لاہور: پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کا طلبہ کو ایک ہفتے کے اندر داخلہ فارم جمع کرانے کا حکم، طلبہ پریشان

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، لاہور|

پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور کی انتظامیہ کی جانب سے دو دن پہلے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق طالب علموں کو 13 جولائی تک کالج فیس کے ساتھ داخلہ فیس اور فارم بھی جمع کروانا ہوں گے۔ اس اعلان کے بعد طلبہ میں اس نوٹیفکیشن کو لے کر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ پچھلے تین چار ماہ سے لاء کالج کے طلبہ امتحانات اور داخلے کے حوالے سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دور چار تھے۔ آن لائن کلاسز سے لے کر اس اعلان تک انتظامیہ کی جانب سے کسی واضع حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اب اچانک دور دراز علاقوں میں بیٹھے طلبہ کو محض چند دن کا وقت دیا گیا ہے اور اس میں بھی ہفتہ اور اتوار کی چٹھی ہے۔ اس کے علاوہ باقی دنوں میں بھی 9 سے لے کر 12 بجے تک کوئی سٹوڈنٹ اپنا فارم اور فیس جمع کروا سکتا ہے۔ اب بلوچستان اور کے پی کے اور جنوبی پنجاب سے آنے والے طلبہ اپنے فارم کس طرح جمع کروائیں گے؟ اس کا بہتر جواب انتظامیہ ہی دے سکتی ہے جو ابھی محض منافع خوری کے علاوہ کچھ کرتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔

فارم جمع کروانے کا طریقہ کار بھی وہی پرانا ہے۔ طلبہ کی تعلیم کے لیے انتہائی فکر مند آن لائن تعلیم دینے پر بضد انتظامیہ نہ جانے کس وجہ سے طلبہ کو یونیورسٹی میں آ کر فارم جمع کرانے پر مجبور کر رہی ہے، حالانکہ فیس اور داخلہ فارم کو آن لائن بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ نام نہاد تعلیم دوست انتظامیہ کے اس رویے سے صرف یہی چیز ظاہر ہوتی ہے کہ انہیں طلبہ کو درپیش مسائل سے کسی قسم کا کوئی سروکار نہیں اور درحقیقت طالب علموں کو اذیت پہنچانے اور نیچا دکھانے میں انہیں خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ایسے ہتھکنڈوں کا حقیقی مقصد طلبہ پر اپنی اتھارٹی جتانا ہی ہوتا ہے۔ طالب علموں کے لیے یونیورسٹی میں آ کر فارم اور فیس جمع کرانا انتہائی مشکل کام ہے. کئی طلبہ تو اتنے دور ہیں کہ ان کے لاہور پہنچنے تک فارم جمع کروانے کی تاریخ گزر چکی ہوگی۔ اور سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں بھی گردش کر رہی ہیں جن میں نظر آ رہا ہے کہ داخلے کے لیے طلبہ کا جم غفیر اکٹھا ہے اور کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔ مزید یہ کہ تمام ہاسٹل بند ہیں۔اگر دور دراز سے طلبہ بھاری کرایہ دے کر آتے ہیں تو فوراً انہیں واپس جانا پڑے گا۔ اتنے گھنٹوں کا لگاتار سفر اور کرائے طلبہ کے لیے جسمانی اور ذہنی اذیت کا باعث ہیں۔

پچھلے کئی ماہ سے طلبہ آن لائن کلاسز کو لے کر پہلے ہی کئی مشکلات کا شکار ہیں اور بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز کے خلاف ملک گیر سطح کے بے شمار احتجاج کر چکے ہیں۔

دوسری طرف چند دن پہلے وائس چانسلر آف پنجاب یونیورسٹی نے اپنی اس پالیسی کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ یونیورسٹی صرف اور صرف طلبہ سے ٹیوشن فیس لے گی۔ اس کے علاوہ جو سہولیات طلبہ کو باہم نہیں پہنچ رہیں مثلاً لائبریری، ٹرانسپورٹ، پارکنگ وغیرہ، ان کے پیسے نہیں لیے جائیں گے (اگر آپ کسی بھی شعبہ کا چالان فارم دیکھیں تو وہ آپ کو چالان فارم کم اور گراسری کی لسٹ زیادہ لگے گی)۔ لیکن وی سی کے اس اعلان کے باوجود طلبہ سے تمام تر چارجز وصول کیے جارہے ہیں۔ ٹیوشن فیس 23,000 ہے جبکہ چالان فارم 43,000 ہزار کا دیا جا رہا ہے۔ ان دنوں وباء کی وجہ سے زیادہ تر والدین کا کوئی ذریعہ آمدن ہی نہیں رہا اور 23,000 بھی دینا اکثریت کیلئے ناممکن ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ اس غیر معمولی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتظامیہ جرمانوں کی صورت میں ہزاروں روپے کا منافع کما رہی ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس اس عمل کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ جلد از جلد ان طلبہ دشمن اقدامات کو روکا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے ظالمانہ اور یکطرفہ فیصلوں کی وجہ انتظامیہ کی ناقابلِ چیلنچ اتھارٹی ہے اور طلبہ کے پاس کسی پلیٹ فارم کا نہ ہونا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتظامیہ کے جبر کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ تعلیمی اداروں میں جمہوری بنیادوں پر منتخب طلبہ یونینز کا موجود ہونا ہے۔ اس لیے طلبہ کو طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کے میدان میں آنا ہوگا۔

مصلحت یا جدوجہد، جدوجہد جدوجہد!

طلبہ یونین بحال کرو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.