برازیل: طلبہ بولسونارو کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے!

|تحریر: جو- ایٹارڈ|
|ترجمہ: فضیل اصغر|

گزشتہ اتوار دائیں بازو کا عوام دشمن برازیلی صدارتی امیدوار جیر بولسونارو 55 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگیا۔ اس (بولسونارو) نے 45 فیصد ووٹ لینے والے ورکرز پارٹی کے امیدوار فرنینڈو حداد (Fernando Haddad) کو شکست دی۔ پہلے دن سے ہی طلبہ اور نوجوان نئی رجعتی حکومت کے خلاف مسلسل لڑائی میں ہیں۔

بولسونارو کیسے جیت گیا؟
بولسونارو انتہائی رجعتی سیاست دان ہے جو خواتین سے نفرت کرتا ہے، جنسی جبر کا حمایتی ہے، نسل پرست ہے اور مزدور دوست سوشلسٹوں کا شدید مخالف ہے۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کو (جنہیں اس نے سرخ ہجوم red mob کا نام دیا ہوا ہے) اس نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے اور انہیں قید کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔
بہر حال یہاں پر ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ اسکے منتخب ہونے کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ فسطائیت (Fascism) کی جیت ہوئی ہے (جیسا کہ رجعتی اصلاح پسند پریس کی جانب سے کہا جا رہا ہے)۔ بولسونارو کی تمام تر پر تشدد بیان بازی کے باوجود، وہ کوئی بڑے پیمانے پر پیٹی بورژوا شدت پسند مسلح گروہوں کی قوت کا سربراہ نہیں ہے جس کا مقصد محنت کش طبقے کو طاقت کے زور پر کمزور کرنا ہو۔
برازیل میں محنت کش طبقہ اورا سکی تنظیمیں ابھی بھی طاقتور ہیں اور ابھی تک ان کو درست سمت نہیں دی گئی۔ اگر انہیں متحرک کیا جائے تو وہ با آسانی کسی بھی قسم کے رجعتی خطرے کا بھرپور جواب دے کر اسکا خاتمہ کر سکتی ہیں۔ ہم گزشتہ اتوار سے ہی بولسونارو کے حمایتیوں کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کی صورت میں اس کی جھلک دیکھ رہے ہیں۔
بولسونارو یقینا انتہائی دائیں بازو کا ایک کٹر شخص ہے جس کے ملٹری کیساتھ مضبوط تعلقات ہیں (سابقہ آرمی کپتان ہونے کی وجہ سے)۔ اس نے فوجی آمریت کی تعریفیں کی ہیں جو 1985ء تک برازیل میں موجود تھی۔ وہ فاشسٹ گینگز کو اپنا حمایتی سمجھتا ہے۔ یہ گینگ چھوٹے ہونے کے باوجود انتہائی خطرناک ہیں۔ پہلے ہی یہ ورکرز پارٹی کے کئی کارکنان کو انکے جسموں میں فاشسٹوں کا نشان سواستیکا (swastika) گھسا کر قتل کر چکے ہیں۔ مگر بولسنارو کی جیت میں بہت بڑا کردار بذات خود ورکرز پارٹی کا ہے جس نے اپنے تیرہ سالہ دور اقتدار میں بنیادی ضروریات میں شدید ترین کٹوتیاں اور معاشی حملے کر کے برازیلی محنت کش طبقے کے ان پر اعتماد کو تباہ کر دیا۔ اس الیکشن کے دوسرے راؤنڈ میں ’’فسطائیت‘‘ کے خلاف حداد نے محنت کش طبقے کی حمایت حاصل کرنے کی بجائے ’’ڈیموکریٹس کے اتحاد‘‘ جیسا خود کش طریقہ کار اپنایا جس میں ورکرز پارٹی کا دیگر عوام دشمن دائیں بازو کی بورژوا پارٹیوں کیساتھ اتحاد شامل تھا۔ یہ وہی سرمایہ داروں کی پارٹیاں ہیں جنہوں نے دو سال پہلے ورکرز پارٹی کی صدر ڈلماروزیف کو کرپشن کے الزامات لگا کر حکومت سے فارغ کرایا تھا۔
حداد کے ان روایتی مزدور دشمن سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کے بعد عوام کی نظر میں بولسونارو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف واحد امیدوار بن کر رہ گیا۔ امریکہ میں ڈونلڈٹرمپ کی طرح (جس نے اسٹیبلشمنٹ اور سٹیٹس کو کے خلاف نعرے بازی کی) بولسونارو نے بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف اور گلے سڑے کرپٹ سٹیٹس کو کے خلاف نعرے بازی کی تھی۔ جبکہ دیگر پارٹیاں گزشتہ عرصے میں اقتدار میں حصہ دار رہی تھیں۔
سنجیدہ سوشلسٹ متبادل کی عدم موجودگی میں (اور 4کروڑ 20 لاکھ ووٹ نہ ڈالنے والوں کی وجہ سے) بولسونارو کی نظام مخالف بیان بازی کامیاب ہوئی۔ جبکہ حقیقت میں بولسونارو سرمایہ دارانہ سٹیٹس کو کا ہی انتہائی خام اور بے شرم تسلسل ہے اور وہ اپنے الٹرا لبرل اور مزدور دشمن ایجنڈے کی بنیاد پر برازیل کو سامراجی مالیاتی سرمائے کے ہاتھوں میں دے دے گا۔

