پشاور: اسلامیہ کالج میں اینٹی ہراسمنٹ مارچ میں شامل طلبہ کو ہراساں کرنے کا انکشاف

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، پشاور|

ملک بھر کے تعلیمی ادارے اس وقت طلبہ اور خاص طور پر طالبات کے لیے ہر حوالے سے اذیت خانوں میں بدلنے کی طرف جا رہے ہیں۔ طلباء و طالبات کو نفسیاتی اور جنسی طور پر ہراساں کرنا اب تعلیمی اداروں کے اندر معمول بنتا جا رہا ہے۔ پچھلے صرف ایک سال سے لے کر اب تک بلوچستان یونیورسٹی میں شرمناک جنسی سکینڈل کے سامنے آنے سے کراچی میں پی۔ایچ۔ڈی کی طالبہ کا اپنے سپروائزر کے ہاتھوں ہراساں کئے جانے کے سبب خودکشی کرنے جیسے سینکڑوں واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ درحقیقت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر تعلیم کو مکمل طور پر ایک غلیظ کاروبار اور منافع بخش دھندہ بنایا جا رہا ہے جس میں ہر قدم پر ہراسمنٹ، ہر قدم پر ڈپریشن، ہر قدم پر مستقبل کا خوف، ہرقدم پر ناکام ہونے کا ڈر طلبہ کے دل و دماغ میں بٹھایا جاتا ہے۔ طلبہ کو اس طرح سے ذہنی طور پر اپاہج کر کے ان کے اندر سے خود اعتمادی اور جرات کو مکمل طور پر چھین لیا جاتا ہے۔ طلبہ کو حقیر محسوس کروا کر ہوس کے پجاری اور طاقت کے شوقین اہلکار انہیں ہر قسم کی تابعداری پر مجبور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

آج اسلامیہ کالج کی طرح ہر تعلیمی ادارے کے اندر کم و بیش ایک ہی جیسی صورتِ حال ہے کہ جہاں طلبہ کا دم گُھٹ رہا ہے۔ یہاں ہر ادارے میں بظاہر نظر نہ آنے والے مگر سطح کے نیچے طلبہ میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے جو وقتاً فوقتاً برداشت سے باہر ہو کر طلبہ تحریکوں کی صورت میں اپنا اظہار بھی کرتا ہے۔ اسلامیہ کالج میں طلبہ نے خودرو طریقے سے عمومی طور پر اور خاص ان کے اپنے اسلامیہ کالج میں ہراسمنٹ کے خلاف ایک مارچ منعقد کیا تھا جس میں طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہراسمنٹ کے خلاف اپنے غصے کا کھل کر اظہار کیا۔

یہ طلبہ کا ایک خودرو مارچ تھا جس کو اسلامیہ یونیورسٹی کے اپنے ہی طلبہ نے منظم کیا تھا۔ 11 نومبر کو یہ مارچ منعقد کیا گیا اور مارچ کے فوراً بعد ہی انتظامیہ کی نام نہاد ڈسپلن کمیٹی نے میٹنگ منعقد کی اور اس میٹنگ میں مارچ کے آرگنائزر میں سے ایک طالبعلم کو بھی یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کا نوٹیفیکیشن 4 دسمبر کو جاری کیا گیا۔ اس طالبعلم کو خارج کرنے کے لیے ڈسپلن کمیٹی کی طرف سے اُس پر ایچ او ڈی کے ساتھ غلط رویہ رکھنے کا جھوٹا الزام تراشا گیا ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ مارچ سے لے کر آج تک کالج انتظامیہ مختلف حربے استعمال کر کے مارچ کے منتظمین اور شرکاء کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ کالج کے اندر طلبہ کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ خود کو مارچ کے شرکاء سے لاتعلق ظاہر کریں جو کہ انتظامیہ کی کالج کے طلبہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ان میں رنجش پیدا کرنے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے۔ مارچ میں شامل طالبات پر سنگین قسم کے غیر اخلاقی الزامات کی بوچھاڑ کر کے انہیں بلیک میل کیا جا رہا ہے جو کہ انتہائی غلیظ اور شرمناک عمل ہے۔ ایسے لوگوں کی بے شرمی اور بدمعاشی کی داد دینی چاہئے جو کہ ایک طرف تو طلبہ کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ ان کے مزاحمت کرنے پر بدمعاشی اور غلیظ ہتھکنڈوں پر اُتر آتے ہیں۔

ایسے میں طلبہ بے شک خوفزدہ ہو چکے ہیں اور جب کچھ طلبہ کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے تفصیل میں اندرونی معاملات سامنے رکھنے پر کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا، کیونکہ ان طلبہ کا اندرونی معاملات پر کھل کر بات کرنا طلبہ کے لیے انتظامیہ کی طرف سے سخت ردِعمل کا خطرہ مول لینے کے برابر ہے۔ لیکن ہم احتجاج میں شریک تمام طلبہ پر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب کوئی حق اور سچ بات کے لیے آواز بلند کرتا ہے تو اس کو مخالفین کے سامنے خود کو کمزور ہر گز محسوس نہیں کروانا چاہئے۔ طلبہ نے انتظامیہ کے ساتھ کسی ذاتی کشمکش کی بنیاد پر اس لڑائی کا آغاز نہیں کیا بلکہ یہ لڑائی تمام طلبہ کے تحفظ، عزت و آبرو، ان کی تعلیم اور مستقبل کو بچانے کے لیے اور ظلم کے خلاف اپنی سیاسی و سماجی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے وقت کی ضرورت بن چکی ہے اور اپنا اور اپنے حقوق کا دفاع کرنا طلبہ کا سیاسی و سماجی حق بھی ہے۔ ایسے واقعات کا تعلیمی اداروں میں روز بروز زور پکڑتے جانے کے پیچھے ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین اور طلبہ کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کا نہ ہونا بھی ہے۔ کالج کی انتظامیہ ہر حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرے گی کہ طلبہ کو کسی طرح سے ڈرا دھمکا کر، انہیں خاموش کروا کر شکست دی جا سکے اور آخرمیں ان طلبہ پر لگائے گئے تمام الزامات کو درست ثابت کر کے سب طلبہ کو یہ سبق سکھایا جائے کہ دوبارہ اگر کسی نے کالج انتظامیہ کی عیاشیوں پر انگلی اٹھائی تو اس کا یہ حشر کیا جائے گا۔

پروگریسو یوتھ الائنس احتجاج کرنے والے تمام طلبہ اور منتظمین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ طلبہ کی اپنے حق کے لیے کی جانے والی حقیقی جدوجہد پر کسی صورت کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا اور اگر انتظامیہ ان ہتھکنڈوں سے باز نہ آئی یا احتجاجی طلبہ کے لیے کسی قسم کی مشکلات کھڑی کی گئیں تو پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے حق میں اس مسئلے پر ملک بھر کے طلبہ کو ساتھ جوڑتے ہوئے ملک گیر سطح پر آواز بلند کرے گا۔

طلبہ اتحاد زندہ باد!
طلبہ یونین بحال کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.