اسلام آباد: قائد اعظم یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ پر تشدد اور گرفتاریاں، ریاستی حملے کا جواب۔۔۔ طلبہ اتحاد!

|منجانب: پروگریسو یوتھ الائنس|

گزشتہ روز قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کے جاری احتجاج پر پولیس کی جانب سے بدترین تشدد کیا گیا اور ستر سے زائد طلبہ کو گرفتار کرکے حوالات بھیج دیا گیا۔ پولیس تشدد کے نتیجے میں کئی طلبہ شدید زخمی بھی ہوئے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں پرامن طلبہ پر ہونے والا یہ تشدد ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ رات گئے گرفتار طلبہ کو رہا کردیا گیا اور یونیورسٹی سے نکالے گئے طلبہ کی بحالی کے لئے احتجاج آج بھی جاری ہے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس طلبہ پر اس بدترین تشدد کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ذمہ داران کے خلاف فوری کاروائی کی جائے اور اس لڑائی میں طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ 

گزشتہ روز ہونے والے اس واقعے کے خلاف ملک کے بہت سے حصوں میں بلوچ اور پشتون سٹوڈنٹ کونسلز کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں دیگر طلبہ بھی شامل تھے۔ اسی طرح بہت سی قوم پرست اور نام نہاد ’بائیں بازو‘ کی پارٹیاں بھی اس واقعے پر اپنی سیاست چمکاتی نظر آرہی ہیں۔ اس حوالے سے ان واقعات کا گہرائی میں جائزہ لینے اور اس ریاستی حملے کے پیچھے چھپے ریاست کے مذموم عزائم کا پردہ چاک کرنے کی ضرورت ہے۔ 

یہ واقعہ ہرگز کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ ریاستی اداروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی ایک سوچی سمجھی چال تھی جس کا مقصد قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے خلاف ہونے والی کامیاب ہڑتال اوراس کے ملک بھر کے طلبہ پر ہونے والے اثرات کو زائل کرنا مقصود تھا۔ اس حملے سے ریاست طلبہ تحریک کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور اس کو لسانیت کے زہر میں ڈبونا چاہتی ہے۔ مشال خان کے قتل خلاف اٹھنے والی طلبہ تحریک کے بعد قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی 17روز تک جاری رہنے والی یہ کامیاب ہڑتال طلبہ تحریک میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ فیسوں میں اضافے، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی کمی، بیجا سیکیورٹی اور دیگر مسائل کے خلاف قائد ین سٹوڈنٹس فیڈریشن، جو کہ مختلف علاقائی کونسلز کا اتحاد ہے، کی جانب سے ہڑتال کی کال دی گئی جس کو عام طلبہ میں بھرپور پذیرائی ملی۔ طلبہ نے پوری یونیورسٹی کو بند کردیا اور ہر طرح کی تعلیمی سرگرمیوں کو مکمل طور پر جام کردیا۔ اس دوران احتجاجی طلبہ کی قیادت کے ضلعی انتظامیہ سے لے کر وزیر تعلیم کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور چلے جس میں ان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کریں تو ان کے مطالبات پر غور کیا جائے گا مگر نیچے سے عام طلبہ کے دباؤ اور پورے ملک میں ہونے والے یکجہتی کے مظاہروں کے نتیجے میں قیادت متذبذب ہونے کے باوجود ایسا کرنے سے قاصر تھی۔ جس وقت ہڑتال کا آغاز ہوا توکچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہاگیا کہ یہ ہڑتال محض مئی کے مہینے میں ہونے والی سندھی اور بلوچ کونسلز کی لڑائی کے نتیجے میں یونیورسٹی سے نکالے گئے طلبہ کی رہائی کے لیے کی جارہی ہے اور QSFکی قیادت ان طلبہ کو بحال کروانے کے لئے دیگر مطالبات کو ساتھ ملا کر سیاست کر رہی ہے۔ اسی بنا پر بہت سے نام نہاد بائیں بازو کے بڑے دانشوروں اور پارٹیوں نے اس ہڑتال کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ اگر یہ بات درست بھی ہے تو QSFکی جانب سے دئیے جانے والے چارٹر آف ڈیمانڈز کے منظر عام پر آنے اور اس کو عام طلبہ میں ملنے والی پذیرائی نے حالات کا رخ یکسر موڑ دیا اور یہی نقطہ یہ بڑے دماغ سمجھنے سے قاصر رہے۔ 

