اعلیٰ تعلیم یا غریب کے گلے کا پھندا؟

|تحریر: عرشہ صنوبر|

برسات کا موسم ہے۔۔۔ کہتے ہیں کہ یہ موسم نوجوان نسل کے لیے بڑا ہی دل آویز اور رومانوی (romantic) ہوتا ہے۔ لیکن شاید صرف ان کے لیے جن کو اس برستی بارش میں گھٹنوں تک پانی میں چھَپ چھَپ کرکے تقریباً ڈوبتے تیرتے ہوئے روزی کمانے یا پھر اس کی تلاش میں نکلنے کے بجائے اپنے عالی شان بنگلوں اور کوٹھیوں میں میکڈونلڈ کی ڈیلز کے ساتھ رنگین فلمیں انجوائے کرتے ہوئے، اپنی کھڑکیوں سے کنالوں پر محیط لانوں کے سبزے پر بارش کا نظارہ کرنا ہے۔ وگرنہ بقیہ تمام پڑھی لکھی نوجوان نسل کو اپنے بھیگتے چھتوں کے لیے نئے ٹین اور سرد چولہوں کے لیے آگ کا بندوبست کرنے کی خاطر اس گندی برسات میں مینڈکوں کو کچلتے ہوئے روزی کی تلاش میں نکلنا ہی پڑتا ہے۔

ساری زندگی ایک ہی کٹیا جیسے مکان میں رہتے ہوئے ایک ہی آلو کو کئی طریقوں سے پکانے والے ماں باپ بچت کی حسرت دل میں لیے ٹیکس پر ٹیکس دینے پر مجبور ہیں جو کہ سیلز ٹیکس اور دیگر کئی بہروپ بھر کے ہر کھانے پینے اور اس ضرورت کی چیز پر لگ چکا ہے جو کہ زندگی کی ڈور بندھی رہنے کے لیے ناگزیر ہے۔ ان کی یہ سوچ ہر بار ہوتی ہے کہ شاید اس بار آنے والی حکومت ان کے بچوں کو مفت تعلیم یا روزگار کے مواقع فراہم کرے گی اور ہر بار آنے والی حکومت ہمیشہ کی طرح ”چوری اور اس پہ سینہ زوری“ پر ثابت قدمی سے عمل کرتے ہوئے ہر ایسے امیدوار کی امید شکنی بڑی خندہ پیشانی سے کرتی رہتی ہے۔

ایم فِل اور پی ایچ ڈی کرنے والے امیدوار کو جو اعلیٰ ترین تعلیم اپنے شعبے میں حاصل کر چکا ہے، ایک نہایت چھوٹے گریڈ کی نوکری جیسے کہ نویں سکیل کے لیے ”ایجوکیٹر“ کے بہانے این ٹی ایس ٹیسٹ، پی پی ایس سی اور ایف پی ایس سی جیسے کئی پل صراطوں پہ سے گزارچکنے کے بعد ہنس کر بتایا جاتا ہے کہ تیس سیٹوں کے لیے چار چار سو روپیہ دے کر اپلائی کرنے والے تین لاکھ درخواست گزاروں میں سے وہ ہرگز ایسا دھنی اور خوش قسمت نہیں جسے سرکار کی نوکری ملے۔ یا پھر یہ کہ یہ نوکریاں دینے کا خیال ملتوی کر دیا گیا ہے اور اب آپ لوگ چلیں شاباش گھر چل کر زیرے والے یا شوربے والے آلو یا آلو کی بھجیا کھائیں۔ پڑھ پڑھ کر بیچاری ہواوں میں اڑتی نسل کے پڑھائی کے اختتام پر ہی ’پر‘ کٹ جاتے ہیں۔ ان کو اس طرح کے مرحلہ در مرحلوں سے گزار کر یہ احساس پیدا کر دیا جاتا ہے کہ مزدور طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ بے شک ایم فل، پی ایچ ڈی یا اس سے بھی بالا تر ڈگریاں لے لیں، کسی ان پڑھ اور جاہل سرمایہ دار کے بچے کی برابری کی سوچ بھی ذہن میں نہ آنے دیں۔

