قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت بلتستان: طلبہ کی احتجاجی تحریک کے باعث انتظامیہ کچھ مطالبات ماننے پرمجبور۔۔۔ جدوجہد جاری رہے گی!

|پروگریسو یوتھ الائنس، گلگت بلتستان|

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی فیسوں میں اضافے کے خلاف یونیورسٹی طلبہ کے مسلسل احتجاج اور اس تحریک کے پھیلنے کے ڈر سے یونیورسٹی انتظامیہ نے پہلے اور تیسرے سمسٹر کے طلبہ کی فیسوں میں 10 فیصد کمی اور پانچویں اور ساتویں سمسٹر کے طلبہ کی فیسوں میں 15 فیصد کمی کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کامیابی پر ہم طلبہ کو شاندار جدوجہد کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک بات واضح رہے کہ یہ ہماری جدوجہد کا آغاز ہے، باقی مطالبات کی منظوری کے لیے بھی ہمیں اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہو گا۔

یاد رہے کہ پچھلے تین ماہ سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبہ فیسوں میں 50 فیصد کے ظالمانہ اضافے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ حالیہ احتجاجوں کے ابتدائی عرصے میں طلبہ کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور غم و غصے کو کچلنے کے لیے انتظامیہ نے طلبہ کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا اور احتجاج منظم کرنے والے 10 طلبہ کو یونیورسٹی سے بھی فارغ کر دیا۔ اسی عرصے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکن تجمل حسین کو غیر قانونی طور پر 14 دنوں تک قید بھی کر دیا گیا تاکہ طلبہ کو احتجاج کی طرف بڑھنے سے روکا جا سکے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احتجاجی طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہزاروں طلبہ، ان کے والدین، وکلاء، محنت کشوں کی یونینوں اور عام شہریوں نے جرتمندانہ انداز میں احتجاجوں میں شامل ہو کر انتظامیہ کے تمام ہتھکنڈوں کو ریت کی دیوار ثابت کر دیا۔

جہاں ایک طرف یونیورسٹی کے اندر طلبہ نے ہر کلاس اور ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں کے ذریعے طلبہ کی عبوری ایکشن کمیٹیاں قائم کرنا شروع کر دیں اور کلاسز کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے فیسوں کے مسئلے کے ساتھ ساتھ مزید 6 مطالبات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ جاری کر دیا۔ جس میں طلبہ یونین کی بحالی اور ہراسمنٹ جیسے سنگین مسئلے کا خاتمہ سر فہرست ہیں۔

مزید براں اس احتجاجی تحریک کے ابتدائی عرصے میں احتجاج کو منظم کرنے اور احتجاجی کمپیئن کو آگے بڑھانے کے لیے جو عبوری کمیٹیاں قائم کی گئیں تھیں انہیں ’آل طلبہ الائنس‘ کا نام دیتے ہوئے احتجاجی سلسلے کو یونیورسٹی کے باہر چوک چوراہوں پر لایا گیا اور گلوب چوک گلگت میں ہزاروں افراد کا احتجاجی مجمع سجایا گیا۔

دوسری طرف ملک بھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ اور ترقی پسند سیاسی کارکنان نے اس احتجاجی تحریک سے یکجہتی کے پیغامات جاری کرنا شروع کر دیے۔ اس یکجہتی اور قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ کی مسلسل جدوجہد سے خوفزدہ ہو کر انتظامیہ نے احتجاج کو توڑنے کے لیے مذاکرات کا ڈھونگ رچانا شروع کر دیا۔

گلگت بلتستان کی کٹھ پتلی حکومت نے طلبہ کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور تین ہفتوں کے لیے احتجاجی سلسلے کو موخر کیا گیا۔ لیکن بالآخر وقتی طور پر طلبہ کا احتجاج رکنے کی وجہ سے انتظامیہ نے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا اور مذاکرات ناکام ثابت ہوئے۔

