ایران میں طلبہ تحریک: رجعت پرستی کی لاش پر نوجوانوں کا رقص

|تحریر: ثاقب اسماعیل|

بائیس سالہ مہسا امینی کے ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد ایران میں احتجاجی تحریک انقلابی بغاوت میں بدل چکی ہے۔ ایران کا سرمایہ دار حکمران طبقہ اور ملا اشرافیہ گزشتہ چار دہائیوں سے اپنے مخالفین کو ماورائے عدالت قتل کرنے، لاپتہ کرنے، خواتین کو صعوبتیں دینے اور محنت کش عوام پر معاشی جبر ڈھانے میں اتنا مگن تھا کہ بھول گیا تھا کہ عوام کیڑے مکوڑے نہیں ہیں۔ یہ خوش فہمی دنیا بھر میں موجود حکمران طبقے کا خاصہ ہے۔
ایران میں انقلابی بغاوت کی شدت کو اسلامی جمہوریہ خونی کریک ڈاؤن سے وقتی طور پر کم کرنے میں کامیاب تو ہوئی مگر پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود اب بھی کردستان، زاہدان اور آباندان میں احتجاجوں کا سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ انقلابی تحریک کی قیادت ایران کے انقلابی نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ بدترین ریاستی جبر کے باوجود نوجوانوں نے انقلابی کمیٹیوں کے ذریعے خود کو متحرک کیا اور لیف لیٹس کے ذریعے عام ہڑتال کا پیغام ملک بھر میں پھیلایا۔
7 دسمبر 2022ء کو ایرانی طلبہ کی طرف سے منائے گئے ملک گیر سٹوڈنٹ ڈے پر 100 سے زیادہ یونیورسٹیوں کے طلبہ نے تین روزہ ہڑتال، جو کہ پانچ دسمبر کو شروع ہوئی تھی، میں حصہ لیا۔ 150 سے زائد یونیورسٹیوں اور متعدد کالجوں و سکولوں کے طلبہ نے احتجاج میں حصہ لیا۔
مہسا امینی کے آبائی شہر سقیز سے شروع ہونے والے احتجاج 282 سے زائد شہروں تک پھیلے۔ نوجوانوں نے رجیم سے وابستہ عمارتوں کو آگ لگائی اور سیکورٹی فورسز کا راستہ روکنے کے لیے مختلف شہروں اور قصبوں کے بیچ پہاڑی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کیں جہاں پرتشدد جھڑپیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ ان میں شیشے کی بوتل سے بنایا گیا ایک قسم کا آتش گیر بم مولوف کاک ٹیل کا استعمال عام ہوا۔ مختلف علاقوں سے نوجوانوں نے سیکورٹی فورسز کو نکال باہر کیا۔ ایذہ کے شہر سے سیکورٹی فورسز کا نوجوانوں نے مکمل طور پر صفایا کر دیا تھا جس کا جواب ریاست نے انتہائی وحشیانہ جبر سے دیا۔
تبریز میں طلبہ نے یونیورسٹیوں کے باہر ریلیاں نکالیں جن میں ایک نیا نعرہ ”67 تا آبان، خون میں ڈوبا ایران“ لگایا گیا۔ ”67“ سے مراد 1988 (ایرانی کیلنڈر کے مطابق سال 1367) ہے جب بڑے پیمانے پر بائیں بازو کے کارکنان کو سزائے موت دی گئی تھی اور آبان (ایرانی کیلنڈر کا مہینہ) سے مراد نومبر 2019ء کی بغاوت ہے۔ خوزستان کے اندر اہواز اور آباندان یونیورسٹیوں کے طلبہ نے نعرہ لگایا: ”زاہدان تا تبریز۔۔۔ غربت، کرپشن اور تفریق“۔
”زن، زندگی آزادی، مرگ بر آمر، مرگ بر ستمگر، بادشاہ ہو یا رہبر“ کے ساتھ نئے نعرے بھی شامل کیے گئے جیسا کہ، ”اپنے ساتھیوں کے لہو کی قسم، آخر تک کھڑے رہیں گے ہم“ اور ”جب تک ہم تمہارا تختہ الٹ نہیں دیتے، کرپشن اور غربت برقرار رہے گی“ مریوان، مہاباد، سقز، سنندج اور مشھد کی یونیورسٹیاں، سڑکیں اور گلیاں بھی ”مرگ بر خامنائی، نہ بادشاہ کی، نہ ہی ملاؤں کی؛ تمام طاقتیں شوریٰ کی“ کے انقلابی نعروں سے گونج رہے ہیں۔
کرد اکثریتی علاقوں میں بدترین ریاستی جبر کے باوجود انقلابی نوجوانوں نے انقلابی کونسلیں (شوریٰ) بنائیں جو کہ 1979ء کے ایرانی انقلاب سے متاثر ہیں جو درحقیقت محنت کش عوام کا انقلاب تھا جسے انقلابی قیادت کی نظریاتی غلطیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملاؤں نے ہائی جیک کرلیا تھا۔ گو کہ اس اقدام میں سماج کی وسیع تر پرتیں شامل نہیں مگر یہ ایک مثبت قدم ہے۔
”مہسا امینی بغاوت“ جو اب اصلاحات نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کر رہی ہے، کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر، ایک تازہ خوشبو دار اٹھان کی صورت میں سامنے آئی ہے جس کے اثرات دنیا بھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر اسلامی جمہوریہ اس انقلابی بغاوت کو جبر کے ذریعے کچل بھی دے، تو بھی ”زن، زندگی، آزادی“ اور ”مرگ بر آمر“ کے نعرے لگانے والے سکولوں کے بچے، سڑکوں پر رقص کرتی خواتین، انقلابی کمیٹیاں بنانے والے نوجوان، محنت کش الغرض پورا سماج اس بغاوت سے پہلے والے سماج سے شعوری طور پر کئی گنا مختلف ہو گا جو کہ ایرانی ملا اشرافیہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا موجب بن سکتا ہے۔ ایرانی نوجوان خواتین کا ایران کی سڑکوں پر رقص رجعت پرستی کی گلتی سڑتی لاش پر رقص ہے۔
نوجوانوں کی انقلابی بغاوت سے متاثر ہو کر محنت کشوں کی ہڑتالیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جنہوں نے نوجوانوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ جن میں پیٹرو کیمیکل کمپنی کا فیز 19، خوزستان کی مسجد سلمان پیٹرو کیمیکل کمپنی، بہمن موٹرز اور اصفہان کے لوہے کا کارخانہ وغیرہ شامل ہیں۔ تبریز، تہران اور مشھد کے بازار بھی ہڑتالوں کی وجہ سے بند رہے۔ اس کے علاوہ تہران کے اندر ٹرک ڈرائیوروں اور اکبر آباد کارگو ٹرمینل میں کام کرنے والے دیگر محنت کشوں نے ایک سیاسی ہڑتال شروع کی جن میں محنت کش یہ نعرہ لگا رہے ہیں، ”گھبراؤ نہیں، ہم ساتھ ہیں“ اور ”مرگ بر آمر“۔
ریاستی اعداد و شمار کے مطابق اب تک بیس ہزار افراد کو قیدی بنایا گیا ہے جبکہ 500 سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ فورسز نے مختلف یونیورسٹیاں قبضے میں لے لی ہیں۔ احتجاج میں شامل ہونے والے طلبہ کو یونیورسٹیوں سے بے دخلی و گرفتاریوں کا سامنا ہے۔ جس کی وجہ سے انقلابی بغاوت کو نشیب و فراز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ نوجوانوں کو اسلامی جمہوریہ کا تختہ الٹنے کے لیے محنت کشوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔ کیونکہ محنت کش ہی ہیں جو پوری معیشت کا پہیہ روک سکتے ہیں اور ریاست کو ہوا میں معلق کر سکتے ہیں جیسے 1979ء کے ایرانی انقلاب میں محنت کشوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ نوجوانوں کی ترقی پسند پرت جو انقلابی کمیٹیوں میں منظم ہے نے پہلے ہی نتیجہ اخذ کر لیا کہ محنت کشوں کا ساتھ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ نوجوان اکتوبر کے مہینے سے محنت کشوں کی تحریک میں شمولیت اور ملک گیر عام ہڑتال کی کالیں دے رہے تھے۔

