کورونا ویکسین اور نااہل حکمران

|تحریر: فرحان رشید|

پاکستان میں کرونا وبا دیگر تمام تر ممالک کی طرح ایک عذاب بن کر ٹوٹی جس نے پہلے سے جہنم بنی زندگیوں کے مصائب میں مزید اضافہ کیا۔ کروڑوں لوگوں کو بیروزگار کیا، لاکھوں کو تعلیم سے محروم کیا،ہزاروں کی جانیں لیں، تمام تر بچتیں چاٹ لیں،کاروبار تباہ کردیے، غرض یہ کہ بدحالی کی جانب سرکتے عوام کو یک دم بدحال و بدحواس کردیا۔گو کہ اس دوران حکمرانوں کی جانب سے بہت ڈھونگ رچائے گئے، کشکول دکھا کر عوام کو سہولیات دینے سے انکار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ وبا تو ملک کے ہر فرد کیلیے ایک جتنی اذیت ناک ہے۔ مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ وبا نے جیسے عالمی پیمانے پر امیر و غریب کی تفریق کو بالکل واضح کیا کہ ایک طرف اربوں لوگوں کا روزگار ختم ہوا دوسری طرف چند دولتمندوں کی دولت میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ ویسے ہی پاکستان میں سرمایہ داروں اور دولتمندوں کی دولت اور عیاشیوں پہ کوئی آنچ نہ آئی بلکہ جب کبھی ان کے منافعوں پر خطرہ محسوس ہوا ریاست نے بیل آؤٹ پیکج دے کر ان کو سنبھالا۔ جبکہ دوسری جانب لوگ بھوکے بھی مرے اور بیروزگار بھی ہوئے۔

آج ملک میں کورونا وبا کی تیسری لہر کا شور ہے جو گزشتہ دونوں لہروں سے زیادہ شدید ہے۔ کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 6 لاکھ 72 ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے جبکہ اموات کی تعداد ساڑھے چودہ ہزار کی حد پار کر چکی ہے۔گو یہ اعداد و شمار بہت کم بتائے جارہے ہیں مگر پھر بھی کورونا کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس کا زیادہ اثر اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے مخصوص علاقوں میں بتایا جا رہا ہے اور تاحال ملتان اور لاہور میں %67، اسلام آباد میں %64 اور گوجرانوالہ میں %60 وینٹی لیٹرز زیرِ استعمال ہیں۔ وبا ماضی کی نسبت اس وقت بچوں کے اندر تیزی سے پھیل رہی ہے اور تادمِ تحریر 25 ہزار 792 بچوں کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔

اس بھیانک صورتحال میں ریاست اور حکمران کورونا وبا کے خلاف کچھ عملی اقدام کرنے کی بجائے کورونا کو ہندوستان کی مانند ایک دشمن مگر ان دیکھا قرار دے کر ”ایک قوم ایک منزل کے نعرے“ کے تحت اسلحے کی نمائشوں،اور مسخروں کی سیاست میں محو ہیں۔ ہر ہفتے میں NCOC کی میٹنگ ہوتی ہے،ایک پریس کانفرنس ہوتی ہے اور یہ سلسلہ یوں ہی جاری ہے اور روزانہ بیسیوں بار یہ ورد جاری رہتا ہے ”کرونا کو نہ، ویکسین کو ہاں۔“

ویکسین کو ہاں، پر ویکسین کہاں؟

ملک میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل نہایت محدود پیمانے پر جاری ہے اور اس حوالے سے ویکسین کی خریداری میں بہت تاخیر برتی گئی ہے۔ دنیا میں کرونا ویکسین کی خریداری کا عمل دسمبر میں شروع ہوا مگر ریاستِ پاکستان نے یہ فیصلہ فروری میں کیا۔ اور تاحال ریاست کی تمام ترامیدیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کےCovax پروگرام پر ہیں جس کے تحت پاکستان کو 2021 میں 17.1 ملین ویکسینز ملیں گی، گو ابھی تک کوئی کھیپ موصول نہیں ہوئی مگر جلد 28لاکھ ویکسینوں کی آمد متوقع ہے۔ نیز تاحال چین سے تقریباً 20 لاکھ ویکسینیں موصول ہوچکی ہیں جن میں نصف امداد کی صورت میں ملی ہیں۔