جبر کے خلاف طلبہ کا جوابی حملہ!
الیکشن سے پہلے ہی برازیلی نوجوانوں نے بولسونارو گورنمنٹ میں ہونے والے جبر کا ذائقہ چکھ لیا تھا۔ 20 سے زیادہ یونیورسٹیوں پر ملٹری پولیس نے حملہ کیا اور ’فاشسٹ مخالف‘ مواد کو قبضے میں لے لیا اور ’الیکشن میں شفافیت‘ کے نام پر ’نظریاتی مواد‘ کو بنیاد بناتے ہوئے کلاسز میں بھی خلل ڈالا۔ در حقیقت یہ بولسونارو کے خلاف غصے کو روکنے کی ایک واضح کوشش تھی۔
ریو (Rio) میں عدالتوں نے فلومینینس فیڈرل یونیورسٹی (Fluminense Federal University) کو یہ حکم دیا کہ وہ لاء سکول کی بلڈنگ سے فاشسٹ مخالف بینر کو اتروائے اور 12گھنٹے کے اندر یہ بینر نہ اتروانے کی صورت میں یونیورسٹی ڈائریکٹر کو گرفتار کرنے کی دھمکی دی۔ پولیس نے میریلے فرانکو (Marillie Franco) کی حمایت والے جھنڈے اور بینر بھی اتروائے (سوشلزم اور لبرٹی پارٹی کی جانب سے ریو کا سٹی کونسلر، جسے 2008ء میں قتل کر دیا گیا تھا)۔ ریو گرینڈ دو سل (Rio Grande Do Sul) میں ’فاشزم کے خلاف، جمہوریت کیلئے‘ کے عنوان پر ہونے والے پروگرام پر بھی انتخابی کورٹ کی جانب سے پابندی لگا دی اور اسکے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر بولسونارو کے خلاف بولنے کی پاداش میں لیکچرر کو بھی ملٹری پولیس کی جانب سے گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی۔ اسی طرح کی کئی اور کہانیاں بھی پورے برازیل میں رپورٹ کی گئی ہیں۔
ریاست کی یہ چالبازیاں اپریل میں عدلیہ کی مداخلت کا ہی تسلسل ہے جس نے ورکرز پارٹی کے امیدوار لولا (Lula) پر کرپشن کے الزامات لگا کر الیکشن لڑنے سے روکا۔ اس فیصلے کے وقت لولا برازیل میں سب سے زیادہ مشہور سیاست دان تھا۔
برازیلی ریاست کے اندر یہ بوناپارٹسٹ رجحانات (جس میں عدلیہ اپنے آپ کو طبقات سے بلند کر کے براہ راست حکمران طبقے کے مفادات میں مداخلت کر رہی ہے) بولسونارو گورنمنٹ میں مزید شدت اختیار کریں گے۔
سرمایہ دارانہ بحران کے حالات میں بولسونارو بورژوا جمہوری عمل کو بائی پاس کرے گا اور ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رجعتی پالیسیاں برازیلی عوام پر لاگوکرے گا۔ البتہ اس عمل سے وہ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کیساتھ مقابلے میں آئے گا جو پہلے سے ہی نئی حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
بائیں بازو کے طلبہ نے ریاستی جبر اور دھمکیوں کا جواب اپنے جمہوری حقوق کیلئے منظم ہو کر دیا ہے۔سوموار کے دن بولسونارو کے محض 15 حمایتیوں نے یونیورسٹی آف ساؤ پولو کے احتجاج میں حصہ لیا (یہ اس سے کہیں کم تعداد ہے جنہوں نے فیس بک پر دلچسپی کا اظہار کیا تھا)۔ جبکہ انکے جواب میں بائیں بازو کے 500 طلبہ نے مظاہرہ کیا اور بولسونارو مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے انکے مارچ کو توڑکر آگے بڑھ گئے۔
اسی طرح برازیلیا یونیورسٹی کے طلبہ نے بولسونارو کے 30 حامیوں کا بھرپور جواب دیا جو ’کمیونسٹوں کا شکار‘ کرنے آئے تھے اور انہیں بھگا دیا۔ بولسونارو کے حامیوں نے پیلے اور سبز برازیلی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے اور نئے صدر کی تصویریں اٹھائی ہوئی تھیں۔ اسکے جواب میں سینکڑوں طلبہ نے کیمپس کے داخلی دروازے میں رش لگا لیا اور بولسونارو کے حامیوں کو اندر داخل ہونے سے روکا۔ اس کے نتیجے میں ہاتھا پائی بھی ہوئی جس میں حملہ آوروں کو شکست ہوئی۔
اس طرح کا مضبوط جواب مستقبل کی طرف درست سمت کا تعین کرتا ہے اور دیگر نوجوانوں اور محنت کشوں کیلئے ایک مثال ہے۔

