’’کیا طلبہ آزاد ہیں‘‘، بہاؤالدین زکریایونیورسٹی ملتان کے طلبہ کے خیالات

1

(تحریر: حماد انصاری)
طلبہ کی آزادی؟ کیا مطلب ہے اسکا؟ ایک طالب علم سوچ کے آتا ہے کہ آج یہ سیکھنے کو ملے گا۔ یا وہ یہ سوچ کے آتا ہے کہ آج نئی جگہ جا رہاہوں تو میں نئے لوگوں سے ملوں گا۔لیکن اسے ملتا کیا ہے؟ محض اساتذہ کے ہاتھوں رسوائی۔ وہ لوگ جن کو وہ والدین کی جگہ سمجھ کر انکے تمام احکامات کا پالن کرتا ہے۔لیکن اصل میں کیا ہوتا ہے۔ وہ طالب علم اساتذہ کی ذاتی دشمنی اور پسند و ناپسند کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر کسی طالب علم کو اتنی ہی آزادی نہیں ہو گی کہ وہ کسی جگہ پر بیٹھ کر کھل کے بات کر سکے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ طلبہ آزاد ہیں؟ ایسی جگہ جہاں طلبہ علم حاصل کرنے کیلئے آئے ہیں وہاں کیمرے لگا کر ان پر نظر رکھی جاتی ہے تو طلبہ کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟ جہاں دھمکیوں کے ذریعے طلبہ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہو وہاں طلبہ کیسے آزاد ہو سکتے ہیں؟ جہاں اساتذہ کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں وہاں طلبہ آزاد نہیں ہو سکتے۔ جہاں ایک طالب علم کے حالات کا احساس کر کے اسکی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے چھوٹا سمجھ کر دبایا جائے، وہاں طلبہ آزاد نہیں ہیں۔۔طلبہ آزاد نہیں ہیں!

2

(تحریر: زین)
السلام علیکم! 
اس ناچیز کو زین کہتے ہیں۔ زین ایک طالب علم ہے جامعہ زکریا ملتان کا۔ زین کے تعلیمی سفر کا آغاز ’’ فیس کی کمی‘‘ اور ’’ محدود وسائل‘‘ سے ہوا۔ ایوننگ (evening) کی کلاسز کی فیسیں چونکہ زیادہ ہوتی ہیں تو زین کو کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ اوپر سے زین نے ان حالات میں تعلیمی سفر کا آغاز کیا۔ لیکن بہت جلد ہی زین کو یہ اندازہ ہو گیا کہ طلبہ کی ذہنی آزادی کو کس طرح منجمد کیا جاتا ہے۔ آپ کے خیالات اور آراء کی حوصلہ شکنی (discourage) کی جاتی ہے۔ کم عمری کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات ’’ زیادہ کورس دے کر ، کم پڑھا کر اور امتحانات میں کم نمبر دے کر یا فیل کر کے ناکامی کی ہتھکڑی مہیا کی جاتی ہے۔‘‘تو یہ کیسی آزادی ہے؟ ہاں ہم بظاہر شخصی طور پر آزاد ہیں، لیکن ذہنی طور پر ہم غلام ہی ہیں۔ اسکا حل کیا ہے؟ اس سٹڈی سرکل سے مخاطب ہوتے ہوئے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ انقلاب؟ اصلاحات؟ یا بس جو چل رہا ہے چلنے دیں؟

3

(تحریر: قدرت )
میرے نکتہ نظر کے مطابق طلبہ آزاد نہیں ہیں۔ کیونکہ بے شک ہم جسمانی طور پر آزاد ہو گئے لیکن شعوری طور پر ہم پھر بھی غلام ہیں کیونکہ سامراجی طاقت جو نظام یہاں پر چھوڑ کر گئی ہے وہ نظام ہی ہمیں غلام بناتا ہے۔ ہم آج جو بھی کام کرتے ہیں ، ہم مغرب یا سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی طاقتوں کوہی اپنا معیار بنا کر کرتے ہیں۔جو تعلیمی نظام ہمارے ہاں رائج ہے وہ محض اچھے کلرک ہی پیدا کر سکتا ہے ، کیونکہ سامراجی طاقت کو اُ س وقت کلرکوں کی ہی ضرورت تھی۔

