”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“؛ ہے اسی شور میں موسیقی نئی صبح کی

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، مرکزی بیورو|

مورخہ 19 دسمبر، بروز ہفتہ پروگریسو یوتھ الائنس کی جانب سے طلبہ یونین پر پابندی، جنسی ہراسانی، بے روزگاری، مہنگائی، قومی و ریاستی جبر اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ملک گیر ”سٹوڈنس ڈے آف ایکشن“ کا انعقاد کیا گیا۔ ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے دن طلبہ اور نوجوانوں کی جانب سے ملک بھر کے 24 سے زیادہ شہروں میں ریلیاں، مظاہرے اور احتجاج منعقد کیے گئے، جن میں عوام کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ جن شہروں میں ریلیاں اور احتجاج منعقد کیے گئے ان میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد، لاڑکانہ، گوجرانوالہ، حیدرآباد، پشاور، کوئٹہ، ژوب، نواب شاہ، نوشہرو فیروز، ملتان، ڈی جی خان، ہنزہ، میرپور خاص، خاران، عمرکوٹ، مِٹھی، بہاولپور، راولاکوٹ، دھیرکوٹ و دیگر شامل ہیں۔

کرونا وبا کے دوران حکمرانوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں اور طلبہ پر ڈال دیا۔ لاک ڈاؤن کے دوران سہولیات فراہم کیے بغیر آن لائن کلاسوں کے نام پر طلبہ کے ساتھ فراڈ کیا گیا اور جبری فیسیں وصول کی گئیں، کروڑوں لوگوں کو بے روزگار کیا گیا، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کر کے اشیائے ضروریات بشمول خوراک اور دوائیوں کی قیمتوں میں دو سو سے تین سو فیصد تک اضافہ کر کے محنت کشوں اور نو جوانوں پر حملے کیے گئے۔ ان تمام حالات کے پیشِ نظر پروگریسو یوتھ الائنس نے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے ایک ملک گیر احتجاج کر کے حکمران طبقہ کو بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے اعلان کے فوری بعد حکومت کی طرف سے کرونا وبا کی بِناء پر تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے جس کے باعث پی وائی اے کے کارکنوں نے فیکٹریوں، محلوں اور مارکیٹوں میں اپنی کمپئین کا آغاز کیا، جسے عوام کی طرف سے خوب سراہا گیا۔

”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے موقع پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں طلبہ اور نوجوانوں نے اِچھرہ سے موٹر سائیکل ریلی نکالی جو براستہ چوبرجی اور سول سیکٹیریٹ، پنجاب اسمبلی پر اختتام پذیر ہوئی، ریلی کے دوران طلبہ نے بے روزگاری، مہنگائی اور جنسی ہراسانی کے خلاف نعرے بازی کی اور انقلابی گیتوں سے شرکاء کا لہو گرمایا، پنجاب اسمبلی پہنچ کر ریلی نے جلسے کی صورت اختیار کر لی، ریلی سے پنجاب یونیورسٹی، لیڈز یونیورسٹی اوردیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ، آل ایمپلائز ایکشن کمیٹی آف پاکستان سٹیل مِل، لاہور یونٹ کے نمائندہ راؤ محمد نعیم و دیگر اداروں کے محنت کشوں اور پی وائی اے لاہور کے آرگنائزر رائے اسد و دیگر نے خطاب کیا۔ شرکاء نے سٹیل ملز سمیت تمام سرکاری اداروں کی نجکاری، آن لائن کلاسوں کے لیے تمام سہولیات کی مفت فراہمی، 2020 میں لی گئی فیسوں کی واپسی اور خواتین پر ہونے والے صنفی جبر کے خلاف بات کی۔


بلوچستان جو ملک کا ایک پسماندہ ترین صوبہ ہے اس کے نہایت اہم شہر کوئٹہ میں ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے سلسلے میں میٹرو پولیٹن سے پریس کلب تک پیدل مارچ کیا گیا، مارچ میں طلبہ اور محنت کشوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں بلوچستان یونیورسٹی، بیوٹمز، لاء کالج و دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ، اساتذہ اور ریلوے کے محنت کشوں نے خطاب کیا، جس میں بڑھتی مہنگائی، حکومت کے مزدور اور طلبہ دشمن اقدامات پر بات رکھی۔