پچھلے لمبے عرصے سے ہونے والے معاشی حملوں کے نتیجے میں عام طلبہ کے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیم کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آئے روز بڑھنے والے تعلیمی اخراجات نے ان کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے۔ فیسیں ہیں کہ بڑھتی جا رہی ہیں اور سہولیات غائب ہوتی جارہی ہیں۔ سونے پر سہاگہ سیکیورٹی کے نام پر یونیورسٹیوں میں جاری جبر جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کالجوں کی نجکاری بھی جاری ہے۔ اس سب کے خلاف عام طلبہ میں غم و غصہ موجود تھا۔ ایسے میں QSFکی جانب سے کی جانے والی ہڑتال اور چارٹر آف ڈیمانڈ میں پیش کیے گئے مطالبات کو عام طلبہ میں حمایت ملی۔ صورتحال واضح طور پر بدل گئی اور عام طلبہ کا ہڑتال میں کردار بڑھتا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی جاری ہڑتال کے حق میں اور فیسوں میں اضافے کے خلاف مظاہرے ہوئے جس سے ہڑتال کو شکتی اور حوصلہ ملا۔ قیادت پر بھی یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ وہ مصالحت کرکے پیچھے ہٹتے ہیں تو طلبہ انہیں مسترد کرتے ہوئے نئی اور ریڈیکل قیادت تراش لائیں گے۔ ریاست کے لیے بھی یہ ہڑتال ایک امتحان تھا۔ اگر قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات مان لیتی تو یہ ملک بھر کے طلبہ کے لیے ایک مثال بن جانی تھی کہ بڑھتی ہوئی فیسوں کے خلاف منظم ہوکر لڑا جائے تو کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا نے بھی ریاست کی گماشتگی کا ثبوت دیتے ہوئے 17 روز تک ہڑتال کے خلاف اپنی ہرزہ سرائی جاری رکھی۔ اس دوران قیادت کی نظریاتی کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آئیں جس کا ہر موقع پر اظہار ہوتا رہا۔ کوئی واضح حکمت عملی نہ ہونے کے باعث ہڑتال طوالت اختیار کرتی گئی۔ کئی موقعوں پر ایسا معلوم ہوتا تھاکہ ہڑتال ختم کردی جائے گی مگر نیچے سے دباؤ بڑھتا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ علاقائی بنیادوں پر بنے اس اتحاد کی محدودیت بھی واضح ہوتی گئی۔ قیادت میں دھڑے بندیاں واضح نظریاتی بنیادیں نہ ہونے کے باعث سب پر عیاں تھیں۔ مگر اس سب کے باوجود ایک ملک گیر مسئلہ بن جانے سے ہڑتال جاری رہی۔ ہڑتال کے دوران ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تیرہ مطالبات میں سے بارہ تسلیم کرلیے ہیں ماسوائے فیسوں میں اضافہ واپس لینے کے مطالبے کو۔ اس میں نکالے گئے طلبہ کی بحالی بھی شامل تھی۔ مگر قیادت کو معلوم تھا کہ اگر اس مطالبے کو منوائے بغیر ہڑتال ختم کی گئی تو وہ اپنا جواز کھو دیں گے۔ بالآخر فیسوں میں اضافے سمیت بارہ مطالبات تسلیم کرلیے گئے مگر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نکالے گئے طلبہ کی بحالی کو موخر کردیا گیا اور اس کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی گئی جس کے بعد QSFنے ہڑتال ختم کردی۔ مگر ریاست نے اپنی چال چل دی۔ نکالے گئے طلبہ کی بحالی کو موخر کرکے ریاست اس کامیاب ہڑتال کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک بار پھر طلبہ تحریک کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتی تھی۔ یہ ایک سوچی سمجھی چال تھی اور اس کے نتائج بھی ریاستی اداروں کو خوب واضح تھے۔ بلوچ کونسل نے QSF سے علیحدہ ہوتے ہوئے یکطرفہ طور پر اپنے طلبہ کی بحالی کے لیے احتجاج پر جانے کے فیصلہ کیا جن کو بعد ازاں پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور کئی طلبہ کو گرفتار کر کے ایک واضح پیغام دیا گیا۔