ہم جیسے لوگوں کو، جو دور دراز گاؤں میں رہتے ہیں، بار بار اور مسلسل حکومتی سیٹوں کے لیے ہزارہا روپے محض فوٹو کاپیوں پر برباد کر کے اور دور دراز کے سینٹروں میں بروقت پہنچنے کی خاطر ماں باپ کی بچت یا پھر قرضے لے کر کرائے لگانے کے بعد بھی جب کچھ حاصل نہیں ہوتا تو بادلِ نخواستہ کسی پرائیویٹ ادارے میں نوکری کے خواب آنکھوں میں سجائے شہر کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی برابر کی شامت آتی ہے۔

پرائیوٹ اداروں میں، جیسے کہ عام طور پر لڑکیوں کے لیے سکول کالج کی نوکری سب سے مناسب سمجھی جاتی ہے، نئے پڑھے لکھے لڑکے بھی ادھر ہی کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن اس پیشے میں نوکری کی تلاش بھی ایک نیا مضحکہ خیز اور ذلت آمیز سلوک کا بھرپور تجربہ ہے۔ اگر تو یہ سکول یا کالج کسی برانڈ کا ہے تو باہر بیٹھا چوکیدار سب سے پہلے پوچھتا ہے کہ آپ کو کس نے بھیجا ہے؟ امیدوار خوشی خوشی بتاتا ہے کہ خود ہی آیا ہوں۔
نہیں مطلب کس نے کہا تھا یہاں آنے کو؟ کس نے بلایا ہے؟
نہیں نہیں ہم خود آئے ہیں۔ پڑھائی کرلی ہے اب نوکری کی تلاش میں آئے ہیں۔۔۔
بھئی عقل کے اندھو! سمجھ نہیں آ رہی کہ کس حوالے سے یا کس کی سفارش پہ آنے کا پوچھا جارہا ہے؟ نہیں ہے سفارش۔ چلیں سی وی پکڑائیں۔ اندر پہنچا دیں گے(ردی کی ٹوکری تک)۔ جائیں گھر!

اول تو ایسی جگہیں مزدور طبقے کے لیے تو خاص طور پر شجرِ ممنوعہ ہیں (آپ کا حلیہ ہی آپ کے طبقے کی چغلی کھاتا ہے)۔ اگر آپ کو خوش قسمتی سے کال آ ہی جاتی ہے تو سمجھ لیجیے یہ آپ کی بدقسمتی کا آغاز ہے کہ آپ کو ڈیمو کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ بیچاری خواب دیکھنے والی نوجوان نسل کا تو ڈیمو کال پہ ہی دل ایسے اچھلنے لگتا ہے جیسے ”جیتو پاکستان“ سے مفت کا دس تولہ سونا نکل آیا ہو۔ بھئی سولہ اٹھرہ سال کی پڑھائی کے بعد اتنا تو حق بنتا ہے نا کہ عزت سے اور عزت کی نوکری ملے (ویسے حق کی بات مزدور طبقے میں کرنا منع ہے، یہ بغاوت اور غداری کے جیسا ہے، یہ بات تو یہ لوگ یاد ہی نہیں رکھتے)۔

خیر ایک ہی رات میں پچھلا سارا سلیبس دہرانے میں ماہر امیدواران مزید تیاری کو چار چاند لگانے خاطر PPSC اور ایجوکیٹرز کے لیے پڑی کتابوں کو بھی رٹ لیتے ہیں۔ جب ڈیمو کے لیے نک سک سے تیار ہو کر کالج جاتے ہیں تومعلوم پڑتا ہے کہ کالج تو بس انٹر تک ہے۔ دو جماعتیں؟ بس! وہ توحفظ ہیں۔ بلکہ اس حساب سے تو اب ہمیں کوئی چاہ کر بھی فیل نہیں کر سکتا۔ زیادہ سے زیادہ کیا پوچھ لیں گے۔ سب کچھ تو فنگر ٹپس پہ ہے۔

