انقلابی روایات کو تازہ کرتے الجزائری طلبہ

|تحریر: انس رحیمی، ترجمہ: سلمیٰ|

اتوار، 19 مئی نے الجزائر کے انقلاب کو، جو ابھی بھی دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے، ایک نیا موڑ دیا جب ہزاروں طلبہ ایک حقیقی تبدیلی کے لیے الجزائر کی گلیوں میں نکل آئے۔

انگریزی میں آرٹیکل:

https://www.marxist.com/algerian-students-retying-the-knot-of-history.htm

طلبہ کا جلوس الجزائر میں مرکزی یونیورسٹی کے سامنے اکٹھا ہوا جہاں انہوں نے نیشنل پیپلز اسمبلی(الجیرین پارلیمنٹ) کے ہیڈکوارٹر کی جانب ایک مارچ منظم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جبر کی قوتوں نے انہیں روکنے کے لیے پُرتشدد مداخلت کرتے ہوئے بہت سوں کو زخمی کیا اور بہت سوں کو حراست میں لے لیا۔

پھر طلبہ مرکزی پوسٹ اسکوائر (central post square) کی جانب بڑھے جو کہ انقلابی تحریک کے آغاز سے ہی ایک ایسے مقام کی حیثیت رکھتا ہے جہاں تمام جلوس آکر ملتے ہیں۔ وہاں انہوں نے دھرنا دیا اور ان پر کیے جانے والے جبر کی مذمت کرتے ہوئے نعرے لگائے اور آمریت کے خاتمے، پرانی حکومتوں کے تمام نمائندوں کی بے دخلی اور تمام طاقت کو عوام کے ہاتھ میں دینے کا مطالبہ کیا۔

انقلابی روایات

یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا احتجاج نہیں ہے۔ موجودہ انقلابی تحریک کے آغاز، 22 فروری سے ہی الجزائر کے طلبہ ہر منگل کے دن مظاہرہ کرتے آرہے ہیں۔ لیکن اس دن (19 مئی) کا امتیاز یہ تھا کہ یہ ”الجزیری طلبہ کے قومی دن“کے ساتھ بیک وقت ہو رہا تھا، جو کہ الجزائر کی ہم عصر تاریخ میں ایک اہم بڑھوتری تھی، اس جلسے نے 63 سال پہلے الجزائرکے انقلاب میں طلبہ کی کثیر اور منظم شرکت کی یادداشت کو دوبارہ تازہ کر دیا۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ طلبہ نے حال کو ماضی کے ساتھ نتھی کے لیے تاریخ کے دھاروں کو دوبارہ جوڑنا شروع کر دیا ہے۔

الجزیری طلبہ نے الجزیری انقلاب میں فرانس کے نوآبادیاتی نظام کے خلاف فیصلہ کن انداز میں شرکت کی، خاص طور پر 19 مئی 1956 میں جب انہوں نے اپنی یونیورسٹیوں اور ہائی سکولوں کو چھوڑ کر الجزائر کے اندر اور باہر ہونے والے انقلاب میں صف آرا ہو کر ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت طلبہ نے انقلاب کو جو سب سے اہم چیز دی وہ نظریات تھے۔ ایک بار جب وہ اس تحریک میں شامل ہوگئے، پھر انہوں نے انقلابی میڈیا کو بھی ایک معیاری جست لگائی۔ احمد مریوش (Ahmed Mariouche) نے الجزائر کی طلبہ تحریک کے بارے اپنی تحقیق میں بتایا کہ:

”انقلاب کے دوران طلبہ نے میڈیا کی خدمات سر انجام دینے کی ذمہ داریاں خود سنبھال لیں تھیں، جیسے کہ ریڈیو، اخباروں اور رسالوں کی اشاعت جن میں ’انقلاب‘، ’پہاڑ کی آواز‘، ’جنگ‘، ’الجزائر کی مزاحمت‘، ’المجاہد‘ اور دیگر رسالے شامل تھے۔ (ص 352)

المجاہد نے بتایا کہ الجزائر کے طلبہ:

”جدوجہد کے میدان میں داخل ہو چکے تھے اور پہاڑوں پر فوج کے سپاہی، سیاسی کمشنر، نرسیں یا اساتذہ جنہوں نے شہریوں کو صحت کے معاملات سے لے کر لکھنے پڑھنے تک زندگی کے ضروری عمومی اصول واضح کیے۔۔۔“ (ص 367)