اسلام آباد میں ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے سلسلے میں غوری ٹاؤن سے براستہ برما ٹاؤن و ترامڑی، ہاسٹل سٹی چٹھہ بختاور تک مارچ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں نوجوانوں، طلبہ اور محنت کشوں نے حصہ لیا، فیڈرل گرینڈ ہیلتھ الائنس کے وفد نے چیئرمین ڈاکٹر اسفند یار کی قیادت میں مارچ میں شرکت کی۔ پی وائی اے نے صحت کے شعبہ اور تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کے خلاف جدو جہد میں محنت کشوں کے شانہ بشانہ چلنے کا اعلان کیا۔ شرکاء نے طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مسائل پر تقاریر اور نعرے بازی کی۔

کراچی، جو آبادی و صنعتی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں محنت کش طبقے کی وسیع ترین پرتیں موجود ہیں، میں ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کی ریلی ریگل چوک تا کراچی پریس کلب نکالی گئی۔ ریلی میں گارمنٹ فیکٹری کے مزدوروں، جرنل ٹائر کے مزدوروں سمیت طلبہ اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ریلی کے دوران شرکاء مسلسل آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، نجکاری، مہنگی تعلیم، مہنگے علاج اور ریاستی جبر کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے تعلیمی اداروں، طلبہ تنظیموں کے نمائندوں، جرنل ٹائر کی مزدور یونین کے عہدیداران اور نیو کراچی گارمنٹ فیکٹری کے مزدور رہنما سمیت پی وائی کراچی یونٹ کے صدر آنند پرکاش، یونٹ کی جنرل سیکرٹری زینب، پی وائی کراچی کے رہنماء عادل عزیز اور ریڈ ورکرز فرنٹ سے انعم خان نے خطاب کیا۔

حیدرآباد میں نسیم نگر تا پریس کلب ریلی نکالی گئی جس میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ریلی کے دوران انقلابی نغمے اور نعرے فضا میں گونجتے رہے اور پریس کلب پر پہنچ کر شرکاء نے جلسہ کی صورت میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ پی وائی اے کی احتجاجی ریلی میں مختلف مزدور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں، تعلیمی اداروں کے طلبہ اور پی وائی اے کے آرگنائزر علی عیسیٰ سمیت دیگر نے خطاب کیا اور حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں، سندھ کے جزائر پر وفاق کے قبضہ اور پی وائی اے سندھ کے سرگرم کارکن امر فیاض سمیت تمام لاپتہ سیاسی اسیران کی رہائی اور مہنگی تعلیم سمیت دیگر مسائل پر بات کی اور محنت کشوں اور طلبہ کو منظم ہونے کا پیغام دیا۔


روالاکوٹ (کشمیر) میں پی وائی اے کے زیرِ اہتمام ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے سلسلے میں کالج گراؤنڈ سے کچہری چوک تک نوجوانوں اور مزدوروں کی احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا گیا، ریلی میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں جاری آٹا بحالی سبسڈی تحریک کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی کا اعلان کیا گیا اور لاک ڈاؤن میں ہونے والی بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے خلاف تمام بے روزگاروں کے لیے روزگار یا کم از کم اجرت کے برابر بے روزگاری الاؤنس سمیت طلبہ یونین کی بحالی، سامراجی قبضہ کے خاتمے و دیگر مسائل پر بات کی گئی۔