مزاحمت کو تیار کرو!
یہ جھڑپیں مستقبل میں ہونے والی طبقاتی جنگوں کا پیش خیمہ ہیں۔ البتہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مستقبل میں بولسونارو اور اسکے ٹھگ اگر نوجوانوں اور محنت کشوں کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نوجوانوں اور طلبہ کو چاہیے کہ وہ محنت کش طبقے کیساتھ جڑت بنائیں جن کی نمائندگی بڑی تنظیمیں جیسے ٹریڈ یونین کنفیڈریشن (CUT) کر رہی ہیں اور اس نئی رجعتی حکومت کے خلاف مل کر ایک جدوجہد کا آغاز کریں۔
پوری دنیا کے سرمایہ داروں نے بولسو نارو کو گرم جوشی کیساتھ خوش آمدید کہا ہے، جس نے سرکاری نوکریوں میں کٹوتیاں کرنے، ٹریڈ یونینوں پر حملے کرنے اور برازیل کو عالمی (سامراجی) سٹے بازوں (سرمایہ داروں) کو خوب منافع بٹورنے کیلئے کھولنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ عالمی مزدور تحریک اور پوری دنیا کے ترقی پسند طلبہ کا فریضہ ہے کہ وہ بولسونارو کے خلاف طلبہ کی جانب سے کی جانے والی مزاحمت کیساتھ یکجہتی کریں، جنہوں نے جسمانی طور پر اپنے کیمپس میں رجعتی قوتوں کا دلیری سے مقابلہ کیا ہے۔
یہ الیکشن برازیلی نوجوانوں اور محنت کشوں کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ مگر اصل مقابلہ تو ابھی آنے والا ہے۔ اوپر والی مثالوں سے صاف واضح ہے کہ بولسونارو کے حامیوں کے خلاف طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد متحرک ہے جس سے برازیلی سماج میں طاقتوں کا توازن واضح طور پرمحسوس کیا جا سکتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس الیکشن سے سبق حاصل کرتے ہوئے فسطائیت سے لڑنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحارب طبقات کی مفاہمت کے بجائے محنت کش طبقے کی تمام تر قوتوں کو منظم کرتے ہوئے ایک جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔

انگریزی میں آرٹیکل Brazilian students stand up to Bolsonaro

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.