کیپٹن محمد سیقی (Captain M Saiki) اپنی یادداشتوں میں بتاتے ہیں کہ:

”18 مئی 1956ء کی ہائی سکول کے طلبہ کی ہڑتال نے انقلاب کے تسلسل کو آگے بڑھایا۔“ (ص335)

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ان(طلبہ) کے لیے اہم ترجیح ٹھیک اس وقت کی موجودہ جدوجہد کی بین الاقوامی سمت تھی۔ الجزائر کی طلبہ یونینوں نے بشمول فرانس، پوری دنیا کے لوگوں کو انقلاب کے مقاصد اور فرانس کی سامراجیت کے جرائم سے آگاہ کرنے کے لیے درخواستیں جاری کیں۔ انہوں نے الجزائر کے لوگوں کے ساتھ بین الاقوامی یکجہتی کی التجا کی۔ یہ بات المجاہد کے اخبار سے تصدیق شدہ تھی جو انقلابی طلبہ کی بات کر رہا تھا کہ طلبہ

”جو لوگوں کے آگے الجزائر انقلاب کی حقیقت واضح کرنے کے لیے پوری دنیا کے ممالک میں پِھر رہے ہیں، جس کی تصویر کو مسخ کرنے کے لیے نوآبادیاتی پراپیگنڈہ ایک بھاری بھرکم رقم صرف کر رہا ہے۔۔۔“(ص 368)

مختصراً، موجودہ انقلابی تحریک کو بھی طلبہ سے اسی چیز کی ضرورت ہے۔ اسے نظریات، ایک انقلابی پروگرام اور ایک بین الاقوامی رویے کی ضرورت ہے۔ آج انقلابی عوام بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں کیا نہیں چاہیے، وہ حکمران مافیہ کی مزید حکمرانی نہیں چاہتے، وہ آمریت، بدعنوانی، سختی، غربت اور بے روزگاری نہیں چاہتے۔ مظاہروں میں اُٹھنے والے نعروں میں یہ بات واضح نظر آتی ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ درحقیقت کیا چاہتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ متبادل کیا ہے اور ان کے پاس اس سماج کو بدلنے کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔ یہیں پہ وہ اہم کردار آتا ہے جو طلبہ تحریک ادا کر سکتی ہے۔

طلبہ اور مزدور: یکجہتی اور جدوجہد!

آج الجزائر کے طلبہ کو اپنی شاندار تاریخ کی قدروقیمت میں اضافہ کرنے کے لیے انقلابی تحریک کی توقعات اور ان تاریخی اہداف کو، جن کا آج انہیں سامنا ہے، پانے کے لیے خود کو جمہوری طور پر منظم کرنا ہوگا تاکہ طلبہ اپنے نمائند گان کا چناؤ کرنے اور انہیں کنٹرول کرنے کا حق حاصل کر سکیں۔ تمام یونیورسٹیوں اورہائی سکولوں میں طلبہ کی کونسلیں اور ہڑتالی کمیٹیاں بنا کر انہیں مقامی اور قومی سطح پر جوڑنے کی ضرورت ہے۔

انہیں محنت کش طبقے کے ساتھ بھی ایک موثر اور مستقل تعلق پیدا کرنا ہوگا۔ انہیں کارخانوں میں محنت کش طبقے کے پاس اور غریب ہمسایوں کے پاس جانا ہوگا اور اپنی جدوجہد کو ان کے ساتھ ملانا ہوگا۔ طلبہ کو مزدوروں اور ٹریڈ یونین میں کام کرنے والوں سے سیکھنے اور انہیں سکھانے کے لیے انہیں یونیورسٹیوں اور طلبہ کے جلسوں میں دعوت دینی ہوگی۔ حتمی تجزیے میں، صرف محنت کش طبقہ ہی وہ انقلابی طبقہ ہے جو موجودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہی دولت کے حقیقی پیداکار ہیں اور ان کے کام کے بغیر نہ تو کوئی پہیہ چل سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مشین حرکت کر سکتی ہے۔

الجیریا کی انقلابی تاریخ میں طلبہ کا کلیدی کردار تھا۔ اب وہ اسکے مستقبل کا تعین کریں گے۔ تصویر/ فیتھی ہملاٹی