لہٰذا طلبہ دوبارہ سڑکوں پر نکل آئے۔ جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف یونیورسٹی پہ تالے لگا دیے بلکہ طالبات کو یونیورسٹی ہاسٹل سے زبردستی نکالتے ہوئے غیر معینہ مدت کے لیے پوری یونیورسٹی ہی بند کر دی۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی اس گھناؤنی حرکت کے بعد نہ صرف طلبہ نے مین شاہراہ کو بند کر دیا بلکہ مین شاہراہ پر احتجاجی دھرنے پر بیٹھ گئے۔ بالآخر یونیورسٹی انتظامیہ سمیت گلگت بلتستان کی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور اسی روز پہلے اور تیسرے سمسٹر کی فیسوں میں 10 فیصد اور پانچویں اور ساتویں سمسٹر کی فیسوں میں 15 فیصد کمی کا اعلان جاری کر دیا۔ یہ طلبہ کے احتجاج کی پہلی جیت ہے، بہرحال دیگر تمام مطالبات فی الوقت نہیں مانے گئے۔

اس تمام عرصے میں پاکستان کی نام نہاد آزاد میڈیا نے یہ گوارہ بھی نہیں سمجھا کہ ٹھٹھرتے ہوئے اس سرد موسم میں ہزاروں طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کو سامنے لے آئے اور نہ ہی کسی صحافی نے اس موضوع پر لب کشائی کرنے کی جسارت کی۔ جس سے نام نہاد میڈیا کی طلبہ دشمنی اور انتظامیہ و ریاستی اداروں کی دلالی واضح ہو چکی ہے۔

بہرحال وقتی طور پر احتجاجی دھرنے کو ختم کر دیا گیا ہے لیکن طلبہ میں ابھی بھی انتظامہ کے اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید غم و غصہ موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں ایک بار پھر طلبہ احتجاج کی طرف رخ کریں گے۔ حالیہ فیسوں میں ظالمانہ اضافے کے مکمل خاتمے اور دیگر مطالبات کے لیے میدان میں اتریں گے۔

اس احتجاجی تحریک کو منظم کرنے میں پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے قائدانہ کردار ادا کیا اور ہم ہمیشہ کی طرح طلبہ کے حقوق کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ پہلے کی طرح انتظامیہ کئے گئے وعدوں سے مکر سکتی ہے اور انتقامی کاورائیاں کرنا شروع کر سکتی ہے۔

لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کے کریک ڈاؤن کے خلاف لڑنے کا یہی واحد راستہ ہے کہ یونیورسٹی میں زیادہ سے زیادہ طلبہ منظم ہوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کے سامنے یونیورسٹی کے ہر شعبہ میں طلبہ یونین کی بحالی کی بنیاد پر طلبہ کے الیکشنز منعقد کرانے کا مطالبہ رکھیں۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ یونین کے الیکشن نہیں کرواتی تو طلبہ خود آگے بڑھ کر ان الیکشنز کے انعقاد کا آغاز کریں۔ یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے طلبہ یونیورسٹی انتظامیہ کے ہر حملے کے جواب میں مؤثر طریقے سے اپنا دفاع کرتے ہوئے اپنی جدوجہد میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔

اسی سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس ملک بھر میں طلبہ اور نوجوانوں کو منظم کر رہا ہے اور طلبہ یونین پر عائد پابندی، فیسوں میں اضافے، تعلیمی بجٹ میں کٹوتی، بڑھتی ہوئی ہراسمنٹ اور دیگر مسائل کی بنیادی وجہ منافع پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے اور اس دھرتی پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد میں سرگرم عمل ہے۔ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بن کر آئی ایم ایف جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کی ایماء پر تعلیم دشمن فیصلے کرنے والے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ سوشلسٹ انقلاب ہی تمام مسائل سے مستقل نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ جس میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار نہیں بلکہ ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہو گا اور ہر سطح پر مفت فراہم کی جائے گی۔

پروگریسو یوتھ الائنس کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

جینا ہے تو لڑنا ہو گا!
طلبہ اتحاد زندہ باد!
سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.