اس وقت 22 کروڑ افراد پر مشتمل ملک میں صرف 8 لاکھ افراد کو ویکسین لگ چکی ہے جب کہ اس سال کے اختتام پہ ایک تہائی آبادی تک کو بھی ویکسین لگنا ناممکن نظر آرہا ہے۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے کل بجٹ جو ویکسین کی خریداری کے لیے مختص کیا گیا ہے وہ فقط 24 ارب روپے ہے۔ مگر کل آبادی کے 18 سال سے زائد عمرکے افراد کی تعداد 137 ملین بنتی ہے جس کے لیے مختلف کمپنیوں کی ویکسینوں کیلیے درکار کل رقم لگ بھگ کچھ یوں ہوگی۔
اسٹرا زینیکا: 263 ارب روپے
اسپوٹنک 5: 438 ارب روپے
نوٹ: مندرجہ بالا تمام اعداد و شمار پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی طرف سے جاری کردہ ہیں۔

ویکسین اور لوٹ مار کا بازار!

اوپر بیان کردہ اعداد و شمار سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ ریاست کو ویکسین لگانے میں کوئی جلدی نہیں کیونکہ حکمران طبقے کیلیے ویسے بھی ویکسین لگوانے کے عمل میں کوئی روک نہیں اور وہ جائز و ناجائز تمام ذرائع سے ویکسین لگواسکتا ہے۔ گزشتہ روز سروسز ہسپتال سے 550 ویکسینیں گم ہوئیں اور انکشاف کیا جارہا ہے کہ اعلیٰ افسران اور بیوروکریٹ اس چوری سے مستفید ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی نجی مافیا کو بھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا پورا موقع دیا جارہا ہے اور پاکستان وہ پہلا ملک ہے جہاں نجی کمپنیوں کو ویکسین کی خرید و فروخت کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لوٹ مار کے عمل کا اندازہ فقط ویکسین کے نرخوں سے لگایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں ایک نجی کمپنی AGP Limited نے روس سے 50000 اسپوٹنک ویکسینیں درآمد کیں۔ چونکہ ہر فرد کو اس ویکسین کی دو خوراکیں لازمی ہیں سو دوخوراکوں کی عالمی نرخ کے مطابق قیمت 3200 روپے بنتی ہے جبکہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اس کی قیمت 8449 روپے رکھی گئی ہے اور اس کے باوجود بھی کمپنی مالکان نرخوں میں اضافے کی مانگ کررہے ہیں۔ اسی طرح ریاست کی جانب سے بھی مہنگی ترین ویکسین کے ذریعے عوام سے وصول کردہ ٹیکسوں کے پیسے بہائے جارہے ہیں کہ اگر مختلف ویکسینوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو چین سے درآمد کردہ سینوفارم روسی اسپوٹنک سے تین گنا جبکہ آکسفورڈ کی ایسٹرازینکا سے 5 گنا زیادہ مہنگی ہے۔

بیان بازیاں نہیں عمل کرو!

ریاست کی جانب سے وبائی صورتحال کو جنگی صورتحال بارہا کہا گیا ہے مگر ایک دفعہ بھی جنگی اخراجات کا رُخ اس وبا کی طرف نہیں موڑا گیا۔ ایک محیط اندازے کے مطابق تمام 18 سال سے زائد عمر آبادی کی ویکسینیشن کیلیے درکار رقم 263 ارب روپے ہوگی اگر آکسفورڈ کی ایسٹرازینیکا ویکسین خریدی جائے۔ مہنگی ویکسین کی صورت میں بھی یہ مالیت 548 ارب روپے ہوگی جو کہ اس صورت میں بھی ملک کے دفاعی بجٹ کا نصف ہی بنتا ہے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمران فقط بیان بازی تک محدود ہیں جبکہ حقیقت میں جی ڈی پی کا ایک فیصد خرچ کرکے اس کورونا نامی ان دیکھے دشمن سے مُکتی ممکن ہوسکتی ہے۔