4

(تحریر: امجد مہدی)
آزادی کا تصور کسی بھی کام کرنے کی آزادی کے علاوہ خصوصاََ طلبہ کے معاملے میں ’’سوچنے کی آزادی‘‘ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ جہاں تک ہمارے تعلیمی اداروں کی بات ہے کہ یہاں طلبہ آزاد ہیں تو اسکا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ یہاں جو چیزیں پڑھائی جاتی ہیں وہ ریاستی بیانیے کو طلبہ پر تھونپنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ لہذا یہاں آزادانہ سوچ کو پھلنے پھولنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔ مثلاََ اگر ایک طالب علم خاص طور پر مقابلے کے امتحان میں یا کسی بھی اور امتحان میں ریاستی تاریخ (جو کہ کھلا پروپیگنڈا ہے) سے مخالف کوئی اور رائے لکھتا ہے تو وہ یقیناََ امتحان میں ناکا م ہوتا ہے۔پس یہ بات ثابت ہوئی کہ طلبہ سوچنے کے معاملے میں آزاد نہیں ہیں۔ اگر وہ سوچنے میں ہی آزاد نہیں تو لازماََ عمل میں بھی آزاد نہیں ہو سکتے۔اسی طرح اختلاف رائے کی آزادی بھی سلب ہے۔ عمل میں آزادی نہ ہونے کی بڑی دلیل طلبہ یونین پر پابندی ہونا ہے۔ یوں نا تو وہ فیسوں بے جا اضافے پر سوال اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی انتظامیہ کی دوسری دہشتگردی اور بدمعاشیوں کے خلاف آواز بلند کر سکتے ہیں۔ 

5

(تحریر: عبدالوکیل)
کیا ہم آزاد ہیں؟ اسکا جواب میرے خیال میں سارا نفی میں آتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ آزادی جیسی نعمت سے محروم ہے۔ چاہے وہ میڈیا کی آزادی ہو، اظہار رائے کی آزادی ہو، مذہب کی آزادی ہو،یارہنے کی آزادی ہو ہمارا معاشرہ ان سب سے محروم ہے۔ سب سے پہلے میں جس پر نظر ڈالوں گا وہ ہے ’اکیڈمک آزادی‘۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اس لیے قائم کیا جاتا ہے تا کہ اس میں تنقیدی سوچ پروان چڑھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری یونیورسٹیوں میں یہ آزادی نہیں ہے۔ ان اداروں کو ریسرچ کیلئے بنایا گیا ہے، لیکن ریسرچ کرنے کا سازگار ماحول فراہم نہیں کیا جاتا۔ اس کی سب اہم وجہ ریاستی اداروں کی ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مداخلت ہے۔ کسی فلسفی نے کہا ہے کہ اگر اکیڈمک آزادی‘ جیسی آزادی پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو سمجھیں کہ عمومی آزادی کے سوال پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ ایک اور فلسفی نے تنقیدی سوچ کے حوالے سے کہا ہے کہ تنقیدی فکر کو سازگار ماحول فراہم کرنے کیلئے چھان بین کو جاری رکھتے ہوئے ان کو منظم کیا جائے۔اب اگر یونیورسٹی پر بات کروں تو یہاں تو سوال کرنے پر بھی پابندی ہے ، استاد سوالوں کا جواب دینے سے بھی ڈرتا ہے ، وہ دفتر میں جواب دینے کا کہتا ہے۔ کیونکہ انکے لیے بھی کیر ئیر کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اس آزادی پر پابندیاں صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ چین اور عرب ممالک میں بھی ہیں، ہندوستان میں بھی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (JNU) کے طلبہ پر ہندو شدت پسند وں نے BJPکی حکومت میں حملہ کیا۔ معاشرے کی ترقی میں ’اکیڈمک آزادی‘ بہت اہم ہے۔

6

(تحریر: عصمت اللہ)
ایک جمہوری مملکت میں رہنے کے ناطے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ طلبہ آزاد ہیں۔ اس ملک میں ماضی میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی گئی۔ موجودہ حالات میں طلبہ کافی آزاد ہیں۔ کیونکہ کہ اپنے تمام مسائل پر وہ بے دھڑک اپنے حقوق طلب کر سکتے ہیں۔ طلبہ کسی لحاظ سے بھی کسی سیاسی و غیر سیاسی گروہ کے تابع نہیں ہیں۔ طلبہ کسی مشکل کا شکار نہیں۔