ایران بھر کے طلبہ اور نوجوانوں کی انقلابی کمیٹیوں نے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا کہ: ”محنت کشو، اساتذہ، مستعفی ہونے والو، کسانو، نرسز، ڈاکٹرز اور وہ سارے جن کو ہماری جیسی تکالیف کا سامنا ہے: ایک ہونے کا عظیم وقت، ہمارے متحد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ ہم سب کو پتہ ہی ہے کہ یہ حکومت ہمارے ملک کے لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی! انہوں نے ہمیں جو بھی کرنے کو کہا ہم نے اس کی مزاحمت کی؛ ہم ریاست، شرعی حکمران، یا اس کے جبر کے آلات کے سامنے نہیں جھکے۔ ہم مل کر کھڑے ہیں، کیونکہ اسی اتحاد کے ذریعے ہمارے انقلاب کی حتمی فتح ممکن ہوگی!“
ایران و افغانستان میں بنیاد پرستوں کی ظلم و بربریت ہو، مشرق وسطیٰ میں سامراجی خونی جنگیں، دہشت گردی، یا سری لنکا اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں عوام پر ڈھایا جانے والا معاشی جبر ہو، اس تمام خونریزی کی جڑیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پنہاں ہیں۔ اس نظام کے محافظ ایران کی ملا اشرافیہ بھی ہے اور افغانستان پہ قابض طالبان بھی، امریکہ کا وائٹ ہاؤس بھی اور برطانوی پارلیمنٹ بھی۔ پاکستان کی سول و ملٹری اشرافیہ ہوں یا انڈیا کا حکمران طبقہ، عرب شیوخ ہوں یا اسرائیلی ریاست الغرض دنیا بھر کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی موت مر چکے بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کا محافظ ہی ہے جس کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمے سے ہی ایران سمیت دنیا بھر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی نجات ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.