اصلاح پسند اکثر ”سویلین حکومت“، ”سیاسی آزادی“ وغیرہ کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولتے کہ کون دولت پر اجارہ داری کرتا ہے اور کون بڑی بڑی کمپنیوں، بینکوں، زمینوں اور تیل کے ذخائر وغیرہ کا مالک ہے۔ ہمارا ان کے لیے وہی جواب ہے جو لینن نے لمبہ عرصہ پہلے دے دیا تھا:

”سرمایہ دارانہ سماج میں آزادی ہمیشہ ویسی ہی آزادی ہوتی ہے جیسی قدیم یونانی جمہوری نظام میں ہوتی تھی،یعنی آقاوں کو غلام رکھنے کی آزادی۔“ اور ”کسی بھی حد تک ملی ہوئی سیاسی آزادی بھوکی عوام کو اطمینان نہیں دے سکتی۔“

اس لیے، انقلاب کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ہونے والی چند اصلاحات تک رک نہیں جانا چاہیے بلکہ اسے بینکوں، بڑی کمپنیوں، کوئلے کی کانوں، زمینوں کو قومیا (nationalise)کر اورانہیں غریب کسانوں اور مزدوروں کی کونسلوں کے جمہوری کنٹرول میں لا کر اس نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہیے۔

سرمایہ دارانہ نظام بذاتِ خود غربت، بے روزگاری اور آمریت کی اصل وجہ ہے۔ لہٰذا، اگر ہم سچ میں ان برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور الجزائر کے لوگوں کی زندگی اور کام کرنے کے حالات میں حقیقی اور دائمی تبدیلی برپا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام اپنانا ہو گا۔

الجزائر میں سوشلسٹ انقلاب کے لیے

دنیا بھر کے محنت کش اور خاص طور پر سوڈان، مراکش، تیونس، مصر اور مشرق وسطیٰ کے محنت کش الجزائر کے انقلاب سے بہت ہمددردی رکھتے ہیں اور اس کی فتوحات کو سلام پیش کرتے ہیں۔ طلبہ تحریک کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی سمت کو اتنی اہمیت دے جس کی وہ مستحق ہے اور الجزائر کے انقلاب سے اظہارِ یکجہتی کرنے اور اس کی مثال کی تقلید کرنے کے لیے علاقائی اور پوری دنیا کے محنت کشوں کو بین الاقوامی بلاوے بھیجے۔

آخری اور انتہائی اہم بات کہ انہیں حالیہ سالوں میں خطے کے اندر ہونے والے انقلابی تجربات سے سیکھنا چاہیے،خاص طور پر مصر سے، جہاں انقلابی نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے جراتمندانہ کردار کے باوجود انقلابی تحریکیں شکست خوردہ ہوئیں۔ ان ناکامیوں کی سب سے اہم وجہ انقلابی قیادت کی غیر موجودگی تھی، ایسی پارٹی جس نے 100 سال پہلے انتہائی طاقتور زار (Tsar) حکومت کو اُکھاڑ پھینکنے کے لیے روس انقلاب کی قیادت کی اور تاریخ کی پہلی مزدور ریاست تعمیر کی۔

جیسا کہ 1905 کے انقلاب سے پہلے لینن نے روسی نوجوانوں کو بتایا کہ:

”نوجوانوں کو اپنی سرگرمیوں کا اولین مقصد دنیا کے بارے مکمل اور واضح سوشلسٹ نظریے کو اپنے کارکنان کے اندر جذب کرنا اور انہیں مارکسزم سے مکمل طور پر آگاہ کرنا بنانا چاہیے، انہیں نوجوانوں کے ان جعلی دوستوں سے خبردار رہنا چاہیے جو انقلابی تربیت سے ان کا دھیان بٹاتے ہیں۔“

اب انہیں بغیر تاخیر کیے مزدوروں اور نوجوانوں کی جدوجہد کے ساتھ قریبی تعلق بناتے ہوئے مارکسی حلقے تشکیل دینے چاہیئیں، تاکہ الجزائر کے محنت کش طبقے کو وہ پارٹی مل سکے جس کا وہ حقدار ہے۔

اس طریقے سے، اور صرف اسی طریقے سے الجزائر کی طلبہ تحریک موجودہ انقلابی تحریک میں معیاری بڑھوتری کرنے اور سرمایہ داری اور بدمعاشوں کی حکومت پر حتمی اور مکمل فتح حاصل کرنے کی جانب بڑھنے کے قابل ہو سکے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.