ُملتان میں چُنگی نمبر 9 تا گھنٹہ گھر موٹر سائیکلوں پر احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی میں ترقی پسند سیاسی کارکنان، طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ ریلی کے دوران مہنگائی، غربت اور لاعلاجی کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ گھنٹہ گھر پہنچ کر کمیونسٹ مزدور کسان پارٹی سے مرتضیٰ ملک، وسیب اتحاد سے محمد شہباز، اور پروگریسو یوتھ الائنس سے عارف کھوسہ اور فرحان رشید نے شرکاء سے خطاب کیا اور حکومت کی طلبہ اور مزدور دشمن پالیسیوں کی مذمت کی اور مفت تعلیم، روزگار یا بے روزگاری الاؤنس اور طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح ملک گیر ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے سلسلے مزید شہروں کے اہم مقامات پر ریلیاں اور مظاہرے کئے گئے، جیسے کہ مختلف پسماندہ شہروں مِٹھی اور خاران میں بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی، میر پور خاص میں پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا گیا، ڈی جی خان میں پریس کلب تا ٹریفک چوک پیدل مارچ کا انعقاد کیا گیا، خاران میں فٹبال سٹیڈیم سے پریس کلب تک ریلی نکالی گئی، نواب شاہ میں جی ایم سید چوک سے پریس کلب پیدل مارچ، گوجرانوالہ میں گوجرانوالہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، ژوب میں پریس کلب پر احتجاج کیا گیا، لاڑکانہ میں ٹینک چوک سے پریس کلب تک مارچ منعقد کیا گیا، بہاولپور میں چوک فوارہ سے پریس کلب تک ریلی نکالی گئی، ہنزہ گلگت میں پریس کلب پر مظاہرہ کیا گیا، چکدرہ (کے پی کے) میں یونیورسٹی روڈ تا ادنزئی پریس کلب ریلی کا انعقاد کیا گیا، فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ کاؤنسل ہال سے پریس کلب تک ریلی نکاکی گئی، دھیر کوٹ میں رنگلہ روڈ سے سٹی ہسپتال تک مارچ کا انعقاد کیا گیا، پشاور میں پریس کلب پر مظاہرہ کیا گیا، مِٹھی میں صادق فقیر چوک سے پریس کلب تک مارچ کیا گیا، جلالپور پیر والہ میں خانبیلہ چوک پر مظاہرہ کیا گیا، علی پور میں اُرلہ کے مقام پر مظاہرہ کیا گیا، شاہ صدر دین میں احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا، اسی طرح عمرکوٹ سمیت کئی اور شہروں میں بھی ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کی سرگرمیاں منعقد کی گئیں۔

ملک بھر میں 24 سے زیادہ شہروں میں پی وائی اے کے سرگرم کارکن امر فیاض کی بازیابی کے لیے بھی ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ کے موقع پر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ امر فیاض کو 8 نومبر سے رات کی تاریکی میں ریاستی اداروں نے اغوا کر لیا تھا، احتجاجوں کے دوران مطالبہ کیا گیا کہ اگر امر فیاض کا کوئی جرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے ورنہ امر فیاض سمیت تمام لاپتہ سیاسی اسیران کو فوری بازیاب کیا جائے۔

”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ موجودہ عرصے میں کسی بھی بائیں بازو کی واحد تنظیم کی سب سے بڑی سرگرمی تھی جو ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئی جب رائج الوقت تمام سیاست حکمران طبقہ کی آپسی لڑائی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے، عسکری و سول قیادت ہو یا مذہبی اور نام نہاد بائیں بازو کی تنظیمیں، ان کامقصد حکمران طبقہ کی لڑائی میں کسی ایک دھڑے کا ساتھ دینا رہ گیا ہے۔ ایسے عہد میں ملک گیر ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ محکوموں اور مظلوموں کے لیے امید کی کِرن ثابت ہوا ہے جو کہ طلبہ، مزدوروں اور عوام کی حقیقی مزاحمتی سیاست کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جہاں ملک کی مین سٹریم سیاست سے ایک بیگانگی پائی جاتی ہے اور جلسوں میں عوام کو کھلانے یا دیہاڑی کی عوض لایا جاتا ہے وہیں ”سٹوڈنٹس ڈے آف ایکشن“ میں شرکاء کو کسی لالچ سے نہیں لایا گیا تھا بلکہ محنت کشوں اور طلبہ نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر ٹرانسپورٹ و دیگر انتظامات کیے اور بھرپور شرکت کی۔

آخر میں ملک بھر کے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں کے سامنے پی وائی اے کی طرف سے آگے کا لائحہ عمل رکھا گیا، پی وائی اگلے مرحلے میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی، کام کی جگہوں، فیکٹریوں اور دفاترمیں محنت کشوں کی اور محلوں اور علاقوں میں عوام کی جمہوری منتخب کمیٹیاں بنانے کی طرف جائے گا جو تمام انتظامی و مالی معاملات افسر شاہی اور حکومت سے لے کر خود عوام کی نگرانی میں چلائیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.