|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|
مورخہ 16 نومبر، بروز سوموار پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے ”تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے خلاف کیسے لڑا جائے؟“ کے عنوان پر سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ اس سٹڈی سرکل کا بنیادی مقصد پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ تک پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے 19 دسمبر کو منعقد کیے جانے والے ملگ گیر ”سٹوڈنٹس دے آف ایکشن“ کا پیغام پہنچانا اور اس میں شمولیت کی دعوت دینا تھا۔ سٹڈی سرکل میں فلسفہ، قانون، پولیکٹیکل سائنس، کمپیوٹر سائنس اور دیگر ڈیپارٹمنٹس سے طلبہ نے شرکت کی جبکہ کچھ طلبہ مختلف وجوہات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ بہرحال پی وائی اے ایک شاندار سٹڈی سرکل کا انعقاد کرنے میں کامیاب رہا۔ فلسفہ ڈیپارٹمنٹ کے طالبعلم اور پی وائی اے کے رکن صابر نے پروگریسو یوتھ الائنس کا تعارف کروایا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کا مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے لیکن ابھی تک اس کے خلاف جدوجہد کرنا تو درکنار کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ طلبہ روزانہ کی بنیاد پر ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں لیکن تعلیمی ادارے اس کے خلاف انہیں آواز اٹھانے کی اجازت نہیں دیتے، جس کی وجہ سے وہ لگاتار ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ بے شمار واقعات تو ایسے ہیں کہ جب طلبہ نے انہیں مسائل سے تنگ آ کر خودکشی کی ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس پورے پاکستان میں طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ہراسانی سمیت دیگر تمام مسائل کے خلاف ملک گیر سطح پر جدوجہد کا آغاز کیا جا سکے۔ صابر نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی کے اندر ہونے والا یہ سٹڈی سرکل انتہائی ضروری ہے تاکہ یہاں بھی ان مسائل کے خاتمے کے لیے طلبہ کو منظم کیا جا سکے۔
اس کے بعدپروگریسو یوتھ الائنس کے آرگنائزر رائے اسد نے پی وائی اے کے ہراسانی کے خاتمے کے لائحہ عمل پر اور پنجاب یونیورسٹی میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی ضرورت پر بات کی۔ اسد نے کہا کہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی بننے کی صورت میں تعلیمی اداروں میں کسی بھی طالبعلم کے ساتھ ہراسانی کا کوئی واقعہ پیش آنے طلبہ اس کمیٹی کے ذریعے طلبہ حرکت میں آ کر فوراً احتجاج کی کال دے سکتے ہیں۔ اسی طرح ہراساں کرنے والے درندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد پروگریسو یوتھ الائنس کے آرگنائزر فضیل اصغر نے ملک گیر سطح پر ان کمیٹیوں کی تشکیل اور ہراسمنٹ کے مسئلے کو طلبہ کے دیگر مسائل کے ساتھ جوڑتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد اور اس کی اہمیت بیان کی۔
اس کے بعد سرکل کے شرکاء میں ایک سوال نامہ تقسیم کیا گیا جس پر پی وائی اے کے بنیادی مطالبات درج تھے اور اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی تشکیل پر بات کی گئی تھی۔ تمام شرکاء نے مطالبات اور اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے اتفاق کیا اور پی وائی اے کے موقف کو سراہا۔ شرکاء پر مشتمل ایک ٹیم کی تشکیل دی گئی جو ان مطالبات کو طلبہ کی بڑی تعداد تک لے کر جائے گی اور پنجاب یونیورسٹی میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ سرکل میں ہدف لیا گیا کہ نئی تشکیل دی جانے والی ٹیم جلد سے جلد اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی تعمیر کرے گی۔ سرکل کے اختتام میں شرکاء کو 19 دسمبر کو ہونے والے ملک گیر ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ میں شرکت کی دعوت دی گئی جس پر طلبہ نے دلچسپی اور جوش و خروش کا اظہار کیا۔