شدید خود اعتمادی کا شکار امیدوار جب درخواست گزاروں سے بھرے کمرے میں داخل ہوتا ہے تو سب کی سب شکلیں ہی اس کو کافی جانی پہچانی معلوم ہوتی ہیں۔ جیسے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کا نقش کہیں نہ کہیں سے دوسرے جیسی جھلک دکھاتا ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے، اوہ ہاں یاد آیا۔۔۔ پچھلے سبھی سرکاری اور نجی اداروں کے ٹیسٹوں اور ڈیمو میں یہی سب تو آتے رہے ہیں۔ تبھی تو سب مخالفوں کے لیے، جو آپ والی نوکری لینے آئے ہیں، بہن بھائی والے جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ اب سمجھے ہم سبھی ایک ہی خاندان سے ہیں۔ ایک ہی طبقے سے۔ مزدور طبقے سے۔

انہی سوچوں میں ایک آواز ابھرتی ہے۔ فلاں بنت/ابن فلاں آپ کمرے میں تشریف لے جائیں۔ آپ کے ڈیمو (ذلالت) کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔ رات بھر کی تیاری کے بعد کسی مایا کے ٹب سے نکلا، اکڑا ہوا امیدوار جب خودساختہ جیت کے خمار میں کمرے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے شان و شوکت والا کمرہ، وسیع و عریض میز اور ڈیمو ٹیم کی اس پر پڑنے والی حقارت بھری نظریں اس کے فنگر ٹپس پہ یاد چیزیں دھندلا دیتی ہیں۔
جی کیا ٹاپک ہے؟
میرا ٹاپک فلاں کتاب کا فلاں چیپٹر ہے۔
ڈیمو ٹیم میں معنی خیز نظروں کے تبادلے ہوتے ہیں اور ایک استہزائیہ مسکراہٹ امیدوار کی طرف اچھالی جاتی ہے۔ جسے امیدوار نیک شگونی کے طور پہ جھپٹ لیتا ہے۔ لیکن پہلے ہی سوال کے ساتھ غبارے میں سے ساری ہوا نکل جاتی ہے۔

پہلا سوال: اس سبق کا مصنف کہانی لکھتے وقت ساتھ کونسا دوسرا کام کر رہا تھا؟
ہیں جی! کیا؟؟؟؟؟
ٹائم اپ!
سوال نمبر دو: مصنف کی والدہ نے حمل کے دوران تربوز کے بیج کھانے کی خواہش کی تھی یا سورج مکھی کے؟
کیا؟؟؟ سر یہ انگلش کا ڈیمو ہے۔ آپ کیسے سوال کر رہے ہیں؟؟؟
خاموش۔۔۔ آپ ڈیمو دینے آئے ہیں۔ لینے نہیں۔
اگلا سوال ہے کہ غذائی قلت کے شکار بلی کے بچوں کی حالیہ سال کی شرح بتائیں؟
سر میرا ٹاپک یہ چیپٹر ہے۔۔امیدوار پریشانی سے بتاتا ہے۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔ اسی میں سے پوچھ لیتے ہیں۔
جی جی سر۔۔۔ سانسیں بحال ہوتی ہیں۔
سوال: ”بٹن بٹن“ کہانی میں بٹن دو بار کیوں ہے۔۔۔ ایک بار کیوں نہیں؟
وہ۔۔۔ بٹن۔۔۔ سر!
سوال: جی تو کتاب دیکھے بنا بتائیں کہ اس سبق میں کتنے کوما اور فل سٹاپ ہیں؟؟؟
ہائیں۔۔دماغ بھک سے غائب۔۔۔
اس چیپٹر کا اخلاقی سبق کیا ہے؟
آہ۔ شکر ہے کام کا سوال آیا۔
جی اس سبق میں لالچ اور خودغرضی کے نقصانات اور انسانیت سے محبت کادرس دیا گیا ہے۔
ممممم۔۔۔ کچھ ٹھیک ہے۔۔ لیکن آپ کو اس طرح نہیں بتانا تھا۔۔۔آپ کو بتانا تھا کہ لالچ بری بلا ہے۔ یہ جواب بھی آپ ٹھیک سے نہیں دے پائے۔
خیر یہ بتائیں کہ اگلے امتحانی پرچہ جات میں سے اس سبق میں سے کونسا سوال آئے گا؟
یہ کیسے بتایا جا سکتا ہے؟؟؟
آپ کو معلوم ہونا چاہیے۔۔۔ خیر یہ بتائیں کہ اس مضمون کو انگریزی کیوں کہا جاتا ہے؟
میں سمجھا/سمجھی نہیں سر۔
سادہ سا سوال ہے۔ اس کوانگریزی کے علاوہ بھی کوئی نام دیا جا سکتا تھا۔
سر انگریزوں کی زبان ہے اس لیے انگریزی کہلاتی ہے۔
اچھا تو انگریز کو انگریز کیوں کہا جاتا ہے کچھ اور کیوں نہیں؟
کیونکہ وہ انگریز ہیں۔
وہ انگریز کیوں ہیں؟
کیونکہ وہ کوئی اور نسل نہیں ہیں۔
کوئی اور نسل کیوں نہیں ہیں؟
سوری سر مجھے نہیں معلوم۔
بہت شکریہ آپ جا سکتے ہیں۔ نیکسٹ پلیز۔۔۔۔