اس حوالے سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ ریاست کی جانب سے طلبہ تحریک پر حملہ تھا اور ریاستی اداروں کی طرف سے طلبہ تحریک کو نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش تھی۔ اس حملے کو قائد اعظم یونیورسٹی کی کامیاب ہڑتال کے پس منظر میں دیکھا جائے تو صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کی اس ہڑتال کوملک بھر کے طلبہ کی ہراول پرتوں کی جانب سے بھرپور حمایت ملی اور اس ہڑتال نے دیگر اداروں کے طلبہ کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔ ہم اس کامیاب ہڑتال کے لئے QSF کی قیادت اور طلبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ طلبہ حقوق کی یہ لڑائی جاری رکھیں گے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ریاست اور حکمران طبقات جاری معاشی اور سیاسی بحران کے نتیجے میں ابھرنے والی کسی بھی تحریک سے خوفزدہ ہیں۔ معاشی بحران نے محنت کشوں کی زندگیوں کو ایک عذاب مسلسل بنا دیا ہے۔ معاشی بحران کا سارا بوجھ مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار اور نجکاری کی صورت میں عام محنت کشوں پر ڈالا گیا ہے۔ اس کے ساتھ جاری سیاسی بحران نے ریاست کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ مختلف سامراجی طاقتوں کی بیک وقت غلامی نے ریاستی اداروں اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائی کو مہمیز دی ہے۔ ایسے میں اس حکمران طبقے کے پاس محنت کشوں اور نوجوانوں کو دینے کے لیے سوائے غربت، لاعلاجی، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور جہالت کے کچھ بھی نہیں۔ یہ حکمران نہیں چاہتے کہ اس ملک میں عام غریب محنت کشوں کے بچے تعلیم حاصل کریں۔ اس بحران کے نتیجے میں پنپنے والا غم و غصہ ایک سماجی دھماکے کی صورت میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کے تصور سے ہی ریاست اور حکمران طبقہ لرز کر رہ جاتا ہے۔ خاص طور پر پچھلے سارے عرصے میں جس تیز رفتاری سے فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے اور طلبہ پر جبر کی انتہا کردی گئی ہے اس کے خلاف شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اس ممکنہ تحریک کو روکنے کے لیے حکمران طبقہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کو مختلف لسانی، نسلی یا مذہبی تعصبات پھیلا کر تقسیم کیا جائے۔ اس حوالے سے اس ریاست کے رجعتی کردار کو سمجھنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ پر تشدد کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پچھلے ایک سال کا ہی جائزہ لیا جائے تو کئی مثالیں مل جائیں گی۔ لاہور چیئرنگ کراس حملے کے بعد پولیس کی جانب سے پشتون محنت کشوں کے خلاف شروع کی گئی گھٹیا اور غلیظ کیمپین، پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے پر ریاست کی گماشتہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کا حملہ، مشال خان کا ریاستی پشت پناہی میں گماشتہ طلبہ تنظیموں کی مدد سے بہیمانہ قتل اس ریاست کے کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ یہ ریاست اور حکمران طبقہ کس حد تک غلیظ ہے۔ حکمران طبقہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے سماج کو تقسیم کیا جائے۔ محنت کشوں اور نوجوانوں میں تعصبات کو ہوا دی جائے۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ہی ہے حکمران طبقے کو ان کوششوں میں مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور محنت کشوں اور نوجوانوں نے حکمران طبقے کی طرف سے مسلط کی جانے والی ہر طرح کی رجعتیت اور تعصبات کو رد کیا ہے اور یکجہتی اور جڑت سے ان حملوں کا جواب دیا ہے۔ پچھلے عرصے میں محنت کشوں اور طلبہ کی اپنے مسائل کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں سیاسی پارٹیوں کا کردار بھی کھل کر سامنے آیا ہے۔ اگر یہاں بس قائد اعظم یونیورسٹی کی ہڑتال کا ہی ذکر کریں تو تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں کا کردار کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ کسی بھی پارٹی نے اس ہڑتال کو کامیاب بنانے کے لیے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا بلکہ وہ خوف کا شکار ہیں۔ نام نہاد بایاں بازو بھی پوری ہڑتال کے دوران ن لیگ کو ترقی پسند جماعت بنا کر پیش کرنے اور نواز شریف کو پاکستان میں برپا ہونے والے جمہور انقلاب کا لیڈر بنا کر پیش کرنے میں مصروف عمل تھا۔

دوسری جانب قوم پرست پارٹیاں بھی ریاست کے اس حملے کا طبقاتی جڑت اور یکجہتی سے جواب دینے کی بجائے اس واقعے کو اپنے سیاسی اور گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ ہم کسی بھی جبر بشمو ل قومی جبر کی نا صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف جدوجہد میں ہیں۔ ہم مظلوم قومیتوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں اس لڑائی کو طبقاتی بنیادوں پر لڑ کر ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔رجعتی پاکستانی ریاست کے مظلوم قومیتوں پر سامراجی جبر کی شدید مخالفت کرتے ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا مقابلہ ایک طبقاتی لڑائی سے کیا جاسکتا ہے جس کے لئے محنت کش طبقے کی طبقاتی بنیادوں پر جڑت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس واقعے کے فوری بعد مختلف قوم پرست جماعتوں نے اس پر اپنی سیاست چمکانی شروع کردی ہے اور بھرپور طریقے سے قوم پرستی کا زہر اگل رہی ہیں۔ یہ وہی جماعتیں ہیں جو کبھی امریکی سامراج کی افغانستان میں مداخلت کی حمایت کرتی آئی ہیں۔ ’جمہوریت‘ اور ’آئین‘ کی بالادستی کے لیے نواز شریف کا بھرپور دفاع کر رہی ہیں اور قوم پرستی کی چیمپئن جماعت کے دور حکومت میں ہی بلوچستان میں تاریخ کا بدترین فوجی آپریشن جاری ہے۔ یہ قوم پرست پارٹیاں اپنی تاریخی زوال پذیری میں جمہوریت اور فوج دشمنی کے نام پر وفاقِ پاکستا ن کی حمایت میں کھڑی نظر آتی ہیں۔ 