7

(تحریر: محمد کاشف)
یونیورسٹی کی سطح پر طلبہ آزاد ہیں۔ زیادہ تر طلبہ اپنے مطابق تعلیم حاصل کرنے میں خود مختار ہیں۔ 
1 آج کل کا سب سے بڑا مسئلہ حراسگی (harassment)کا ہے جو کہ تقریباََ یونیورسٹی کے ہر ڈپارٹمنٹ میں ہو رہا ہے۔ اس میں بھی کافی حد تک طلبہ کی رضا شامل ہوتی ہے۔ اگر طلبہ کسی استاد یا فیلو کی مرضی خود پر نہ چلنے دیں تو کوئی بھی انہیں مجبور نہیں کر سکتا۔
2 اپنے کورس سے متعلقہ مواد طلبہ باآسانی انٹر نیٹ سے حاصل کر سکتے ہیں۔ 
3 زیادہ تر اساتذہ بھی اب طلبہ کے دباؤ میں آجاتے ہیں اور انکی مرضی کے مطابق ان کو نمبر دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر اساتذہ ایسا نہ کریں تو انکو طلبہ کی جانب سے عموماََ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

8

(تحریر: داؤد بخاری)
کائنات کے اصول کے مطابق ہر شعبے میں کسی نہ کسی طرح ایک ’balance‘ برقرار ہے۔ میرے مطابق یہی اصول طلبہ اور اساتذہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اس کو میں ریاضی کی زبان میں کچھ اس طرح کہہ سکتا ہوں کہ (student * teacher = constant)۔ کہیں پر طلبہ آزاد ہیں تو کہیں پر اساتذہ گویا ان کا پروڈکٹ ایک ’constant‘کی ہی صورت میں رہتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی کو ضرورت سے زیادہ آزادی مل جائے تو وہ اسکا ناجائز استعمال کرتا ہے۔ یہ آزادی اساتذہ کی صورت میں دیکھی جائے تو اس میں درج ذیل نکات ہیں: 
1 اپنی اجارہ داری
2 Favouritism
3 ذاتی انا میں آجانا
ان نکات کی بنیاد پر وہ جسے چاہیں، جیسے چاہیں اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ کبھی ’سپلی‘ کی دھمکی دے کر مفاد حاصل کرنا تو کبھی نمبروں کی لالچ دے مفاد حاصل کرنا۔ اسکا حل یہی ہے کہ طلبہ با شعور ہوں اور ہر ناجائز بات پر بجائے سر جھکانے کے آگے کھڑے ہو جائیں اور ’’ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘‘ کے تحت باقی تمام طلبہ ظلم کے شکار طلبہ کیساتھ بھرپور حمایت کریں۔ جبکہ اگر اس میں طلبہ کو ضرورت سے زیادہ آزادی حاصل ہو تو بدمعاشی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔طلبہ کو زیادہ سے زیادہ شعور دیا جائے تا کہ وہ آزادی کی صورت میں اس کا ناجائز استعمال نہ کریں اور قیدی کی طرح سر جھکائے ظلم برداشت نہ کرتے رہیں۔

9

(تحریر: افضل احمد مہمند)
آزادی تو ہر انسان کا بنیادی حق ہے کیونکہ اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ادھر ہم بات کرتے ہیں طلبہ کی آزادی کے حوالے سے۔ اگر ہم دنیامیں ترقی یافتہ قوموں کی ترقی پر غور کریں تو اسکے پیچھے ہمیں طلبہ کا کردار ضرور نظر آئیگا۔ اگر ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو اِدھر طلبہ کو وہ حقوق حاصل نہیں جو دوسرے ممالک کے طلبہ کو حاصل ہیں۔ ہمارے ملک میں غلط کو غلط اور درست کو درست بولنے کی آزادی بالکل بھی نہیں ہے۔ میرے خیال کے مطابق طلبہ آزاد تو کیا محفوظ بھی نہیں ہیں۔ KPKکو ہی دیکھ لیں وہاں کتنے طلبہ ٹارگٹ ہوئے ہیں۔ فاٹا میں کتنے سکول اور کالج دھماکوں سے اُڑ گئے ہیں۔ میں جس ایجنسی سے تعلق رکھتا ہوں وہاں میری آنکھوں کے سامنے 115سکول مسمار ہو چکے ہیں۔ اگر نصاب کو دیکھا جائے تو وہ بھی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت زمانہ قدیم کا معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح امیر کیلئے نصاب اور ہے جبکہ غریب کیلئے اور۔ اسی طرح چاروں صوبوں میں بھی نصاب مختلف ہے سراسر امتیازی سلوک ہے۔ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے جبکہ ہمارے ملک میں ایسے حالات ہیں کہ ہم سوال بھی نہیں کر سکتے۔ سوال کرنے سے پہلے ذہن میں ہزار بار یہ خوف آتا ہے کہ یہ سوال کرنے سے ہمارے ساتھ کیا ہوگا! اسی طرح پاکستان میں طالبات کو بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ 

