|تحریر: سحر وائیں|
کرونا وائرس کی تشویش ناک صورت ِحال کے باعث پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس وباء سے لوگ محفوظ رہیں۔گو کہ لاک ڈاؤن کرنے میں تاخیر کی گئی اور بہت بڑے پیمانے پر وباء پھیل گئی۔اب لاک ڈاؤن ہونے کے باعث کروڑوں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔انڈیا میں لاک ڈاؤن 25 مارچ کو لگا تھا جس کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اور اس میں سب سے زیادہ مسئلہ دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں کا ہے جن کے پاس کوئی بھی ذریعہ روزگار نہیں بچا۔ ان حالات کی وجہ سے تقریباََ تمام ممالک نے آن لائن کلاسز کا انعقاد کیا۔اس وجہ سے نہیں کہ ان کو طلبہ کی بہت فکر ہے بلکہ اس لیے کہ فیسیں بٹوری جا سکیں۔ اس طرح لاکھوں بچے تعلیم سے اس وجہ سے محروم ہوگئے ہیں کہ ان کے والدین لاک ڈاؤن میں ان کو آن لائن تعلیم کے لیے درکار وسائل نہیں خرید کر دے سکتے۔
جس طرح پاکستان میں بہت سے طلبہ آن لائن کلاسز اس وجہ سے نہیں لے رہے کہ ان کے پاس انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ جیسی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں طلبہ کے پاس وسائل موجود نہیں ہیں لہٰذا یہ صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے پڑوس میں بھی ویسی ہی عوام دشمن ریاست موجود ہے جس کے پاس کشمیر میں نہتی عوام کو مارنے کیلئے تو وسائل ہیں، ٹینکوں اور بندوقوں کیلئے تو وسائل ہیں مگر تعلیم اور صحت کیلئے نہیں۔ اسی طرح مستقبل میں دیویکا جیسے واقعات ہمیں پاکستان میں بھی ہوتے ہوئے نظر آ سکتے ہیں۔ کیونکہ نہ تو پاکستانی طلبہ کے پاس مفت انٹرنیٹ سمیت دیگر وسائل ہیں اور نہ ہی فیسیں ادا کرنے کیلئے پیسے۔
انڈیا میں حکومت نے گزشتہ سوموار سے سکول کے نئے ٹرم کا آغاز کیا ہے۔ ایک 14چودہ سالہ بچی دیویکا بالا کرشنن جو کہ کیرالا میں رہتی تھی اور ایک دیہاڑی دار مزدور کی بیٹی تھی، نے اپنے سکول کے ٹرم کے پہلے دن ہی خود کو آگ لگا کر خودکشی کر لی۔ اس کی لاش اس کے گھر کے پاس سے برآمد ہوئی۔ انڈین رپورٹر کہہ رہے ہیں کہ بچی دوپہر کو غائب ہوئی اور شام کو اسکی لاش گھر کے پاس سے ملی۔ اس کی جلی ہوئی لاش کے پاس مٹی کے تیل کی بوتل بھی برآمد ہوئی۔ جب اس کے والدین سے بات ہوئی کہ بچی کسی مسئلے کا شکار تھی تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ وہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ سوچ کر پریشان تھی کہ اس کی پڑھائی کا حرج ہوگا اور وہ آن لائن کلاسز لینا چاہتی تھی لیکن ان کے پاس کوئی اس قسم کا ذریعہ نہیں تھا جیسے کہ ٹیلی ویژن اور سمارٹ فون۔ گھر میں ایک ٹیلی ویژن ہے لیکن وہ خراب پڑا ہوا تھا۔ ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی دیویکا کی ماں نے ایک بچے کو جنم دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات بہت ہی خراب تھے۔ مزید یہ کہ لڑکی کا تعلق شودر ذات سے تھا جن کو اچھوت سمجھا جاتا ہے اور سماج میں سب سے کمتر مقام حاصل ہے۔
اس واقعے کے بعد پورے ملک میں غصے کی آگ پھیلی اور کئی جگہوں پر طلبہ نے احتجاج شروع کیے۔ طلبہ نے کیرالا میں سڑکوں کا رخ کیا۔
اس واقعے سے اس سماج کا طبقاتی چہرہ عیاں ہوتا ہے کہ غریب بچے ان حالات میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ حالانکہ کیرالا کا شمار ملک کی امیر ترین ریاستوں میں ہوتا ہے۔
کیرالا کے ایک طلبہ یونین کے لیڈر کا کہنا ہے کہ حکومت نے بچوں کو بہت ہی زیادہ پریشانی میں ڈالا ہوا ہے۔ اس وجہ سے کیرالا کی ریاست میں مختلف جگہوں پر طلبہ نے احتجاج منعقد کیے لیکن چھوٹی تعداد میں اور جسمانی فاصلے کا خیال رکھتے ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ طلبہ نے ان پر چھڑیوں کے ساتھ حملہ کیا جس کی وجہ سے ایک پولیس والا زخمی ہوگیا۔ یہ بالکل ویسے ہی جیسے امریکہ میں ٹرمپ، قاتل پولیس اور ریاست کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوئے مظاہرین کو توڑ پھوڑ کرنے والا کہہ رہا ہے اور پولیس کے وحشیانہ جبر پر چپ سادھے ہوئے ہے۔ ہندوستان میں پولیس کے جابرانہ کردار کی بے شمار مثالیں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جن میں پولیس عام لوگوں اور طلبہ کو انتہائی بے دردی کیساتھ مار رہی ہے۔
پروگریسو یوتھ الائنس لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجتی کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ دیویکا بالا کرشنن کی موت، خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ دیویکا کی قاتل ہندوستانی ریاست ہے۔ یہ ہندوستانی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مفت اور معیاری تعلیم تمام شہریوں تک پہنچائے۔
ہم ہندوستانی طلبہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک گیر سطح پر ایک تحریک کا آغاز کریں اور اب کی بار اس تحریک کو کروڑوں مزدوروں، کسانوں اور دیگر مظلوم قومیتوں کیساتھ جوڑتے ہوئے نہ صرف جابر مودی حکومت کا خاتمہ کریں بلکہ جابر ہندوستانی سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے کی جانب بھی بڑھیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دیویکا اور اس جیسے کروڑوں مظلوموں کو انصاف صرف تب ہی مل سکتا ہے جب ہندوستان کا محنت کش طبقہ منظم ہو کر اس وحشی سرمایہ دارانہ ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرے اور ذرائع پیداوار کو اپنے جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے تمام وسائل کا رخ تعلیم، صحت اور دیگر انسانی ضرورتوں کی جانب موڑ دے۔ اور صرف اسی طریقے سے مستقل طور پر وحشیانہ ریاستی جبر کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
دیویکا کی قاتل ہندوستانی ریاست مردہ باد!