پنجاب یونیورسٹی لاہور: ہاسٹل نمبر 1کے درزی کا قتل، سیکورٹی خاموش تماشائی

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

8 مارچ (جمعہ) کی رات پنجاب یونیورسٹی میں ہاسٹل نمبر 1 کے محنت کش درزی کو یونیورسٹی کے اندر ہاسٹل کے سامنے نا معلوم افراد نے قینچیاں مار کر ہلاک کر دیا۔واقعے کے بعد بھی کافی دیر تک گارڈز اور پولیس وہاں نہیں پہنچے، حالانکہ طالبعلم گارڈز کو بار بار مطلع کرتے رہے ۔ تعلیمی اداروں کے اندر اس طرح کے واقعات انتظامیہ اور سیکورٹی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔اس واقعے کے بعد رات کو ہی طلبہ نے قتل کے خلاف احتجاج بھی کیا اور ’قاتل قاتل، وی سی قاتل‘کے نعرے بھی لگائے ۔ان کا کہنا تھا کہ چھاپے مارنے کے لیے گارڈ رات کے چار چار بجے بھی ہاسٹلوں میں آ جاتے ہیں مگر ابھی بلانے پر بھی حیل و حجت کے بعد اتنی تاخیر سے آ رہے ہیں۔ پی وائی اے کے طالبعلم کارکنان بھی احتجاج میں موجود تھے۔ طلبہ نے انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہ سوال اٹھایا کہ اگر سیکورٹی کی موجودگی میں ایک محنت کش کا بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے تو طالبعلموں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہے؟

دیگر تعلیمی اداروں میں بھی آئے روز بہت سے اندوہناک واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ ریاست شہریوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔اس واقعے کو بنیاد بنا کر طلبہ میں خوف و حراس پھیلانے کی کوشش کی جائیگی اور ہو سکتا ہے کہ دیگر بہت سی یونیورسٹیوں کی طرح پنجاب یونیورسٹی میں بھی جگہ جگہ رینجرز تعینات کر دیے جائیں۔اس قتل کے پیچھے جو بھی محرکات ہیں لیکن اس سے مکمل فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ طلبہ اپنے مسائل پر بات نہ کر سکیں اور اپنے حقوق کے لئے منظم نہ ہو پائیں۔ جمعیت جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھی اس واقعے کو بنیاد بنا کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کریں گی۔ 

یونیورسٹیوں کو جیل بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس کا مقصد قطعاٌ طلبہ کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے بھی اسی طرح کے واقعات کو بنیاد بنا کر یونیورسٹیوں میں رینجرز تعینات کیے گئے اور سیکورٹی سخت تر کی گئی لیکن ایسے واقعات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔اس کی ایک مثال ہمیں مردان یونیورسٹی میں ملتی ہے جہاں اتنی ’سخت سیکیورٹی ‘ کے باوجود مشال خان کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔اس کے علاوہ باچا خان یونیورسٹی،اے پی ایس اور دوسری بہت سی یونیورسٹیوں کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں یونیورسٹیوں میں سیکورٹی کے معاملات طلبہ ہی بہترین طریقے سے چلا سکتے ہیں ۔ضیاء کے دور میں طلبہ یونین پر پابندی لگنے کے بعد اب تک یونینز بحال نہیں ہو پائیں اور اس دوران نام نہاد جمہوریت کے دور بھی آئے۔بلکہ یونیورسٹیوں کی ثقافت کو برباد کیا گیا ،طلبہ کے سیاسی شعور کو زوال پذیر کیا گیا اور نام نہاد سیکورٹی بھی انہیں پالیسیوں میں شامل ہے۔

طلبہ کو سب سے پہلے یونین کی بحالی کی جدوجہد کرنا ہوگی جس سے دیگر مسائل کے ساتھ سیکورٹی کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔انتخابات کے ذریعے اداروں میں طلبہ کے حقیقی نمائندے ہی منتخب ہو کر سیکورٹی کے معاملات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے سیکورٹی کے معاملات طلبہ کی منتخب شدہ کمیٹیوں کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انتظامیہ طلبہ کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔اس کے ساتھ ہی یونیورسٹیوں سے دہشت گردی ،غنڈہ گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ایسی تنظیموں کا بھی جو اس کا سبب بنتی ہیں۔طلبہ یونینز کے ذریعے ہی طلبہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے اور ان میں جڑت بڑھے گی ۔یہ جڑت ہی طلبہ کی سب سے بڑی طاقت اور ایسے واقعات کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس اس واقعے کی شدید مذمت کرتا ہے ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ انتظامیہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرے اور مجرموں کو فوری طور پر سزا دی جائے۔اور ساتھ ہی ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ طلبہ یونینز پر عائد پابندی کو ختم کیا جائے اور جلد از جلد انتخابات کروائے جائیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.