10

(تحریر: نسیم وزیر)
اگر ہم آزادی کی بات کریں تو ہمارے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم تو قدرتی طور پر آزاد پیدا ہوئے ہیں، لیکن اگر موجودہ ماحول میں دیکھا جائے تو ہمیں آزادی کے مطلب کا بھی نہیں پتہ کہ یہ ہے کیا چیز۔ آزادی کا جو خیال ہمارے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے اسکا حقیقت سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں۔ کتابوں میں کچھ اور ہے جبکہ زمین پر کچھ اور۔ اگر طلبہ کی بات کریں تو وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان پر بھی پابندیوں کا انبار ہے۔ طالب علم کی حیثیت سے تو ہمیں دور دور تک آزادی بالکل بھی نظر نہیں آتی۔ اپنے دل کی بات کسی اور کو سنانا تو دور ہم اپنے دل میں بھی اسکے بارے میں نہیں سوچ سکتے۔ آج کل غریب انسان کس طرح تعلیم حاصل کرتا ہے کیا کسی نے سوچا ہے؟ کیا کسی نے تعلیمی نظام کے بارے میں کبھی سوچا ہے؟کیا کسی نے آج تک اپنے اساتذہ یا انتظامیہ (جو ان پر ظلم کرتے ہیں) کے خلاف بولنے کا سوچا ہے؟ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے جہاں ہم رہتے ہیں (ہاسٹل)، کیا وہ رہنے کے قابل ہیں؟ یہ تمام ہمارے بنیادی حقوق ہیں اور انکے لیے آواز اٹھانا بھی ہمارا بنیادی حق ہے۔ ہمیں اس غلامی کی سوچ کو توڑ کر پھینکنا ہوگا اور اکٹھے ہو کر اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی۔

11

(تحریر: محمد ساجد حسین)
پاکستان میں تقریباََ 30 فی صد طلبہ آزاد ہیں جبکہ 70فی صد طلبہ آزاد نہیں ہیں۔ جو طلبہ آزاد نہیں ہیں ان کی چند وجوہات ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ ہائی کلاس (حکمران طبقے) سے تعلق نہیں رکھتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ جس ماحول میں رہتے ہیں اس ماحول نے انکی نفسیات کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ جس ماحول میں رہتے ہیں اس نے انہیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی بربادی کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ماحول کے تابع کر لیتے ہیں اور جیسا چل رہا ہے ویسے ہی چلتے ہیں اسے تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ اسکے علاوہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ ویسے ہی مشکلات میں گھرے ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر فیسیں بڑھا دی جائیں، ان کو داخلہ نہ دیا جائے یا ان کو نمبر کم دیے جائیں تو وہ ان تمام حالات میں مجبوری کے مارے خاموش ہی رہتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ غریب گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ اگر وہ کسی سے کوئی شکایت کرتا بھی ہے تو اسکی سنتا کوئی نہیں۔ اسے اس بات کا بھی خوف ہوتا ہے کہ وہ کہیں کسی چنگل میں ہی نہ پھنس جائے۔ اسی لیے میرے نقطہ نظر کے مطابق محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ بالکل بھی آزاد نہیں ہیں۔ 
ایک دوسری قسم کے طلبہ بھی ہیں، جن کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ وہ بالکل آزاد ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے تمام بڑے عہدیداران کے ساتھ ان کی جان پہچان ہوتی ہے یا پھر شہر کے ان لوگوں کے ساتھ جو کسی بڑی پوسٹ پر ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کو کسی بھی کام میں مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، ان کے لیے ہر کام آسان ہوتا ہے۔ انکے نمبر بھی اچھے آتے ہیں اور بڑے بڑے لوگوں سے جان پہچان بھی بن جاتی ہے۔ ان کو فیسوں میں اضافے سے کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوتا۔ نہ ہی انکو ہاسٹل کے مسائل کا کوئی سامنا ہوتا ہے۔ہوتے تو یہ بھی طلبہ ہی ہیں مگر بالکل آزاد۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.