طلبہ تحریک میں موجود لسانی عناصر پر بھی بات کرنا لازمی ٹھہرتا ہے جو کہ پچھلے عرصے میں کئی بار ریاستی اداروں اور یونیورسٹی کی انتظامیہ کے ہاتھوں استعمال ہوتے آئے ہیں اور طلبہ اتحاد کے رستے کی ایک زنجیر ہیں۔ طلبہ یونینز پر پابندی سے پیدا ہونے والے خلا کو ان نسلی بنیادوں پر بننے والی کونسلز اور رنگ برنگی سوسائٹیز نے پورا کیا۔ یہ کونسلز اپنے کردار میں رجعتی اور ردانقلابی ہیں۔ کوئی واضح و یکساں نظریاتی بنیادوں کی عدم موجودگی ، درست پروگرام نہ ہونے اور ’غیر سیاسی‘ ہونے کے باعث یہ کبھی انتظامیہ کے ایک د ھڑے تو کبھی کسی دوسری دھڑے کے ہاتھوں میں کھیلتی آئی ہیں۔ ہم طلبہ تحریک میں موجود کسی بھی ایسی تقسیم کے مخالف ہیں جو کہ ریاستی چالوں کودرست نظریاتی بنیادیں نہ ہونے کے باعث سمجھنے سے قاصر ہو اور طلبہ اتحادکو نقصان پہنچائے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ پر ہونے والا یہ تشدد ریاست اور حکمران طبقے کا آخری حملہ نہیں ہے ۔ جیسے جیسے طلبہ تحریک آگے بڑھے گی ان حملوں میں شدت آئے گی۔ ریاست طلبہ تحریک کو اپنی پوری طاقت استعمال کرتے ہوئے نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کرے گی اور اس کا مقابلہ صرف اور صرف طلبہ اتحاد سے کیا جاسکتاہے۔ طلبہ کا یہ اتحاد صرف اور صرف طبقاتی بنیادوں پر یقینی بنایا جاسکتا ہے اور کسی بھی دیگر بنیاد پر بننے والے اتحاد کو حکمران طبقات اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ ماضی کے تجربات بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں اور ان تجربات سے اسباق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ فیسوں میں اضافے، طلبہ یونیز پر پابندی، بیروزگاری، تعلیمی اداروں کی نجکاری، سیکیورٹی کے نام پر جبر، ہاسٹلز کی کمی اور غیر معیاری حالت، ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں کی محدود تعداد، میرٹ، قومی جبر، صنفی امتیاز وغیرہ وہ مسائل ہیں جن کی بنیاد پر اس اتحاد کو ناصرف تشکیل دیاجاسکتا ہے بلکہ ایک بھرپور لڑائی بھی لڑی جاسکتی ہے ۔ اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ تحریک کو انقلابی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ طلبہ تحریک ترقی پسند نظریات سے لیس ہو اور اس بنیاد پر درپیش مسائل کے حل کے لئے درست پروگرام اور لائحہ عمل موجود ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مارکسزم کے نظریات ہی آج وہ واحد نظریات ہیں جس کی بنیاد پر نا صرف معروضی حالات کا درست تجزیہ کیا جا سکتا ہے بلکہ طلبہ تحریک کے لئے ایک واضح پروگرام اور لائحہ عمل بھی ترتیب دیاجاسکتا ہے۔ حکمران طبقات اور ریاست کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے طلبہ کا منظم ہونا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس طلبہ کی اپنے مسائل کے خلاف لڑائیوں میں عملی طور پر شریک ہے اور طلبہ تحریک کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ پروگریسیو یوتھ الائنس نے قائد اعظم یونیورسٹی کی اس ہڑتال کے ہر مرحلے پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے اور پورے پاکستان میں ہر سطح پر مفت تعلیم، روزگار کی فراہمی، طلبہ یونین کی بحالی اور قومی جبر کے خلاف لڑائی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

ریاستی دہشت گردی مردہ باد!

تعلیم کا کاروبار نامنظور!

طلبہ اتحاد زندہ باد!

حتمی فتح تک ناقابلِ مصالحت جدوجہد!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.