اسی طرح ریاست کی جانب سے کاروباریوں کے منافعوں کو بچانے کیلیے سمارٹ لاک ڈاؤن جیسی بیہودگی رچائی جارہی ہے۔ یقیناً ایک بچہ بھی اس بات سے واقف ہے کہ ایسے تمام لاک ڈاؤن بے اثر ہیں اور اکثر یہ ٹھٹھہ اُڑایا جاتا ہے کہ یہ کیسا کورونا ہے جو شام 8 بجے کے بعد اور جمعہ ہفتہ کے دن نکلتا ہے یا پھر سارا وقت تعلیمی اداروں میں رہتا ہے جبکہ بازاروں اور مِلوں میں نہیں جاتا۔ وہیں حکمرانوں کی جانب سے سمارٹ لاک ڈاؤن کے حق میں یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ اس سے محنت کشوں کا روزگار متاثر نہیں ہوگا جبکہ درحقیقت یہی حکمران پچھلے ایک سال میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ روزگار ہڑپ کرچکے ہیں۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور آنے والے برس میں مزید ایک کروڑ افرادبے روزگار ہوں گے جس کا اظہار ریلوے کی نجکاری کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں 35 فیصد محنت کشوں کو بہ یک جنبشِ قلم فارغ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ اسی طرح بیسیوں اداروں میں یہی سلسلہ جاری ہے۔

امیروں کی جیبوں سے پیسے نکالو!

حکمرانوں کی جانب سے بارہا سننے کو مل رہا ہے کہ دراصل اب والی لہر خاصی خطرناک ہے جو برطانیہ کی جانب سے یہاں آن پہنچی ہے مگر یہاں سوال اُبھرتا ہے کہ بین الاقوامی آمدورافت میں ایسی لاپرواہی کیوں کر برتی گئی؟ حکومت کی جانب سے پہلے دن سے ہی اس وبا کو لے کر غیر سنجیدہ رویہ اپنایا گیا۔ شروع میں اس وبا کو ہلکا سا زکام بنا کر پیش کیا گیا یا پھر ویکسینوں کی خرید اور ان کیلیے موزوں ٹمپریچر کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔ یکم اپریل کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 350 خوراکیں عدم احتیاط کے باعث خراب ہوئی ہیں اور ممکن ہے کہ یہ صورتحال جاری رہے۔

اسی طرح کرونا وبا کے دوران لاک ڈاؤں کے نام پر سمارٹ لاک ڈاؤن کی صورت میں مذاق رچایا جارہا ہے۔اس ساری صورتحال سے نکلنے کیلئے اب محنت کشوں پربوجھ ڈالنے کی بجائے حکمرانوں کی جیبوں پر حملے کرنا ہوں گے اور ہنگامی بنیادوں پر سخت لاک ڈاؤن کرتے ہوئے فی الفور بھاری پیمانے پر ویکسینیشن کا آغاز کرنا ہوگا۔ اسی طرح لاک ڈاؤن کے دوران محنت کشوں اور دہاڑی دار مزدوروں سے ہمدردی کا ناٹک رچانے کی بجائے ریاست کا فرض بنتا ہے کہ گھر گھر راشن فراہم کرے۔ ریاست کے غیر سنجیدہ رویے کے باعث عوام کے اندر کورونا وبا سے متعلق شدید شکوک و شبہات موجود ہیں۔ ایک ملک گیر مہم چلاتے ہوئے گلیوں محلوں کے تک کورونا سے متعلق آگاہی مہم چلائی جائے اور نچلے درجے تک ویکسینیشن سنٹر قائم کیے جانے چاہئیں۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ فقط جی ڈی پی کا ایک فیصد عوام کو کورونا وبا سے بچانے کیلیے کافی ہے مگر ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ حکمران اس عمل میں خود لوٹ مار کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کو محنت کشوں کی زندگیوں کی نہیں بلکہ نجی دوا ساز کمپنیوں اور سرمایہ داروں کی دولت کی پرواہ ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ منافعوں کے تحفظ کیلیے قائم اس نظامِ زر کو اُکھاڑ کر ایک ایسا سماج قائم کیا جائے جس میں تمام اشیا منصوبہ بندی سے عوام کی فلاح کیلیے پیدا اور خرچ کی جائیں۔ تب نہ تو دوا ساز کمپنیاں عوام کی جانوں پر منافعے کما سکیں گی نہ چند افراد کے منافعوں کی خاطر لوگوں کو بھوکا مارا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.