدت اختیار کرے گا اس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کے حملے مزید بڑھیں گے مگر ان حملوں کا مقابلہ طلبہ اتحاد کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ایسا اتحاد جو تنگ نظر قوم پرستی اور نسل پرستی کی بجائے ترقی پسند نظریات اور مسائل پر مبنی ہو۔ 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.