یہ ہوتا ہے پرائیوٹ سکول و کالجوں کا ڈیمو جہاں سے باہر نکلتے ہی باقی درخواست گزار مکھیوں کی طرح چپک جاتے ہیں کہ کیا بنا، کیا بنا۔ امیدوار بتا بھی نہیں پاتا کہ اس کے ساتھ کیا بنا (جی عزت کا تماشا بنا)۔ گھر واپسی پہ بالوں میں چاندی لیے بیٹھی بہن اور بیماری سے ادھ مرے بوڑھے ماں باپ پہ نظر پڑتی ہے تو وہ فلاں ابن فلاں (اور ایسی ولدیتیں بھی کیا اہمیت رکھتی ہیں اس معاشرے میں) کسی بند کمرے میں مہینوں سے خراب پنکھے کو بالآخر استعمال میں لاتے ہوئے اس کے گلے کا ہار بن جاتا ہے۔ اُس پہ یہ سوچ کہ اب اِس پہ کیا سوچنا، کہ یہاں پر تو ہر دوسرا شخص تو فلاں ہے اور کس کس فلاں کی فکر کی جائے۔

پوری پڑھی لکھی نوجوان نسل ہر روز نوکریوں کی تلاش میں سکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں میں بھیک مانگتی نظر آتی ہے اور سرمایہ دار کی اولاد انہیں مزدور طبقے سے تعلق ہونے کی پاداش میں پیروں تلے روندتی چلی جاتی ہے۔ کب تک اسی طرح پیروں کا کیڑا بنے رہنا ہے؟؟؟ پیروں تلے آنے والے کیڑے بھی اگر پیروں میں کاٹ لیں تو اپنی زندگی بچا سکتے ہیں۔ کسی زنگ آلود پنکھے سے لٹکنے، گندے نالے کے گندے پانیوں کو پھیپھڑوں میں بھر کر اور اولادوں سمیت زہر کھا کر مرنے سے بہتر ہے کہ آواز اٹھائی جائے۔ گھروں میں بیٹھ کر بڑبڑانے والی آواز نہیں۔ بلکہ باہر نکل کر سینوں کو چیر دینے والی آواز۔ تخت کو تختہ بنانے والی آواز۔ سینوں میں ابلتے لاوے کو سینے کے بجائے اب راستے میں آنے والی بلاؤں کو جلانے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس انقلاب کو تعبیر کیا جائے جو ہر دکھ اور مفلسی میں گھرے انسان کا خواب ہے اور انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ انسانیت کی نجات صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لیے مل کر کوشش کی جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.